• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’محدود جمہوریت....‘‘
اسکندر مرزا                                                                                            ایوب خان

آج سے 60برس قبل 7اکتوبر 1958ء کو پاکستان کے آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر، اسکندر مرزا نے پہلا مُلک گیر مارشل لا لگا کر جنرل ایّوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرّر کیا ،تو اس واقعے کے ٹھیک 20روز بعد 27اکتوبر 1958ء کو ایّوب خان نے خود اقتدارسنبھال لیا اور پھر اگلے 11برس تک مُلک کے حُکم راں رہے۔اس مضمون کےابتدائی حصّے میں ہم یہ دیکھیں گے کہ میجر جنرل اسکندر مرزا کس طرح اتنی تیزی سے بامِ عروج پر پہنچے کہ دیکھتے ہی دیکھتے سربراہِ مملکت بن گئے، یعنی پہلے گورنر جنرل اور پھر صدر ِپاکستان ۔ مضمون کے آخری حصّے میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ مارچ 1956ء میں بننے والا مُلک کا پہلا آئین کن حالات میں توڑا گیا ؟ مارچ 1956ء سے اکتوبر 1958ء تک کس طرح بار بار حکومتیں بدلتی رہیں اور صرف3برس میں کس طرح6وزرائے اعظم تبدیل ہوئے؟ اسکندر مرزا 1899ء میں بنگال کے علاقے، مرشد آباد میں پیدا ہوئے۔ 1920ء میں برٹش آرمی جوائن کی اور بعد میں انڈین پولیٹیکل سروس میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس دوران انہیں ’’آرڈر آف دی برٹش ایمپائر‘‘ (او بی ای) کے اعزاز سے بھی نوازا گیا اور پاکستان بننے کے بعد وہ پہلے بریگیڈیئر اور پھر میجر جنرل کے عُہدے پر فائز ہوئے۔ انہوں نے 1947ء سے 1954ء تک محکمۂ دفاع کے مرکزی سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ گرچہ اسکندر مرزا قیامِ پاکستان کے بعد ہی سے مُلکی سیاست میں دخیل تھے، لیکن اُن کا ستارہ اُس وقت چمکا کہ جب گورنر جنرل، ملک غلام محمد نے مئی 1954ء میں انہیں مشرقی بنگال کا گورنر بنایا ، جب کہ اس سے ایک ماہ قبل فضل الحق کی قیادت میں متّحدہ محاذ (جگتو فرنٹ) نے مُلک کے سب سے بڑے صوبے میں حکومت قائم کرلی تھی۔ اسکندر مرزا نے فضل الحق کی وزارتِ اعلیٰ سے برطرفی میں اہم کردار ادا کیا۔ نیز، مشرقی بنگال کے گورنر کی حیثیت سے جولائی 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر بھی پابندی عاید کی۔

اکتوبر 1954ء میں جب ملک غلام محمّد نے پہلی دستور ساز اسمبلی تحلیل کی، تو نئی غیر منتخب حکومت میں اسکندر مرزا کو وزیرِ داخلہ تعیّنات کیا گیا اور اس عُہدے پر وہ اکتوبر 1955ء تک فائز رہے، جب کہ نئی کابینہ میں جنرل ایّوب خان وزیرِ دفاع تھے۔ واضح رہے کہ تحلیل شدہ دستور ساز اسمبلی کے ارکان 1946ء میں منتخب ہوئے تھے اور پاکستان بننے کے بعد یہ ایک نیا آئین تشکیل دینے کے ذمّے دار تھے، جو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی جگہ لیتا، جسے بعض ترامیم کے ساتھ ’’آزادی ایکٹ 1947ء ‘‘کا نام دیا گیا تھا۔ اسمبلی کو 7سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی آئین تشکیل نہ دینے کے جواز پر تحلیل کیا گیا۔ 1954ء سے اگست 1955ء تک ملک غلام محمد کی علالت کے دوران اسمبلی کے اسپیکر، مولوی تمیز الدّین نے گورنر جنرل کے اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کر دیا۔ سندھ کی عدالت نے اسمبلی بحال کر دی، تو ملک غلام محمد چیف کورٹ پہنچ گئے اور وفاقی عدالت نے جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں گورنر جنرل کے اقدام کو جائز قرار دیتے ہوئے نئی اسمبلی کے انتخاب کا حکم بھی دے دیا۔ اس موقعے پر صوبوں کو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے اور وَن یونٹ میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا اور جس وزیرِ اعلیٰ نے مخالفت کی، اسے وزارتِ اعلیٰ سے ہٹا دیا گیا۔

