• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ ہائی کورٹ نے 20سے زائد گمشدہ بچوں کی بازیابی کے حوالے سے پولیس کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ وہ اس باب میں فوری طور پر تحقیقات کرے۔ جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کی سربراہمی میں دو رکنی بنچ نے، جو جمعرات کے روز روشنی ریسرچ نامی تنظیم کی جانب سے دائر آئینی درخواست کی سماعت کر رہا تھا، خدشہ ظاہر کیا کہ اس معاملے میں انسانی اسمگلنگ کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں مختلف مواقع پر بچوں کی گمشدگی میں انسانی اسمگلنگ کے پہلو سے متعلق کہانیاں سامنے آتی رہی ہیں اس لئے پچھلے دنوں رونما ہونےوالے بچوں کے اغوا اور گمشدگی کے واقعات بہت سے والدین کیلئےاضطراب کا باعث بنتے رہے۔ عدالت عالیہ سندھ میں بچوں کی بازیابی سے متعلق ڈی آئی جی کی رپورٹ پیش کی گئی تھی جسے غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے فاضل بنچ نے اپنے ریمارکس میں اس پر تشویش کا اظہار کیا کہ23میں سے صرف ایک بچی کو بازیاب کرایا گیاہے۔ کراچی سمیت سندھ اور دیگر صوبوں میں شیرخوار بچوں کے اغوا اور گمشدگی کے زیادہ تر واقعات اسپتالوں میں ہوئے اور ان میں اسپتالوں کے عملے یا وہاں آنے جانیوالے افراد کے ملوث ہونے کے اشارے ملتے رہے ہیں۔ چند عشرے قبل تک چھوٹے لڑکوں کے اغوا کے واقعات کی پشت پر ان انسانی اسمگلروں کی موجودگی کی داستانیں سامنے آتی رہی ہیں جو بعض مقامات پر اونٹوں کی دوڑ میں سواری کیلئے بچوں کی منتقلی کا سبب بنتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ متعلقہ حکومتوں سے روابط کے بعد منقطع ہوگیا، بھکاری مافیا سمیت مختلف گروہوں کی سرگرمیوں کے بارے میں اشارے ملتے رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ گمشدہ بچوں کا سراغ لگایا جانا اور انہیں انکے والدین تک پہنچایا جانا چاہئے۔ جو بچے کچھ بڑے ہونے کے بعد افراد خاندان کے رویے سے دل برداشتہ ہوکر خود ہی چلے جاتے ہیں،ان گمشدگی کے اسباب کا پتہ بہرحال لگایا جانا اور والدین یا اصلاح گھروں تک انہیں پہنچایا جانا چاہئے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین