• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلاشبہ مارکیٹ اکانومی، بازاری معیشت اور کمرشل ازم کے اس دور میں ”سروے رپورٹیں“ کچھ زیادہ معتبر نہیں ہیں مگر ایک تازہ سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اپنی جرات اور بہادری کے مظاہرے کے ذریعے پوری دنیامیں تہلکہ مچا دینے والی ”دختر پاکستان“ ملالہ یوسف زئی اور اس کے ساتھ ہونے والی واردات کا پاکستان کے اکیس فیصد لوگوں کو علم نہیں ہے۔ اس سے جہاں ہمارے لوگوں کی غربت ، جہالت،ناخواندگی، پسماندگی اور قومی امور سے لاتعلقی کا ثبوت ملتا ہے وہاں ہمارے ذرائع ابلاغ کی پہنچ کی شہرت بھی متاثر اور ایکسپوز ہوئی۔
ان لوگوں کا صحیح تناسب تو معلوم نہیں کیا جاسکتا مگر دنیا کے سب سے زیادہ ترقی پسند مغربی ملکوں کے اکیس فیصد سے زیادہ ٹیکسی ڈرائیوروں کو بھی معلوم نہیں ہوگا کہ ان کے ملک کے حکومتی سربراہ کا اسم شریف کیا ہے اور ایک بہت بڑی تعداد اس اندیشے میں مبتلا ہوگی کہ صدیوں پہلے کی پیش گوئی کے مطابق آج سے پورے سات دن بعد 21دسمبر 2012ء کو پوری کائنات میں انسانی زندگی کا واحد گہوارہ یعنی زمین بجھ جائے گی اور انسانی زندگی کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔ کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ ایسے لوگوں کی تعداد کتنی ہوگی یا تناسب کیا ہوگا جو اس اندیشے کو قطعی طور پر بے بنیاد قرار دیتے ہیں اور ان میں سے ان کی تعداد کیا ہوگی کہ جن کے دلوں کے کسی نہ کسی کونے میں اس اندیشے کے صحیح ہونے کا احتمال بھی دھڑک رہا ہوگا۔
بروز جمعہ 21دسمبر2012ء کو دنیا اور انسانی زندگی کے ختم ہو جانے کی انتہائی بے ہودہ، بے بنیاد اور فرضی پیش گوئی صدیوں پہلے کی گئی تھی تب سے اب تک بے شمار دانشوروں اور مختلف مذہبوں کے علماء نے اس اندیشے کو احمقانہ اور بے بنیاد قرار دیا ہے مگر اس پیش گوئی کے صحیح ہونے کا اندیشہ بھی ساتھ ساتھ چلتا آرہا ہے۔ عام لوگ مثبت حقائق پر کچھ زیادہ یقین نہیں کرتے مگر منفی افواہوں پر یقین کرنے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگاتے خود ہمارے ملک میں بے شمار لوگ یہ باور کرتے ہوں گے کہ ان کے ملک میں کرپشن قومی بجٹ سے بھی زیادہ مالیت کی ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران پاکستان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی یا پڑھی جانے والی ایک کتا ب شاید ”موت کا منظر،عرف مرنے کے بعد کیا ہوگا“ کے عنوان سے متعدد بار اشاعت پذیر ہوئی تھی اور اس کے پیچھے لوگوں کی یہ معلوم کرنے کی خواہش کام کررہی تھی کہ ان کے ساتھ ان کی وفات کے بعد کیا ہوگا اور جنرل ضیاء الحق بھی غالباً یہی چاہتے ہوں گے کہ ان کی رعایا زندگی سے زیادہ موت کے اندیشوں میں مبتلا رہے اور یہ نہ دیکھ سکے کہ اوجڑی کیمپ کے ہتھیاروں کی سمگلنگ کون اور کیسے کر رہا ہے اور ملک اور قوم کو دونوں ہاتھوں سے کیسے لوٹا جا رہا ہے۔
دنیا اور انسانی زندگی کے سال رواں کی 21دسمبر کی تاریخ اور بروز جمعہ المبارک ختم ہو جانے کا شوشہ یا افواہ بھی کسی ایسے ہی ناجائز مقصد کی تکمیل کے لئے گھڑی گئی ہوگی کیونکہ عالمی سرمایہ داری معیشت لوگوں کی ضرورتوں، خواہشوں خوابوں، اندیشوں اور آرزوؤں کے گرد گھومتی ہے۔ صدیوں پہلے زندہ لوگوں کو ان کی موت کی یاد دلا کر ڈرانے اور اس خوف کو کمرشلائز کرنے کے لئے ہی 21دسمبر2012ء کا اندیشہ تخلیق کیا گیا ہوگا۔ یقینی طور پر وہ نہیں جانتے ہوں گے کہ ان تاریخوں میں وہ خود زندہ نہیں ہوں گے مگر دنیا کی انسانی آبادی سات ارب سے بھی تجاوز کرچکی ہو گی اور لوگوں کی متوقع اوسط عمروں میں بھی نمایاں طور پر اضافہ ہوچکا ہوگا۔ ماہرین نے بتایا ہے کہ جب سے مذکورہ بالا پیش گوئی منظر عام پر آئی ہے۔ اس نوعیت کی 160سے زیادہ خوفناک پیش گوئیاں منظرعام پر آنے کے بعد جھوٹ کے گھاٹ اتر چکی ہے۔ دنیا کے ختم ہو جانے اور زمین کے بجھ جانے اور انسانیت کے مٹ جانے کی ایک ہزار سے زیادہ تاریخیں اپنی موت مر چکی ہیں۔
تازہ ترین