• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گلگت اور اس کے مضافات میں ایک بیر نما پھل کی خود رو جھاڑیاں بڑی تعداد میں پائی جاتی ہیں جنہیں سی بک تھارن(Sea Buckthorn) کہا جاتا ہے ۔یہ بیر نما پھل دنیا کے مختلف ممالک میں ادویہ کا سمیٹکس اور فوڈ سپلیمنٹ میں استعمال ہوتا ہے۔یہ خود رو جھاڑیاں گلگت اور بلتستان کے ہزاروں ہیکٹرزکے ایریا میں پھیلی ہوئی ہیں اور ایک ہیکٹرسے 400 سے 750کلو گرام کا یہ پھل حاصل کیا جاسکتا ہے ۔یوں اس ایریا میں دستیاب جھاڑیوں سے سالانہ 1200 سے 2250 ٹن تک اس پھل کواکھٹا کیا جاسکتا ہے۔اس وقت چین میں دو سو سے زائد فیکٹریاں ہر سال 50 ہزار ٹن سی بک تھارن کی فصل کو پروسیس کرکے اس سے دو لاکھ ٹن کی پروڈکشن تیارکرتی ہیں جن کی مالیت 12کروڑ امریکن ڈالرز بنتی ہے ۔اس پھل کی مختلف پروڈکشن تیارکرنے کے لیے چین اور روس ایک دوسرے کے بڑحریف ہیں۔ بھارت بھی سی بک تھارن کی پروڈکشن تیارکرنے کے میدان میں مقام حاصل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے ۔سی بک تھارن سے نکالے جانے والے تیل کی اس وقت عالمی مارکیٹ میں قیمت تقریباً 15 ہزار روپے فی لیٹر بنتی ہے ۔اور اگر اس کا پاؤڈر بنا کر برآمد کیا جائے تو اس کی قیمت تقریباً 4 سو روپے فی کلوگرام ہے۔ جر منی اور فرانس اس پھل کو ادویہ اورکاسمیٹکس کی پروڈکٹس میں استعمال کرنے کی وجہ سے اس کی بڑی منڈیاں ہیں ۔ فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی کی تین طالبات نے اس پھل پر ریسرچ کرکے یونیورسٹیوں کے مابین بزنس آئیڈیا کے ایک مقابلے میں اس پھل کو ایکسپورٹ کرنے کے حوالے سے اپنا آئیڈیا پیش کیا تھا ۔ جسے پسند کرکے اس آئیڈیا کو انعام کا حقدار بھی قرار دیاتھا
آئیڈیاکے مطابق یونیورسٹی کی ان طالبات نے گلگت اور بلتستان کی ایک تحصیل سلطان آباد میں ایک پلانٹ لگانے کا منصوبہ دیا تھا ۔ جسکے ذریعے اس پھل کا سو فی صد خالص تیل نکال کر ایکسپورٹ کرنے سے کروڑوں ڈالرز حاصل کیے جا سکتے ہیں۔گلگت اور بلتستان میں اس وقت کچھ مقامی لوگ جو اس پھل کی اہمیت سے زیادہ واقف نہیں ہول سیلرز کو یہ پھل چن کر دینے کے عوض 80 سے 100روپے تک کما رہے ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اس وقت بہت سارے سرمایا دار ایسے آئیڈیاز کی تلاش میں رہتے ہیں وہ اپنے اسٹوڈنٹس اور نوجوانوں کی طرف سے اس انتظار میں رہتے ہیں کہ وہ کوئی بزنس آئیڈیا یا پلان دیں تو وہ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس میں سرمایہ کاری کریں اور اس سے خود بھی منافع کمایئںآ ئیڈیا یا پلان لانے والے کو بھی اسکا فائدہ پہنچے اور ان کے ملک کو بھی زرمبادلہ حاصل ہو ۔ان ممالک میں ایسے سرمایہ داروں کو اینجل انوسٹرز( Angel Investers) کہا جاتا ہے ۔اگر آپ بڑے بڑے کامیاب منصوبے جن میں ایپل۔گوگل اورفیس بک وغیرہ کے حوالے سے اگر جائزہ لیں تویہ سارے بزنس پلان اسی طرح شروع ہوتے ہیں جنہوں نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے گزشتہ دنوں قومی بچت نے ایک اسٹوڈنٹس انعامی بانڈز متعارف کرانے کی اسکیم پیش کی تھی جس کے مطابق اسٹوڈنٹس بانڈز خرید کر قرعہ اندازی میں انعامات حاصل کر سکتے ہیں ۔لیکن ہمیں اپنی نوجوان نسل کوبانڈز ،لاٹری یا قرعہ اندازی کے ذریعے انعامات کی لالچ دینے کی بجائے ایسے آئیڈیاز کی طرف رغبت دلانی چاہیے جن آئیڈیا ز یا منصوبوں سے نوجوان اپنے اور دوسروں کے لیے روزگار بھی حاصل کریں بلکہ اپنے ملک کے لیے بھی زرمبادلہ حاصل کرسکیں۔اس لیے ہمارے ملک میں بھی اینجل انوسٹرزکوسامنے آنا چاہیے اور اگر کوئی نوجوان کوئی بہترین آئیڈیا یا بزنس پلان پیش کرتا ہے تو اسکی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ اسے سرمایہ فراہم بھی کیا جانا چاہیے کیونکہ لاٹری اور انعامی بانڈزسے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کی لالچ تودی جا سکتی ہے اس سے ملک و قوم کوکوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔
تازہ ترین