• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک وقت تھا جب والدین بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے ان کے پانچ سال کا ہوجانے کا انتظار کرتے تھےلیکن اب 2سال یا اس سے بھی کم عمر کے بچوں کو اسکول بھیجنا شروع کردیا جاتا ہے، جسے پری اسکولنگ کا نام دیا گیا ہے۔ پری اسکولنگ، تعلیمی نظام کا ایک لازمی حصہ سمجھی جاتی ہے اور تقریباً تمام ہی تعلیمی ادارے پری اسکولنگ کی جانب توجہ دے رہے ہیں۔ ہر اسکول میں اس کا مختلف نام دیا جاتا ہےجیسا کہ پری اسکول، نرسری، کنڈرگارٹن اور پلے اسکول۔ لیکن ان سب کا مقصد ایک ہی ہے، بچوں کو ابتدائی تعلیم کی فراہمی، جس کے ذریعے انھیں اسکول کی بڑی کلاسز میں پڑھنے کے لیے تیار کیا جاسکے۔

پری اسکولنگ کسی بھی بچے کی بنیادی تعلیم کا پہلااورلازمی جزو کہلائی جاسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر بچوں کو ابتدا میں ہی مضبوط اور مخلص ہاتھ سمجھداری سے تھام لیں تو یہ مستقبل کے ایک پھل دار درخت کی جڑیں بن جاتے ہیں۔ ایسی جڑیں جو ملک و معاشرے کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔

پری اسکولنگ کا آغاز

پری اسکولنگ کی تاریخ سے متعلق مختلف رائے موجود ہیں۔ پری اسکولنگ کا آغاز1800ء میں ہواجب یورپین ماؤں نے بچوں کو اسکول بھیجنے سے قبل گھر میں ابتدائی تعلیم دینا شروع کی۔ دوسری طرف پر ی اسکولنگ کا آغاز کرنے والوں میں سوئٹزرلینڈ کے جوہان ہینرچ (1777ء)، برطانیہ کے رابرٹ اوینز (1816ء)، جرمنی کے فیڈرچ فروبیل(1837ء) اور اٹلی کی ماریہ مونٹیسری (1906ء) شامل ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے ملکوں میں بچوں کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں ایک شعور دیا، تاہم 19ویں صدی میں ہی پری اسکولنگ یاکنڈرگارٹن کو باقاعدہ طور پر شروع کیا گیا۔

اہمیت

کہیں آپ کا شمار بھی تو ایسے والدین میں نہیں ہوتا، جو پری اسکولنگ کو پیسے کا ضیاع یا پرائیویٹ اسکول اونرز کی لوٹ کھسوٹ کی ایک نئی اسکیم سے تعبیر کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ کو اس سوچ میں تبدیلی لے آنی چاہیے۔جانتے ہیں کیوں ؟

٭نیورو سرجنز کے تحقیقی نتائج کے مطابق بچوں کی 98فیصد دماغی نشوونما اور اس میں آنے والی تبدیلیاں عموماً ابتدائی 4سالوں میں ہوتی ہیں، جس میں اگر دیکھا جائے تو پری اسکولنگ کے لیے بھی عمر کا انتخاب4سے5سال ہی منتخب کیا گیا ہے۔اس عمر میں بچہ جلدی سیکھتا ہے لیکن اس دوران اس بات کا خاص خیال رکھا جائےکہ بچہ دن میں10گھنٹے لازمی نیند لے۔ اس بات پر توجہ دی جائے کہ ابتداء سے ہی بچوں کو کیسے سیکھنا ہے تو وہ اسکول جانے کی عمر تک سیکھنے کے عادی بن جاتے ہیں۔ پری اسکولنگ کا مقصد ہی یہی ہے کہ بچوں کو یہ سمجھایا جائے کہ انھیں کیسے سیکھنا ہے، کیسے سمجھنا ہے تاکہ وہ خود ہی اپنی سوچ کے مطابق کہنے اور سننے کے عادی بنیں، یوں ان میں اعتماد بھی پیدا ہوتا ہے اور وہ ڈرے سہمے نہیں رہتے۔

٭پری اسکول ایجوکیشن کے دوران بچہ ابلاغ کے مختلف احساسات کی سمجھ بوجھ کرتا ہے۔ نشوونما کے اس دور میں صرف ظاہری جسامت میں تبدیلی رونما نہیں ہوتی بلکہ ذہنی نشوونما بھی تیزی سے پروان چڑھتی ہے۔

٭کنڈر گارٹن کے بچے یاد رکھنے، ذہن پر زور ڈالنے اور چیزوں، ناموں اور چہروں کو یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ نئے الفاظ کا استعمال کرنا اور ابلاغ کے ذریعے اپنے احساسات کو دوسرں تک پہنچانا بھی سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بچہ اس دور میں اپنے احساسات کو کنٹرول کرنا بھی سیکھ جاتا ہے۔

٭پری اسکولنگ کی اہمیت اس اسٹیج پر آکر اور بھی دُگنی ہوجاتی ہے کہ ماہرین پری اسکولنگ کو سوشل اسکلز(سماجی زندگی کیلئے درکار مہارتیں) پروان چڑھانے کا زینہ تسلیم کرتے ہیں۔ مغرب میں مختلف ریسرچز بھی اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ جو بچے پری اسکول اسٹوڈنٹ رہ چکے ہیں، وہ سوشل لیول پر دیگر بچوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ یہی بنیاد ان کو آگے چل کر رسمی تعلیم میں مدد کرتی ہے۔

٭پنسلوانیا اور ڈِیوک یونیورسٹی نے امریکا کے700بچوں کی زندگیوں کو کنڈرگارٹن سے لے کر 25سال کی عمرتک مانیٹر کیا اور دو دہائیوں بعد ان کے کنڈرگارٹن کی عمر میں سوشل اسکلز اور بلوغت کے زمانے میں کامیابی کے درمیان تعلق قائم کرنیکی کوشش کی گئی۔20سالہ تحقیق میں محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیںکہ وہ بچے جوکنڈرگارٹن کی عمر میں اپنے ہم عصر بچوں کے ساتھ تعاون کرتے تھے، اپنے مسائل خود حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

٭ پری اسکولنگ بچوں کو کسی بڑے گروپ کا حصہ بننے سے قبل اخلاقیات سے متعلق آگاہی اور سمجھ بوجھ عطا کرتی ہے ۔ بچہ جب باقاعدگی سے کسی تعلیمی ادارے کا حصہ بنتا ہے تو اسے وہاں کا ماحول سمجھنےمیں ان بچوں سے کم وقت درکار ہوتا ہے، جو پری اسکولنگ ایجوکیشن سے ناواقف ہوں۔

٭پری اسکولنگ کے دوران ہر ہفتے کوئی خاص دن منایاجاتا ہے مثلاً خواتین کا دن ،ماں کا عالمی دن،استاد کا عالمی دن وغیر ہ، جس کے سبب بچہ کم عمری میں ہی ان خاص دنوں سے متعلق معلومات حاصل کرنے لگتا ہے۔

تازہ ترین