• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی وال اسٹریٹ یا اخبارات اور بینکوں کی شارع کہلانے والے آئی آئی چندریگر روڈ پر بلند و بالا عمارات کے درمیان بھورے پتھروں سے بنی اسٹیٹ بینک میوزیم کی سربلند عمارت ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان میوزیم اینڈ آرٹ گیلری کی یہ عمارت 1920ء میں برطانوی دورِحکومت میںتعمیر کی گئی۔ اس کی تعمیر میں جودھ پوری سرخ پتھر کا شاندار استعمال کیا گیا ہے،جب کہ طرزِ تعمیر رومی و یونانی ہے۔ موجودہ نام اور تزئین و آرائش2004ء میں کی گئی جبکہ2006ء میں اسے محفوظ ورثہ قرار دیتے ہوئے پاکستان کے اولین اور واحد منی مانیٹرنگ میوزیم اور آرٹ گیلری کی حیثیت دی گئی۔ قبل ازیں یہاں اسٹیٹ بینک کی لائبریری ہوا کرتی تھی۔

سکندرِ اعظم دورکے سکوں کا مشاہدہ

میزنائن فلور سے داخل ہونے کے بعد یہ مقام گزرے زمانوں کے ایک دلفریب سفر کی داستان پیش کرتا ہے۔ یہاں آپ برصغیر میں استعمال کیے جانے والے سکوں اورکرنسی کی ابتدائی اشکال کو تلاش کرسکتے ہیں۔ سکندر اعظم کے عہد میں جاری کردہ سکے، دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی کرنسی اور صادقین کی نقاشی کا سب سے بڑا ذخیرہ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ زمانہ قدیم کی باقیات کی سیرکا آغاز سکوں کی شاندار کلیکشن سے ہوتا ہے۔ یکساں وزن کےچاندی کے ناہموار شکل کے سکے ، ان پر بہت سادہ مگر علامتی تصورات یعنی جانوروں اور فطرتی عناصرپر مبنی کندہ کاری ماضی کی عظمت کو ظاہر کرتے ہیں۔ برصغیر میں کرنسی کی پہلی شکل کی دریافت پانچویں صدی قبل مسیح میں ہوئی تھی۔

یہاں سے آگے بڑھیں تو تین سو قبل مسیح میں سکندر اعظم کے برصغیر پر دھاوے کے مناظر نظر آئیں گے۔ اس دور کے سکوں کی شکل میں تبدیلی واضح ہے، ان کے ڈیزائن میں یونانی دیوتاؤں اور وجہ شہرت کی کہانیوں کا اظہار ہوتا ہے۔ ان سکوں میں یونانی دیومالائی شخصیات کو بھی پیش کیا گیا ہے، جیسے سکے کے سامنے ہرکولیس کا سر جبکہ یونانی دیوتا زیوس پیچھے کی جانب کندہ ہے ۔ بیشتر سکے ان دونوں کے نقوش پر ہی مشتمل ہیں۔ معمول کی کرنسیوں کے ساتھ ساتھ یہاں سکندر کی جانب سے بادشاہ پورس کے خلاف ' جہلم کی عظیم جنگ میں کامیابی کے بعد جاری ہونے والے نایاب یادگاری سکے بھی میوزیم کا حصہ ہیں، جو اس جنگ کی یادگار ہیں۔ قدیم ادوار میںحکمران اسی وقت طاقتور تصور کیا جاتا، جب وہ ایک سکے کا اجراکرتا تھا۔ یہ بادشاہ کی شان و شوکت کا واضح اظہار ہوتے تھے۔ یونانی تہذیب اور سکندر کے بعد برصغیر میں آنے والے حکمرانوں کے آثار یا نشانیوں کو اسٹیٹ بینک میوزیم میں سکوں کی شکل میں محفوظ کرلیا گیا ہے۔ دھات کے ان چھوٹے ٹکڑوں کی صرف مالیاتی قدر وقیمت نہیں ہے بلکہ یہ اس عہد کے عقائد اور ثقافت کو بھی آگے منتقل کرتے ہیں۔ صدیوں پرانے یہ سکے جنگجوؤں، گھوڑوں کی پشت پر بیٹھے بادشاہوں، دیوتاؤں اور خدا کی الوہیت کا نقشہ کھینچ رہے ہیں۔

قبل از و بعد اسلام سکوں کا انتخاب

سکوں کی گیلری کو اسلام سے قبل اور بعد کی کیٹیگری میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مغلوں کی آمد کے بعد یہاں کی تہذیب میں نمایاں تبدیلی واقع ہوئی۔ مسلم عہد کا آغاز ہوا، جس کا اظہار ڈیزائن اور تعمیرات میں بھی نظر آتا ہے۔ اس عہد کے سکوں پر دفاعی آلات نظر نہیں آتے، نہ ہی گھوڑوں یا بادشاہوں کے چہرے دیکھے جاسکتے ہیں، ان کی جگہ فارسی خطاطی نے غلبہ پالیا۔ تمام مغل شہنشاؤں میں اکبر کے عہد کے سکے اپنے ڈیزائن کی بدولت سب سے الگ نظر آتے ہیں۔ اکبر کے سکے گول اور چوکور دونوں طرح کے ہیں، جس کے اوپر عام طور پر کلمہ تحریر ہے۔ پشت کی جانب " جلال الدین محمد اکبر" لکھا نظر آتا ہے۔ انہوں نے دین الٰہی کے خصوصی سکے بھی متعارف کرائے، جن پر " اللہ اکبر" پڑھا جاسکتا ہے۔ سب سے کم قیمت سکے کو " دام" کہا جاتا تھا۔ ایک دام کے بدلے اس عہد میں بیس کلو گرام تک خام مٹیریل خریدا جاسکتا تھا۔ برصغیر میں موجودہ عہد میں استعمال ہونے والے " روپے" کی اصطلاح شیر شاہ سوری کے "روپیہ" سے اخذ کی گئی ہے۔ یہ اصطلاح سنسکرت کے روپالو سے اخذ کردہ ہے، جس کے معنی خالص چاندی یا چاندی کے سکے کے ہیں، جو دراوڑی میں روپا سے نکلا ہے اور خوبصورتی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ دلچسپ امر یہ ہے کہ شیرشاہ سوری کے عہد میں جاری ہونے والا سکہ مکمل گول ہے، جس کے ایک طرف ستارہ داؤدی کندہ ہے۔ شیرشاہ سوری تاجر رہ چکے تھے،اس لیے غالب امکان ہے کہ انہوں نے اس علامت کا اضافہ ملک کے ساتھ یکجہتی کے لیے کیا ہو۔

ایک اور خاص سکہ نورجہاں کے نام سے سجا ہوا ہے۔ وہ واحد مغل ملکہ ہیں، جن کا نام چاندی کے سکوں پر کندہ کیا گیا۔

تازہ ترین