دوسری دستور ساز اسمبلی کو عوام کی بہ جائے صوبائی اسمبلیوں کے ارکان نے منتخب کیا تھا اور چُوں کہ مسلم لیگ مُلک کے سب سے بڑے صوبے، مشرقی بنگال کی اسمبلی میں اکثریت کھو چُکی تھی، تو اس کا اثرجون1955ء میں منتخب ہونے والی نئی دستور ساز اسمبلی پر پڑا۔ فضل الحق کو وزارتِ اعلیٰ سے ہٹانے کے بعد مشرقی بنگال میں ایک برس سے زاید عرصے تک گورنر راج کانفاذ رہا اور جب دوسری دستور ساز اسمبلی کے انتخاب کے لیے صوبائی اسمبلی کو بحال کیا گیا، تو اسکندر مرزا کے فضل الحق کے شدید مخالف ہونے کی وجہ سے وہاں ابو حسین سرکار کی حکومت بنائی گئی۔ تاہم، جب مشرقی بنگال کی صوبائی اسمبلی بحال ہوئی، تو متّحدہ محاذ یا جگتو فرنٹ ٹوٹ گیا اور نئی دستور ساز اسمبلی میں 3بڑی جماعتیں اُبھر کر سامنے آئیں، مسلم لیگ، عوامی لیگ اور متّحدہ محاذ ۔ 80ارکان پر مشتمل اسمبلی میں مسلم لیگ کے 25اور متّحدہ محاذ کے 16ارکان تھے، جب کہ پہلی دستور ساز اسمبلی میں مسلم لیگ کے 64ارکان تھے۔ نئی دستور ساز اسمبلی میں مسلم لیگ اور متّحدہ محاذ کے بعد عوامی لیگ کا نمبر تھا، جس کے 14ارکان تھے۔ عوامی لیگ نے مسلم لیگ کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ کا مشرقی بنگال سے صرف ایک رُکن منتخب ہوا تھا، جو خود وزیرِ اعظم، محمد علی بوگرہ تھے۔ نئی حکومت بننے کے صرف ایک ماہ بعد عوامی لیگ نے مسلم لیگ سے مطالبہ کیا کہ وزارتِ عظمیٰ حسین شہید سہروردی کے حوالے کی جائے، جس پر بوگرا حکومت ٹوٹ گئی اور وزیرِ اعظم کو استعفیٰ دینا پڑا۔ اس موقعے پر متّحدہ محاذ نے مسلم لیگ کی مدد کی اور چوہدری محمّد علی کو وزیرِ اعظم بنوادیا، جو 1951ء سے وزیرِ خزانہ چلے آرہے تھے ۔

اگست 1955ء اسکندر مرزا کے لیے خاصا اہم ثابت ہوا کہ اسی مہینے ملک غلام محمّد کو خرابیٔ صحت کی بنا پر رُخصت پہ بھیج دیا گیا گیا اور اسکندر مرزا قائم مقام گورنر جنرل بن گئے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسکندر مرزا کو گورنر جنرل کس نے بنایا؟ کیوں کہ اسمبلی نے انہیں منتخب نہیں کیا تھا اور نہ ہی وزیرِ اعظم بوگرہ اس فیصلے میں شامل تھے۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ7اگست 1955ء کو محمّد علی بوگرا نے استعفیٰ دیا اور اسی روز اسکندر مرزا نے قائم مقام گورنر جنرل کے طور پر اور پھر 12اگست کو چوہدری محمّد علی نے بہ طور وزیرِ اعظم حلف اُٹھایا۔ تب تک وَن یونٹ کی تیاریاں تقریباً مکمل ہو چُکی تھیں۔ نئی دستور ساز اسمبلی میں وَن یونٹ کی شدید مخالفت ہوئی اور مخالفین اس تجویز پر ریفرنڈم کے حق میں تھے۔ وَن یونٹ کے قیام کے بعد وزیرِ اعظم، چوہدری محمّد علی نے آئین کی تشکیل پر کام تیز کر دیا اور بالآخر 9برس کی طویل بحث و تمحیص کے بعد 1956ء کے اوائل میں پاکستان کا پہلا آئین منظور کرلیا گیا۔ اسکندر مرزا نے سربراہِ مملکت کے طور پر اپنا عُہدہ برقرار رکھا اور 23مارچ 1956ء کو پاکستان کے پہلے صدر بن گئے۔

