• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلے لاہور آرٹس کونسل نے قابل تعریف ادبی کانفرنس کی اور اب یہ ڈول کراچی آرٹس کونسل نے ڈالا ہے۔ چار دن کی کانفرنس میں 21سیشن اور ہر سیشن میں سات سو سیٹوں پر مشتمل ہال بھرا ہوا نظر آ رہا تھا۔ یہ وہی شہر کراچی ہے جس میں ہر روز کم از کم دس لاشیں گرتی ہیں اور جگہ جگہ راستے بند ہوتے ہیں۔ کمال اس کانفرنس کا یہ تھا کہ جہاں منٹو اور میرا جی کے لئے باقاعدہ سیشن رکھے گئے وہاں بیاد رفتگاں کے عنوان سے سلیم الزماں صدیقی سے لے کر لطف اللہ خان اور ہاجرہ مسرور پر یادوں کی برات کھولی گئی مگر سب سے اہم وہ افتتاحی نشست تھی جس میں ہندوستان سے آئے ہوئے شمیم حنفی اور پاکستان سے انتظار حسین نے عہد حاضر کا منظرنامہ پیش کیا۔ شمیم صاحب کے لئے دقت یہ تھی کہ وہ اردو میں ہندوستان، پاکستان کے سارے لکھنے والوں کو شامل کرتے ہیں اس لئے وہ برصغیر کے سارے نئے اور پرانے لکھنے والوں کا جائزہ پیش کرتے گئے اور وضاحت کرتے گئے کہ میں اوّل تو ہندوستان، پاکستان کے لکھنے والوں کو الگ الگ کر کے نہیں دیکھ سکتا، دوسرے یہ کہ نئی جہت ہندی کے علاوہ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں لکھنے والوں نے پیش کی ہیں جب کہ انتظار حسین نے سارے ادب کا جائزہ لینے کے بعد اس بات پر زور دیا کہ گزشتہ دس برسوں میں ؟؟ اور خواتین کا ادب مبارزت کے انداز میں روبرو سامنے آ رہا ہے جس پر اردو ادب کی نئی اسلوبیاتی تنقیدی راہیں استوار ہو رہی ہیں۔ اسی طرح کے نئے زاویئے شاہدہ حسن اور فاطمہ حسن کے علاوہ فہمیدہ ریاض نے میرا جی کے حوالے سے پیش کئے۔ منٹو کو جانچنے کیلئے آج کے نقطہٴ نظر سے تشریح شمیم حنفی نے پیش کی اور مسعود اشعر نے کہا کہ جس تنگ نظری کے بارے میں منٹو نے اندازہ لگایا تھا وہ آج کے پاکستان میں نمایاں اور خون آشام نظر آتی ہے۔ بہت خوبصورت انداز زنبیل گروپ کا تھا۔ انہوں نے سیاہ حاشیے میں سے خوبصورت اقتباسات کی ریڈنگ کی اور سامعین سے بھرپور داد وصول کی۔ اسی طرح انگریزی میں معاصر ادب پیش کئے جانے اور اس کا اثر، عصری تحریکوں اور منظرنامے میں جس طرح ظاہر ہوتا ہے، یہ جائزہ بہت بلیغ تھا۔ ایک شخص جس کا انتظار تھا وہ جاوید صدیقی تھا جس کے لکھے ہوئے خاکے بہت کمال ہیں۔ ان کا ویزا بہت دیر میں لگا۔ ویزے کا یہی چکر چل رہا ہے کہنے کو تو بہت آسانیاں پیدا کر دی گئی ہیں مگر جو اشخاص ویزا فارم وصول کرنے کیلئے بیٹھے ہیں ان کا وہی انداز ہے کہ جیسے دشمن ہوں۔ خدا جانے یہ انداز کب بدلے گا اور کب آسانی سے ویزا مل سکے گا۔
کراچی آرٹس کونسل نے اپنی بلڈنگ کو نہ صرف وسعت دی ہے بلکہ اس میں خودکفیل ہونے کے سامان بھی پیدا کئے ہیں۔ بلڈنگ کا ایک حصّہ جو تین منزلوں پر مشتمل ہے اس میں دفاتر منتقل کئے گئے ہیں اور اوپر کا فلور ہم ٹی وی والوں کے پروگرام اور پروڈکشن کیلئے مختص کر دیا گیا ہے اور آج کل چھ منزلہ بلڈنگ بنانے میں مصروف ہیں جس میں مہمانوں اور وفود کے استقبال کیلئے 20کمرے بھی بنائے جائیں گے۔ حکومت سندھ بھی کراچی آرٹس کونسل کی اسی طرح مدد کر رہی ہے جیسے لاہور آرٹس کونسل کی مدد پنجاب گورنمنٹ کر رہی ہے۔ سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ پنجاب آرٹس کونسل کس مقصد کیلئے بنایا گیا ہے اور اس بے چارے کو کوئی پوچھتا بھی ہے کہ نہیں۔ دراصل ادارے چلتے ہیں ان شخصیات کے ذریعے جو کام اسٹاف سے اور حکومت سے دونوں طرح نکلوانا چاہتے ہوں اور جانتے بھی ہوں۔ کراچی میں احمد شاہ کی پوری ٹیم بڑے سلیقے سے کام کر رہی ہے اور تندہی سے جان مار رہی ہے۔ بالکل اسی طرح لاہور آرٹس کونسل کو چلانے بلکہ دوڑانے کیلئے عطاالحق قاسمی بہت سرگرداں ہیں ورنہ کہنے کو تو ٹیلی ویژن کے 72کے قریب ادارے ہیں۔ ریڈیو ہے، اکیڈمی آف لیٹرز ہے مگر کہیں ؟؟ ہیں بس اتنا ہی ہے۔ یہ سب ادارے ادب اور ادیبوں سے یا تو خوفزدہ ہیں یا اتنے جاہل ہیں کہ ان سے تعلق رکھتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ سنسان پڑی ہوئی اکیڈمی اور لاتعلق پڑے ہوئے ؟؟ بہت ہوا تو تھکی ہوئی کتاب کے بارے میں تقریب منعقد کر لی۔ وہی گھسے پٹے ادیب بلا لئے اور مقررہ وقت سے کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے تقریب شروع ہوئی۔ ہرچند کراچی میں بھی تقریب شروع کرنے کے بارے میں یہی حال تھا مگر رات تو ان کے پاس تھی، پھر دن میں سات، سات سیشن، کبھی رات کو بارہ بجے اور کبھی ڈیڑھ بجے تقریب ختم ہوتی تھی۔ کراچی والوں کیلئے یہ عمومی بات تھی مگر ہم جیسوں کیلئے یہ ذرا شب گزاری والا معاملہ بن جاتا تھا۔
مشاعرے سے لے کر تمام مباحث اور مذاکروں میں کہیں بھی تو یہ ذکر نہیں آیا کہ کراچی میں یہ جو روز کے دس بیس بندے بے وجہ مار دیئے جاتے ہیں آخر اس قصّے کا منظر اور پس منظر کیا ہے۔ یہ بھی نہیں سونگھا گیا کہ ملک بھر میں طالبان کیا کر رہے ہیں۔ یہ خودکش حملہ آور کس کو برباد کر رہے ہیں۔ ان مسلسل اذیتوں کا ادب پر کیا اثر پڑ رہا ہے اور کون ہے جو ان اذیتوں سے ہمیں چھڑا سکتا ہے۔ شاید یہ موضوع اس لئے نہیں چھیڑا گیا کہ کوئی نشست تو ایسی ہو جس میں ان تکلیف دہ باتوں کا احاطہ نہیں کیا جائے،کہیں تو ان باتوں سے گریز کیا جائے مگر جو ادب ان تکلیف دہ باتوں سے متعلق لکھا جا رہا ہے۔ ایک سیشن اس کے بارے میں بھی تو ہونا چاہئے تھا۔ کہیں تھم کر یہ بھی تو خود سے پوچھنا چاہئے تھا کہ ہم نے ان اذیت کوش باتوں سے کس قدر اپنی نئی پود کو خراب کیا ہے۔ ہمارے اور وزیرستان کے بچّوں کے درمیان اتنے فاصلے کیسے بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ کیا سبب ہے کہ وزیرستان کے نام پر جتنی رقم رکھی جاتی ہے وہ وہاں کی ترقی پہ خرچ نہیں ہوتی۔ یہ جو 20ممبران اسمبلی اور سنیٹ فاٹا کے علاقے سے ہیں وہ اپنی رقم کہاں خرچ کرتے ہیں۔ عورتوں کی کوئی بھی سیٹ قائم نہیں کرتے اور بچّوں کو بلا کسی تخصیص کے طالبان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یہ میری قوم کے بچّے ہیں، ان کے حوالے سے جو ادب لکھا گیا ہے اس پر بات ہم نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔ کہاں سے آئیں گے ادیب جو مسلسل کشت و خون کا قصّہ لکھیں گے۔ ایک تو فہمیدہ ریاض نے لکھا پھر اجمل کمال نے دو جلدوں میں شمارے اسی مرحلے پر شائع کئے۔ اب کوئی کانفرنس ہو جو بتائے کہ ہمارے ساتھ طالبان کیا کر رہے ہیں۔
تازہ ترین