• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
برطانیہ سمیت یورپی اور مغربی ممالک میں حکومتی نظام کو چلانے کے لئے سیاسی پارٹیوں کی بنیادیں منشور پر رکھی جاتی ہیں۔ پارٹیاں خواہ چھوٹی ہوں یا بڑی باقاعدہ ایک نظام کے تحت چلتی ہیں، ان میں سے وہ پارٹیاں جو حکومت کے باہر ہوتی ہیں ان کی اپنی شیڈو حکومتیں ہیں، بڑی پارٹیوں نے شیڈو وزیر اعظم اور متبادل کابینہ تک بنائی ہوتی ہے۔ برطانیہ میں بھی اس قسم کا پارلیمانی نظام قائم ہے، یہاں پر دونوں بڑی پارٹیاں وقتاً فوقتاً حکومت میں آتی رہی ہیں، تاہم اپوزیشن پارٹی کی بھی باقاعدہ متبادل حکومت ہوتی ہے اور وہ حکومت کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوتی ہے۔ شیڈو وزیراعظم اور ان کی شیڈو کابینہ حکومتی پالیسیوں کو بہ نظر غائر دیکھتی ہے اور حکومتی پالیسیوں کے مقابلے میں اپنی پالیسیاں بھی عوام کے سامنے لاتی ہے اس طرح ملک کے اندر ایک چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ملک میں موجود دوسری چھوٹی بڑی پارٹیوں نے بھی اپنے طور پر شیڈو حکومتیں بنا رکھی ہوتی ہیں۔ ان کے شیڈو وزیر تو نہیں ہوتے تاہم انہوں نے اہم محکموں کے پارلیمانی ترجمان نامزد کئے ہوتے ہیں جو شیڈو کابینہ کی طرز پر کام کرتے ہیں، ان میں ایسی پارٹیاں بھی شامل ہیں جو کبھی حکومت میں نہیں آئیں اور شاید کبھی آئیں گی بھی نہیں مگر وہ مسلسل اپنے ترجمانوں اور پارٹی لیڈروں کے ذریعے اپنے نظریات کا پرچار کر رہی ہوتی ہیں، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان ترجمانوں کی بھی سیاسی تربیت ہوتی رہے تاکہ اگر ان کو کسی وقت حکومت مل جائے تو یہ حکومت کرنے کے لئے مکمل طور پر تیار رہیں مگر وطن عزیز میں ایسا نہیں ہوتا ! اگرچہ کچھ عرصہ سے دو پارٹیاں اقتدار میں آ جا رہی تھیں، اس لئے شاید ان کی سیاسی تربیت ہو رہی تھی اور انہیں حکومت یا اپوزیشن کرنے کا ڈھنگ بھی آنے لگا تھا مگر اس برس تیزی سے ابھر کر سامنے آنے والی تیسری بڑی پارٹی نے شاید حکومت کرنے کا انداز سیکھا ہی نہیں اور نہ ہی وہ حکومت کرنے کے لئے تیار نظر آتی ہے، حکومت میں آنے کے فوراً بعد اقتصادی پالیسی کے حوالے سے حکومت کے متضاد بیانات کی وجہ سے ڈالر کو پر لگ گئے، معیشت کھو کھاتے میں دھکیل دی گئی ملک کے اندر مہنگائی کا طوفان آ گیا۔ تحریک انصاف سے وابستگی رکھنے والوں کی توقعات ٹوٹ گئیں جو کارکن اس کی حمایت میں بولتے نہیں تھکتے تھے وہ اب ایک دوسرے سے منہ چھپائے پھر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں پاکستان میں تھا، مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کے میرے جو احباب تحریک انصاف کے گن گاتے تھے اب اس سے نالاں نظر آتے ہیں، اس پارٹی نے لوگوں کو دھرنا سیاست کے دوران اس قدر امیدیں دلا دی تھیں کہ لوگوں نے یہ سمجھا کہ پارٹی کی حکومت آنے کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، ان کی امیدیں مہنگائی کے بے قابو جن نے توڑ کر رکھ دی ہیں ! رہی سہی کسر بجلی و گیس کے نرخ اور ان کی لوڈشیڈنگ سے پوری ہو جائے گی، کاروباری افراد ڈالر کی قیمت بڑھنے اور روپے کی قدر میں بے پناہ بے قدری کی وجہ سے پریشان ہیں اور اس امید پر بیٹھے ہیں کہ شاید یہ حالات بہتر ہو جائیں، چند ہفتے قبل جب میں کراچی میں تھا تو میں نے پونڈ کے بدلے میں 172روپے منی چینجر سے لئے، اگلے ہی ہفتے جب راولپنڈی پہنچا تو وہاں پونڈ کی قیمت 164روپے ملی، میں نے منی چینجر کے ساتھ تکرار کی اور کہا کہ چند دن پہلے تو172روپے ملے تھے اب یکایک کیا ہوا کہ8روپے کم ہوگئے۔ منی چینجر نے کمال سادگی اور انتہائی گرمجوشی سے کہا کہ ’’وہ عمران خان سعودی عرب میں ہیں اور سنا ہے کہ سعودی عرب 5، 6 ارب ڈٓالر دیدے گا، اسی وجہ سے ریٹ بہتر ہوگیا ہے، اگر رقم مل گئی تو ڈالر مزید نیچے آ جائے گا جی‘‘۔ میں نے کہا کہ رقم دینے کے لئے سعودی عرب نے شرائط بھی تو رکھی ہوں گی۔ وہ کون پوری کرے گا؟ منی چینجر بولا کہ ’’ہمیں اس کا پتہ نہیں، ہم تو یہ جانتے ہیں کہ آج کی تاریخ میں ڈالر 8روپے سستا ہوگیا ہے‘‘۔ وہاں کے چند اور منی چینجرز نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نہ صرف کاروباری طبقہ بلکہ عام لوگ بھی اس ایڈہاک اکنامی کے ساتھ سمجھوتہ کر بیٹھے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح زندگی کی گاڑی چلتی رہے، ایسا لگتا ہے کہ کرکٹ اور فلاحی کاموں میں کمال دکھانے والے عمران خان اپنی سیاسی تربیت کے حوالے سے ذرا پیچھے رہ گئے ہیں، ان کے وزرا اور مشیروں کی سیاسی تربیت بھی نظر نہیں آتی، حکومت کو سو دن ہونے کو ہیں مگر ہر شعبے میں اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان اور ان کے وزرا سیاست کو سٹڈی کریں جب تک حکومت میں ہیں، اپنی پالیسیوں میں تسلسل لائیں تاکہ دنیا بھر میں ہونے والی جگ ہنسائی سے بچا جاسکے۔
تازہ ترین