• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب میں طرز حکمرانی بہتر بنانے کیلئے وزیراعظم عمران کی مداخلت

اسلام آباد (انصار عباسی) کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے کہا ہے کہ وہ افسران کے بکثرت ٹرانسفر / پوسٹنگ سے گریز کریں۔ وزیراعظم کے ایک اہم مشیر نے اس نمائندے کو جمعرات کے روز بتایا کہ عمران خان نے دی نیوز کی حالیہ خبروں کا نوٹس لیا ہے جن میں پنجاب میں خراب طرز حکمرانی کے بار بار پیش آنے والے واقعات کا ذکر کیا گیا تھا، اور انہوں نے اس معاملے پر بزدار سے خود بات کی ہے۔ سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ بزدار کو عمران خان نے کہا ہے کہ افسران کی پوسٹنگ پر پہلے سوچ لیں اور اس کے بعد فیصلہ کریں، فیصلہ ہو جائے تو اس پر قائم رہیں۔ حال ہی میں اِس اخبار میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح پنجاب حکومت افسران کو مختصر عرصہ میں ایک عہدے سے دوسرے عہدے پر ٹرانسفر کر رہی تھی۔ اگرچہ ایسے کئی افسران تھے جنہیں چند ہفتوں میں کئی مرتبہ نئی پوسٹنگ دی گئی، لیکن دو کیسز ایسے ہیں جن کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی اور ساتھ ہی ان سے بزدار حکومت کی فیصلہ نہ کرنے کی صلاحیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اِس اخبار میں خبر شائع کی گئی تھی کہ پنجاب حکومت کی جانب سے دو ا فسران کو 15؍ سے 20؍ روز میں 5؍ سے 6؍ مرتبہ ٹرانسفر کیا گیا۔ دونوں افسران، عابد شوکت اور مظہر علی، کے بار بار ٹرانسفر کی مثال نہیں ملتی۔ اس سے یہ بھی ریکارڈ بن گیا کہ کس طرح حکومت نے افسران کی پوسٹنگ پر اپنا ارادہ ایک نہیں، دو، تین یا چار نہیں بلکہ پانچ سے 6؍ مرتبہ تبدیل کیا؛ وہ بھی صرف چند ہفتوں میں۔ پنجاب میں دیگر بھی ایسے افسران ہیں جنہیں چند ہفتوں میں دو یا تین مرتبہ ٹرانسفر کیا جا چکا ہے۔ یہ ٹرانسفر پوسٹنگ نہ صرف سپریم کورٹ کے انیتا تراب کیس کے فیصلے کی خلاف ورزی ہیں بلکہ حکمران جماعت کے اس عزم کی بھی نفی ہیں کہ سویلین بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کیا جائے گا۔ عجیب بات ہے کہ پنجاب حکومت یہ سب کرتی رہی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں بزدار حکومت کے قیام کے چند ہی دن بعد اس وقت کے ڈی پی او پاک پتن رضوان گوندل کو سیاسی دبائو میں آ کر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور اس میں بھی انیتا تراب کیس کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی۔ اس واقعے کی وجہ سے حکومت کو زبردست ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ چیف جسٹس پاکستان نے اس کیس کا از خود نوٹس لیا تھا اور یہ کیس اس وقت نمٹا دیا گیا جب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور اس وقت کے آئی جی پولیس کلیم امام نے افسر کو سیاسی دبائو میں آ کر غلط انداز سے ٹرانسفر کرنے پر سپریم کورٹ میں معافی مانگی۔ تاہم، ڈی پی او پاک پتن کیس نمٹائے جانے کے اگلے ہی دن انیتا تراب کیس کے فیصلے کے حوالے سے ایک اور بڑی خلاف ورزی کی گئ، اس وقت کے آئی جی پولیس طاہر خان کو غیر شائستہ انداز سے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ انہیں عہدے پر تعینات کیے جانے کے ایک ماہ بعد ہٹایا گیا۔ اگرچہ چیف جسٹس نے پنجاب آئی جی کے قبل از وقت تبادلے کا نوٹس لینے سے گریز کیا لیکن چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کو ایک مرتبہ پھر اس وقت مداخلت کرنا پڑی جب وفاقی حکومت نے آئی جی اسلام آباد پولیس جان محمد کو غیر شائستہ انداز سے ہٹا دیا، افسر کو عہدے کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور سیاسی دبائو میں ہٹایا گیا۔ اسلام آباد آئی جی پولیس ٹرانسفر کیس میں چیف جسٹس نے اشارہ دیا کہ سپریم کورٹ سابق آئی جی پنجاب طاہر خان کا کیس بھی اٹھا سکتی ہے۔ تاہم، ایسا نہیں کیا گیا۔ جس وقت میڈیا اور عدلیہ کی توجہ سینئر سرکاری ملازمین کے قبل از وقت اور متنازع ٹرانسفر پر ہے، اس وقت پنجاب حکومت نے جونیئر اور مڈ کیریئر افسران کیلئے ایسی ٹرانسفر پالیسی اختیار کر رکھی ہے جو نہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی پر مبنی ہے بلکہ پالیسی کی وجہ سے افسران راستے کا پتھر بن چکے ہیں۔

تازہ ترین