چوہدری محمّد علی ایک دِل چسپ شخصیت کے مالک تھے۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد سب سے طاقت وَر افسر کے طور پر اُبھرے تھے ۔ وہ 1947ء سے 1951ء تک وفاقی جنرل سیکریٹری اور 1951ء سے 1955ء تک وزیرِ خزانہ رہے۔ وہ اکثر دعویٰ کرتے کہ پاکستان کی ابتدائی افسر شاہی کی تشکیل انہوں نے کی اور اسے حکومت سے الگ مشینری بنا یا۔ چوہدری محمّد علی چُوں کہ ایک انتہائی مذہبی شخصیت بھی تھے، اس لیے ان کی کوشش تھی کہ نئے آئین کو زیادہ سے زیادہ اسلامی رنگ دیا جائے اور نئے آئین کے تحت چوہدری محمّد علی اور اسکندر مرزا دونوں اپنے اپنے مقاصد حاصل کر چُکے تھے۔ یعنی آئین کو اسلامی رنگ بھی دے دیا گیا تھا اور مرزا صاحب کو یہ ضمانت بھی مل گئی تھی کہ نئے آئین کی منظوری کے بعد بھی وہ سربراہِ مملکت رہیں گے اور پاکستان کے پہلے صدر بن جائیں گے۔ 23مارچ کو یومِ جمہوریہ کے طور پر منانے کا فیصلہ ہوا، جسے بعد میں جنرل ایّوب خان نے یومِ پاکستان میں بدل دیا۔ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اسکندر مرزا بِلامقابلہ کیوں منتخب ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مرزا صاحب کی شرط ہی یہی تھی کہ وہ نئے آئین کی منظوری اُسی وقت دیں گے کہ جب انہیں سربراہِ مملکت کے طور پر برقرار رکھا جائے گا اور دوسری دستور ساز اسمبلی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، کیوں کہ اگر وہ انکار کرتی، تو اس کا حشر بھی پہلی اسمبلی کی طرح ہوتا۔ نیا آئین بنتے ہی مشرقی بنگال، مشرقی پاکستان، وفاقی عدالت، سپریم کورٹ اور دستور ساز اسمبلی، قومی اسمبلی بن گئی اور اب یہ امید بھی پیدا ہو چلی تھی کہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر جلد ہی پہلے عام انتخابات ہو جائیں گے۔

اب صدر اسکندر مرزا مُلک کی طاقت وَر ترین شخصیت بن چُکے تھے اور وہ تمام اختیارات خود استعمال کرنا چاہتے تھے۔ مرزا صاحب کو اس بات میں کوئی عارمحسوس نہ ہوتی تھی کہ وہ کُھلے عام سیاست دانوں پر تنقید کریں، انہیں لالچی اور اقتدار کا بُھوکا کہیں، مگر انہیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سیاست دانوں کو استعمال کرنا بھی خُوب آتا تھا ۔ مثال کے طور پر انہوں نے ڈاکٹر خان کو اکتوبر 1955ء میں مغربی پاکستان کا وزیرِ اعلیٰ بنایا، جب کہ مغربی پاکستان کی اسمبلی میں مسلم لیگ کی اکثریت تھی۔ اسکندر مرزا نے ڈاکٹر خان کو وزارتِ اعلیٰ دو وجوہ کی بنیاد پر دی۔ پہلی وجہ وَن یونٹ کے مخالفین کو کم زور کرنا تھا، جن میں ڈاکٹر خان کے بھائی، عبدالغفار خان یا باچا خان شامل تھے اور دوسری وجہ مسلم لیگ کو اتنا کم زور کرنا تھا کہ وہ کسی بھی مرحلے پر انہیں اس طرح نہ للکار سکے، جیسا کہ اس نے پہلے غلام محمّد کو للکارا تھا۔ خیال رہے کہ ڈاکٹر خان پہلے سرحدی قومی کانگریس کے رہ نما تھے اور ان کی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کی ہم نوا تھی اور قیامِ پاکستان کے فوراً بعد انہیں خود قائد اعظم نے صوبۂ سرحد کی وزارتِ اعلیٰ سے برطرف کیا تھا اور پھر انہیں غدّار قرار دے کر جیل بھیج دیا گیا ، جہاں وہ اپنے بھائی کے ساتھ کئی برس تک قید رہے۔ تاہم، جیل سے رہائی کے بعد ڈاکٹر خان کو بوگرا حکومت نے منا کر اپنے ساتھ شامل کرلیا اور وزیر بنادیا ، جس کے نتیجے میں 1954ء کے بعد باچا خان اور ڈاکٹر خان کے مابین تعلقات بگڑ گئے۔

اسکندر مرزا نے ڈاکٹر خان کو مغربی پاکستان کا وزیرِ اعلیٰ برقرار رکھنے کے لیے 1956ء میں ایک نئی پارٹی بنوائی، جس کا نام’’ ری پبلکن پارٹی‘‘ رکھا گیا۔ تب مسلم لیگ کے صدر، عبدالرّب نشتر نے بڑی کوشش کی کہ ان کی جماعت کے ارکان ری پبلکن پارٹی میں شامل نہ ہوں، مگر اسکندر مرزا کی ترغیبات سے مسلم لیگ بالآخر ٹوٹ گئی اور چوہدری فضل الہٰی، جام میر غلام قادر آف لسبیلہ، پیرزادہ عبدالسّتار اور ملک فیروز خان نون جیسے بڑے سیاسی رہنما اپنے ساتھیوں کے ساتھ ری پبلکن پارٹی میں شامل ہو گئے، جب کہ مشرقی پاکستان میں صورتِ حال مختلف تھی۔ جون 1955ء میں اسمبلی کی بحالی کے بعد فضل الحق کی بہ جائے کرشک سرامک پارٹی ہی کے ابو حسین سرکار کو وزیرِ اعلیٰ اور فضل الحق کو وفاقی وزیر بنا گیا تھا۔ تاہم، 1956ء میں فضل الحق کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنادیا گیا، کیوں کہ ان کی جماعت مسلم لیگ کی مخلوط حکومت میں شامل تھی۔ اب بھاشانی اور سہروردی کی عوامی لیگ مرکز اور مشرقی پاکستان دونوں جگہ حزبِ اختلاف میں تھی۔ اگست 1956ء میں مشرقی پاکستان میں کرشک سرامک پارٹی اور کانگریس کی مخلوط حکومت ٹوٹ گئی اور عوامی لیگ نے کانگریس کے ساتھ مل کر عوامی لیگ کے عطاء الرحمٰن کو وزیرِ اعلیٰ بنا دیا۔ اُدھر قومی اسمبلی میں مسلم لیگ کی تقسیم کے بعد چوہدری محمد علی تین جماعتوں کی مخلوط حکومت چلارہے تھے، جو مسلم لیگ، ری پبلکن پارٹی اور کرشک سرامک پارٹی پر مشتمل تھی، جب کہ سہروردی کی عوامی لیگ حزبِ اختلاف میں تھی۔ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد مرکز میں بھی حکومت میں شامل ہونے کی کوششیں شروع کر دی۔ نتیجتاً کچھ جوڑ توڑ کے بعد ری پبلکن پارٹی نے مسلم لیگ سے حمایت واپس لے لی اور عوامی لیگ کی مدد کی، تاکہ وہ سہروردی کی سربراہی میں اپنی حکومت بناسکے اور یوں ستمبر 1956ء میں سہروردی وزیرِ اعظم بن گئے اور ری پبلکن پارٹی کے فیروز خان نون کو وزارتِ خارجہ دے دی گئی۔

