• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی طرف سے طویل سفارتی رابطوں کے بعد بالآخر افغان حکومت نے جمعرات کی شام سپرنٹنڈنٹ آف پولیس پشاورکی میت پاکستانی حکام کے حوالے کردی۔ افغان حکومت نے تصدیق کی ہے کہ لاش ایس پی رورل محمد طاہر داوڑ کی ہے۔ ملکی سیکورٹی کے حوالے سے اس سے بڑا سوال کیا ہوگا کہ ملک کے دارالحکومت سے ایک اعلیٰ پولیس افسر نہ صرف اغوا کیا جاتا ہے بلکہ وہیں سے اسےافغانستان لیجا کر شہید کردیا جاتا ہے۔ پولیس کی جانب سے تصدیق سے قبل ایس پی کی مبینہ تشدد زدہ لاش کے ساتھ پشتو میں لکھے گئے خط کی تصاویر بھی وائرل ہو جاتی ہیں اور ایک سینئر عہدیدار بتاتا ہے کہ اسلام آباد پولیس نے کے پی پولیس کے ساتھ اس حوالے سے معلومات کا تبادلہ نہیں کیا، نہ ہی ایس پی کے اغوا اور ان کو سرحد پار لیجانے کی اطلاعات تھیں۔ جہاں تک افغانستان میں شہید ہونے والے پولیس افسر طاہر خان داوڑ کا تعلق ہے، اس بارے میں کوئی اطلاع سامنے نہیں آسکی کہ انہیں کہاں اور کس گروہ نے قتل کیا، البتہ پشتو زبان میں لکھے گئے خط میں ولایت خراسان کا نام لکھا ہے اور رسم الخط وہی ہے جو پاک افغان علاقے میں داعش استعمال کرتی ہے۔ خط میں شہید ایس پی کا نام لے کر لکھا گیا ہے ’’پولیس اہلکار جس نے متعدد عسکریت پسندوں کو گرفتار اور قتل کیا، اپنے انجام کو پہنچ گیا، دوسرے افراد کو محتاط رہنے کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔ طاہر خان داوڑ پر بنوں میں تعیناتی کے دوران دو خودکش حملے بھی ہوئے تھے ،جن میں محفوظ رہے لیکن 26اکتوبر کو انہیں اسلام آباد سے اغوا کر کے شہید کردیا گیا۔ پاکستان میں افغان سفیر عمر زاخیل وال نے الوداعی تقریب میں کہا کہ یہ دونوں ملکوں کے سوچنے کی بات ہے کہ کس طرح ایک ایس پی اغوا ہو کر افغانستان پہنچا اور مردہ حالت میں پایا گیا۔ بادی النظر میں یہ واقعہ کسی دہشت گرد تنظیم کے انتقام کا ہے لیکن ہماری سیکورٹی سے جواب کا طالب کہ کیا اب محافظ خود محفوظ نہیں؟ موجودہ حساس صورت حال میں ہمیں اپنی سیکورٹی کو فعال اور فول پروف بنانا ہوگا کہ ایس پی طاہر خان کی شہادت بہت سے خطرات عیاں کرنے کو کافی ہے۔

تازہ ترین