• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کبھی سنا کہ کسی مزدور کو بغیر مزدوری کے اجرت مل جائے، کسی چوکیدار کو رکھوالی کی ذمہ داری ادا کئے بنا ہی محنتانہ وصول ہو جائے، کسی ڈاکٹر کو پیشہ ورانہ فرائض ادا نہ کرنے پر بھی تنخواہ کا حق دار سمجھا جائے، کسی انجینئر کو عمارت تعمیر نہ کرنے پر بھی منہ مانگی قیمت دے دی جائے، ایک مزدور سے لے کر سرکاری یا نجی ملازم تک اور کسی بھی شعبے کے ماہر سے لے کر کسی ادارے کے سربراہ تک تفویض شدہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے بعد ہی تنخواہ ملتی ہے لیکن اس سب نا ممکن اور انہونی کے باوجود پاکستان میں ایک ایسا انوکھا تنخواہ دار طبقہ بھی پایا جاتا ہے جسے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی تو ایک طرف ملکی خزانے کا نقصان کرنے پر بھی نہ صرف باقاعدگی سے پوری تنخواہ ملتی ہے بلکہ مختلف مدوں میں مراعات سمیت اضافی پیسے بھی دئیے جاتے ہیں۔ یہ خوش نصیب طبقہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہمارے وہ سیاست دان ہیں جنہیں ہم اپنی صفوں میں شمار کرنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہیں جبکہ وہ بھی شب و روز ہمارے نمائندہ ہونے کا فخریہ انداز میں دعویٰ کرتے ہیں۔ اس انوکھے تنخواہ دار طبقے کی طرف سے اپنے رزق کو حلال کرنے کی بھرپور جھلک تو حالیہ قومی اسمبلی اجلاس کے دوران عوام خوب دیکھ چکے ہیں، یہ اجلاس بارہ دن تک جاری رہا جس میں عوامی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے وہ طرز عمل اختیار کیا گیا کہ عوام کو پختہ یقین ہو گیا کہ سیاست دانوں پر اشرافیہ ہونے کے الزامات سراسر من گھڑت اور لغو ہیں، وہ وہی زبان استعمال کرتے ہیں جس کا میں اور آپ کسی تھڑے پربیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ ارد گرد بیٹھے ہوئے افراد کو بھی محظوظ کرنے کے لئے سہارا لیتے ہیں، ان کا لہجہ بھی بالکل ہمارے جیسے گنوار پن کا مظہرہوتا ہے، وہ چاہےہم سے زیادہ پڑھے لکھے اور مہذب ہوں، ان کے پاس آکسفورڈ سے کیمبرج تک کی ڈگریاں ہوں لیکن اپنے عمل کا اظہار ایسے کرتے ہیں کہ ہمیں بالکل کسی کم مائیگی کا احساس نہیں ہونے دیتے، ہماری سطح سے بھی نیچے آنے کا عملی مظاہرہ، خواتین ساتھی ارکان کی موجودگی کے باوجود زبان سے ایسے الفاظ ادا کرتے ہیں کہ بقول احمد فرازؔ پھول جھڑتے ہیں، ڈیسکوں پر چڑھ کر، ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر اس قوت کے ساتھ فضا میں بلند کرتے ہیں کہ ایوان کی چھت کو لگتی نظر آتی ہیں، یہی نہیں بلکہ ڈیسک پھلانگ کر ساتھی ارکان سے خود کو چھڑاتے ہوئے مخالف رکن کے گریبان پہ ہاتھ ڈالتے ہوئے نوجوان نسل کو پیغام دیتے ہیں کہ وہ اس عمر میں بھی ان سے کہیں زیادہ چاق و چوبند ہیں۔ مائیک پر بولنے کی اجازت ملے نہ ملے، ایک دوسرے کے شجرہ نسب کو ایسے کھنگالتے ہیں کہ عوام کو یقین ہو جاتا ہے کہ وہ تو ان سیاست دانوں سے کہیں برتر مخلوق ہیں۔ عوام کا درد اتنا کہ ان کو درپیش مسائل کا ذکر تک زبان پرنہیں لاتے مبادا کہیں ان کے زخم ہرے نہ ہوجائیں وہ اس فلسفے پر مکمل ایمان رکھتے ہیں کہ لا علمی ہزار نعمت ہے اور قومی اسمبلی میں اکثریتی ارکان کا تعلق چونکہ پنجاب سے ہے جو اس پنجابی محاورے سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ عقل نئیں تے موجاں ای موجاں، عقل اے تو سوچاں ای سوچاں۔ اپنے باس کو خوش کرنے کے لئے ایسے ایسے جتن کرتے ہیں کہ ہم اپنے باس کی موجودگی میں شاید کبھی اس متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکیں۔ وفاداری تو ایسی بے مثل کہ حریف سیاسی رکن کے منہ سے اگر غلطی سے بھی ان کی قیادت بارےکوئی لفظ نکل جائے تو اسے گھر تک چھوڑ کر ہی آتے ہیں اور پھر ایسی داد طلب نظروں سے پارٹی قیادت کی طرف دیکھتے ہیں کہ اس رہنما کی ایک مسکراہٹ سے ان کا سیروں خون بڑھ جاتا ہے اوریوں ایوان کو پھر سے اکھاڑہ بنانے کے لئے تازہ دم ہو جاتے ہیں۔ وقت کی قدر کا اتنا احساس کہ ایجنڈا آئٹمز پر اسے ضائع کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو آئینہ دکھانے میں صرف کرتے ہیں۔ مہنگائی کے ہاتھوں ستائے عوام کی دلجوئی کے لئے اجلاس کے ہر لمحے سے ان کے لئے تفریح کشید کرنے کی حتیٰ المقدور کوشش کرتے ہیں اور آج کل تو عوام کو یہ انٹرٹینمنٹ مفت میں اور وہ بھی لائیو دیکھنے کو مل رہی ہوتی ہے۔ اسی لائیو پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے حالیہ بارہ دنوں کے قومی اسمبلی اجلاس کے حکومتی جماعت کے رکن عبد المجید مجید نیازی کے ساتھ مشترکہ مین آف دی میچ قرار پانے والے پیپلز پارٹی کے رکن رفیع اللہ نے خود ایوان کو بتایا کہ ان کے بچوں نے فون کرکے ان سے پوچھا کہ بابا ایوان میں کیا ہوا تو انہیں بہت شرم آئی، قارئین! اسے کہتے ہیں اعلیٰ ظرفی کہ بندہ اپنی کارکردگی کے ذکر پر جھینپ جائے اور وہ بھی جب اس کا تذکرہ اپنے ہی بچوں سے سننے کو ملے۔ اسی شاندار کارکردگی کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لئے اپوزیشن جیسے ہی ایک سیشن ختم ہوتا ہے، نئے سیشن کے انعقاد کے لئے فوری ریکوزیشن جمع کرا دیتی ہے۔ ویسے بھی اپوزیشن لیڈر نیب کی تحویل میں ہوتے ہوئے صرف عوام کے غم میں گھل ہی سکتے ہیں لیکن اجلاس میں شرکت کے ذریعے وہ عوام کو باور کرا سکتے ہیں کہ کیسے ان کی خدمت کے صلے میں وہ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اب اس شاندار کارکردگی کے بعد بھی کوئی اعتراض کرے کہ عوام کے مسائل کے حل کے لئے قانون سازی کرنے کا بنیادی فریضہ ادا نہ کرنے اور سیشن کے انعقاد پر کروڑوں روپے کا ضیاع کرنے والوں کو نہ صرف پوری تنخواہ دی جاتی ہے بلکہ سیشن کا ٹی اے ڈی اے بھی دیا جاتا ہے جس میں سیشن شروع ہونے سے پہلے کے تین دن اور اختتام کے بعد کے تین دن بھی شامل ہوتے ہیں تو یہ حسد ہی ہے۔ رہی بات قومی اسمبلی کے ماحول کو بہتر بنانے کے لئے ضابطہ اخلاق کمیٹی کے قیام کی تجویز کی تو یہ سراسر عوام سے زیادتی ہے کیونکہ گلا پھاڑتے، چیختے چلاتے، دشنام طرازی کرتے اور ایک دوسرے کے گریبانوں پہ ہاتھ ڈالتے سیاست دانوں کو دیکھ کر ہی تو اپنے پن کا احساس ہوتا ہے، اسپیکر صاحب ہم امید کرتے ہیں کہ انہیں اخلاق کا نمونہ بنا کر آپ ان کے اور عوام کے درمیان گہری وابستگی کو ختم نہیں ہونے دیں گے اور ضابطہ اخلاق کمیٹی کے قیام کی تجویز کو ماضی کی طرح اس بار بھی ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیں گے۔

تازہ ترین