اسکندر مرزا نے وزیرِ اعظم، حسین شہید سہروردی کے خلاف بھی سازشیں جاری رکھیں ۔ سہروردی کی وزارتِ عظمیٰ کے13ماہ ان کی مغرب نواز اور امریکا نواز پالیسیز کے مظہر تھے، جس کی وجہ سے وہ بھاشانی سمیت اپنے بائیں بازو کے پرانے ساتھیوں سے دُور ہو گئے۔ اس دوران عرب، اسرائیل جنگ اور مصر پر برطانیہ اور فرانس کے حملے کے موقعے پر مرزا، نون اور سہروردی سب عربوں سے الگ کھڑے تھے، جس کے پاک، عرب تعلقات پر دُور رس نتائج مرتّب ہوئے، کیوں کہ بھارت نے کُھل کر عربوں کے ساتھ دیا تھا۔ سہروردی نے نہ صرف پاکستان کو امریکا کے مزید قریب کر دیا، بلکہ چین سے تعلقات بھی بہتر بنائے اور اس دوران نہ صرف خود انہوں نے چین کا دورہ کیا، بلکہ چینی وزیرِ اعظم، چواین لائی کو بھی 10روزہ دورے پر خوش آمدید کہا ۔ 1957ء میں مغربی پاکستان میں ایک بار پھر سیاسی غیر یقینی پیدا ہوئی کہ جب ڈاکٹر خان کی ری پبلکن پارٹی کی مخلوط حکومت جی ایم سیّد گروپ کی حمایت سے محروم ہو گئی۔ نتیجتاً حکومت معطّل کر دی گئی اور مارچ 1957ء میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا، جسے ستمبر 1957ء تک توسیع دی گئی۔ اسی دوران جی ایم سیّد، عبدالغفار خان، بھاشانی اور میاں افتخار الدّین سمیت بائیں بازو کے دیگر کئی رہنماؤں نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) قائم کی، جو جلد ہی ایک بڑی لبرل، سیکولر اور ترقّی پسند پارٹی کی صُورت میں اُبھری اور جو اس وقت موجود دیگر تمام جماعتوں سے نسبتاً بہتر تھی۔ اسی دوران نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) اور ری پبلکن پارٹی میں ایک معاہدہ ہوا، جس کے تحت وَن یونٹ توڑنے پر اتفاق کیا گیا۔ اس معاہدے پر ری پبلکن پارٹی کی طرف سے سردار عبدالرّشید اور فیروز خان، جب کہ نیپ کی طرف سے باچا خان، افتخار الدّین اور جی ایم سیّد نے دست خط کیے، مگر مرکزی حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور وَن یونٹ برقرار رہا۔ اب نیپ میں عوامی لیگ کے کئی ایسے ارکان شامل ہو گئے کہ جو سہروردی سے خوش نہیں تھے۔ اس پر اسکندر مرزا نے سہروردی کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا اور آئی آئی چندریگر کو نیا وزیرِ اعظم بنادیا، جن کی وزارتِ عظمیٰ صرف دو ماہ چل سکی۔ ان کے بعد دسمبر 1957ء سے اکتوبر 1958ء تک فیروز خان نون وزیرِ اعظم رہے اور پھر بالآخر اسکندر مرزا نے قومی اسمبلی ہی کو تحلیل کردیا اور سات اکتوبر 1958ء کو مارشل لا لگا کر جنرل ایّوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا دیا۔ 24اکتوبر کو اسکندر مرزا نے ایّوب خان کو وزیرِ اعظم نام زد کر دیا، مگر وہ مطمئن نہیں ہوئے اور انہوں نے 27اکتوبر کو اسکندر مرزا ہی کا تختہ اُلٹ دیا اور یوں نوزائیدہ ملک میں جمہوریت کے قیام اور استحکام کی 11سالہ جدوجہد اپنے اختتام کو پہنچی۔ ایّوب خان اور اسکندر مرزا دونوں سیاست دانوں سے نفرت کرتے اور ایک محدود جمہوریت پر یقین رکھتے تھے اور پھر، وہ جو چاہتے تھے، انہوں نے حاصل کرلیا ۔ ایک’’ محدود جمہوریت‘‘ ہی پاکستان کا مقدّر بن گئی، لیکن اگر انتخابات ہو جاتے، تو نیپ یقینا ایک بڑی پارٹی بن کر ابھرتی ۔

تازہ ترین