حکومت نے 195بیمار ریاستی ادارں کو بحال کرنے کیلئے ان کی نجکاری نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بیورو کریٹس کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی تین سالہ مدت کو محفوظ کرنے کیلئے 6ماہ میں بتائی گئی پالیسیوں پر عمل کریں۔ وزیراعظم عمران خان کے زیرِ صدارت اجلاس میں 2علیحدہ پالیسیوں کی منظوری دی گئی۔ پہلی نجکاری نہ کرنے کی اور دوسری یہ کہ حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے بیورو کریسی کو کیسے قابو کیا جائے۔ صحافیوں سے گفتگو میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بتایا کہ کابینہ نے سرمایہ پاکستانی کمپنی (ایس پی سی) بنانے کی منظوری دی ہے جو یہ فیصلہ کرے گی کہ کس طرح ان اداروں کو بحال کیا جائے، ان کے بقول ایس پی سی سنگاپور اور ملائیشیا کے ماڈل پر قائم کی جائے گی اور وزیراعظم اس کمپنی کے بورڈ آف گورنرز کے سربراہ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بیورو کریٹس کی وفاداری کے خواہاں نہیں، یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہماری پالیسیوں پر عمل کریں۔ کوئی شک نہیں کہ معاشی و اقتصادی استحکام مربوط و موثر پالیسیوں کے مکمل طور پر نفاذ کے بغیر حاصل نہیں ہوا کرتا۔ بادی النظر میں یہ پالیسیاں خواہ کیسی ہی عجب دکھائی دیں اور تنقید کا نشانہ بنائی جائیں، اگر یہ عرق ریزی سے مکمل ہوم ورک سے تیار کی جائیں تو ضرور ثمربار ہوتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق عصر حاضر میں نجکاری امپیریل کنٹرول کے تحت کی جاتی ہے کہ اس سے عالمی سرمائے کی گلوبلائزیشن میں جان پڑ جاتی ہے اور منجمد پڑے کھربوں ڈالر متحرک ہو کر غریب دنیا کو صارف کی منڈی بنا کر قرضوں میں جکڑ دیتے ہیں۔ نجکاری کا دائرہ عمل، احاطہ کار یا فریم ورک کا تعین معاشی طاقتوں کے ایما پر عالمی مالیاتی ادارے کرتے ہیں چنانچہ قومی اثاثے عالمی سرمائے کے تصرف میں آ جاتے ہیں، بقول مہاتیر محمد نجکاری نہ تو اندرونی قدر میں اضافہ کرتی ہے نہ ہی روزگار کو بڑھاتی ہے بلکہ اس میں کمی کا موجب بنتی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں حکومت کا فیصلہ انتہائی احسن ہے کہ نجکاری کے عمل سے گزر کر کوئی بھی ملک آج تک خود کفیل نہیں ہو سکا۔ 1951ء میں جب اورینٹ ائیر لائن پی آئی اے میں منتقل ہوئی تو چند سال میں اس کی بہترین گورننس اور اعلیٰ پروفیشنلز نے اسے دنیا کی بہترین ائیر لائنز کی صف میں لا کھڑا کیا، 1980ء کی دہائی تک اس ائیر لائن نے فضائوں میں حکمرانی کی۔ وزیراعظم عمران خان اب بھی ائرمارشل (ر) نور خان جیسے لوگ تلاش کر کے پی آئی اے ان کے حوالے کر دیں تو یہ پھر سے دنیا کی بہترین اور منافع بخش ائیر لائن بن سکتی ہے۔ البتہ اس حوالے سے دلیرانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ ریلوے کا حال بھی پی آئی اے سے مختلف نہیں جو ماضی میں بلکہ اب بھی عام آدمی کا پسندیدہ ترین ذریعہ سفر ہے۔ اس کی بربادی کا سفر بھی 80کی دہائی سے سیاسی رسوخ کا شاخسانہ ہے، اس محکمے کو بھی جی بھر کر لوٹا گیا، ریلوے کی بحالی کیلئے بھی ضرورت صرف نیک نیتی اور توجہ کی ہے کہ سی پیک کے تناظر میں یہ محکمہ پاکستان کیلئے بہت مفید ہو گا۔ ماسکو کا تحفہ اسٹیل ملز بھی ایسے ہی دردناک حالات کا شکار ہوا اور اگر سپریم کورٹ آڑے نہ آتی تو یہ ادارہ کوڑیوں کے مول بک چکا ہوتا۔ اداروں کی نجکاری نہ کرنے کے حوالے سے حکومت کا فیصلہ لائق ستائش ہے کہ اس نے یہ ادارے بحال کرنے کا چیلنج قبول کیا ہے، تاہم اس سلسلے میں عملدرآمد کو تیز کیا جائے تاکہ ان اداروں کی سروسز معاشی خسارے کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوں، خود یہ ادارے مستحکم ہوں، ان کے ملازمین آسودہ ہوں اور وطن عزیز کو خوشحال بنانے میں حصہ دار بنیں۔ اگرچہ بھارت بلکہ برطانیہ تک نے اپنے متعدد ادارے نجی تحویل میں دیئے اور فائدے میں رہے لیکن ہر ملک کے معاملات مختلف ہوتے ہیں۔ بہرکیف حکومت نے جو بھی ماڈل اپنانا ہے، جلد اپنائے تاکہ ملک میں بہتری کے آثار ہویدا ہوں۔ یہ بات بھی صد فیصد درست ہے کہ بیورو کریسی کو بھی درست راہ پر ڈالنا ضروری ہے اور امید ہے کہ یہ کام بھی حکومت کر کے رہے گی۔ یہ سارا عمل امیدوں کے مطابق ہو جاتا ہے تو پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں کوئی امر مانع نہ رہے گا۔