• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف…رخسانہ رخشی،لندن
کسی کو آڑے ہاتھوں لینا ہو، کسی کے لتے کھینچنے ہوں، کسی کے بیچ آنا ہو، لتاڑنا ہو کسی کو، معقول و قائل کرنا ہو کسی کی تو یہ کام ہماری پاکستانی عوام نہایت دلجمعی سے کرتی ہے۔ کسی کے عقائد کو عیب بنا کر پھیلانا بھی ذمہ داری ہے ان کی۔ عقائد بگاڑنے میں ماہر تو ہیں ہی یہ عوام و خاص مگر کسی کے عقیدے پر قدغن یا تنقید کا مرض ہے انہیں کہ لگا دیا جائے۔ گندے کرداروں کو، بدعنوانوں کو، رشوت خوروں کو، بے ایمان اور نا انصافی کرنے پر ہم زیادہ نہیں بولتے، تنقید بھی نہیں کرتے مگر کسی کے عقیدے کو ایسے رگید کر رکھتے ہیں کہ وہ اس میں متزلزل ہوجائے۔ اگر وہ کسی سول ادارے سے تعلق رکھتا ہو تو پھر اس شخص کو ہر حال میں خود کو صاف شفاف رکھنے کے لئے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ ایک تو کوئی نئی حکومت کا سربراہ ہو یا کسی ادارے کا سربراہ ہو تو پاکستانی عوام اس کی ذات پات، اس کی اصلیت، اس کی شخصیت، اس کا حسب نسب اور وقت نکال لاتے ہیں پاتال کی گہرائیوں سے۔ نہ صرف اس کی ذات و قبیلہ چھان لیتے ہیں بلکہ اس کے ایمان تک کا پتہ لگا لیتے ہیں۔ اس کی عبادات کی گنتی شروع کردیتے ہیں، اپنی عبادت اور یاد الٰہی سے غافل ہو کر۔ بہت سے لوگ اسی کو بہت بڑا ثواب اور عبادت سمجھتے ہیں کہ کسی کے ایمان اور عقیدے کو کھنگالنا، آج کل منہ بھر کے لوگ کسی بھی ادارے کے سربراہ کو قادیانی یا مرزائی بنا دیتے ہیں کہ چاہے اس کو خود معلوم نہ ہو کہ وہ کسی عقیدے کا ہے مگر لوگوں کو معلوم ہے وہ کس قماش، ذات اور عقیدے کا ہے۔ پہلے ضیاء الحق کو قادیانی بنا دیا گیا، اس نے اپنا دامن صاف کرنے کو شرعیہ لاء ، شرعی عدالت، شرعی کابینہ، حتیٰ کہ شرعی بنچ بنانے کی تشہیر شروع کردی پھر یہ سب دیکھ کر انہیں ارائیں ذات بنایا گیا۔ اب وہ ارائیں تھے یا نہیں مگر لوگوں نے یعنی ارائیں برادری نے انہیں اپنی ذات کا جان کر خوب سینہ پھلایا۔ ایسا اب پاکستانی عوام کرنے لگے ہیں کہ ذات و برادری کی بنا پر ہر نامی گرامی کا رشتہ دار اوربرادری سے تعلق بتانا۔ کشمیری تو کشمیری کا، خان توخان کا ہو کر رہ گئے جو کسی ذات برادری کا نہ ہوا تو وہ ملک کے ہو کر رہ گئے۔ کسی کی ذات میں بٹا لگانا اتنا برا نہیں ہے جتنا کسی کے ایمان و عقیدے کو الزام در الزام کی تہہ میں لگانا۔ دوسروں کے حسب نسب کی اتنی فکر ہے کہ گویا خود کوئی ذات ہمایوں سے سلسلہ جڑا ہو ان کا۔عوام جاگتی ضرور ہے اپنی بہتری کیلئے نہیں دوسروں کی عیب جوئی کیلئے۔ آج کل شادیاں تو دو مشہور ہوئیں ایک رنبیر اور دیپیکا کی کہ انہوں نے اٹلی کے مشہور ساحل اور ریزروٹ پر بیاہ رچایا مگر ہمیں کیا لینا دینا اس شادی سے وہ تو مسالا ہے۔ تمام میڈیا کیلئے اس پر بھی بات ہوسکتی ہے مگر اس وقت سب سے اہم سماں اس وقت بندھا جب ہمارے آرمی چیف کے صاحبزادے کی شادی سب کی توجہ کا مرکز بنی رہی کہ جس میں پوزیشن والے حکومتی ارکان سے لے کر اپوزیشن والے بھی شریک ہوئے۔ یوں تو کھلاڑی بھی، گائیک بھی، صحافی بھی، وزیراعظم و صدر سے لے کر وزیر شذیر بھی شریک ہوئے مگر ایک خاص تعداد ملا و علماء کی بھی دکھائی دی انہیں بھی دوسرے لوگوں کی طرح مدعو کیا گیا لیکن لوگوں نے اسے کسی خاص زاویئے سے پرکھا حالانکہ جج صاحبان، وکلاء، سول و فوجی حکام کے علاوہ غیرملکی سفیر بھی تھے مگر زور دیا گیا تو طرح طرح کے ملاؤں پر یعنی ہر طبقہ فکر کے علماء پر۔ ویسے یہ شادی کہیں سے بھی کسی ادارے کےسربراہ کے بیٹے کی شادی نہ لگی بلکہ عام عوامی تقریب لگ رہی تھی جس میں عوام کے چنے عوامی نمائندے مدعو تھے جنہیں ہم پوزیشن والے اور اپوزیشن والے کہتے ہیں۔ باجوہ صاحب نے کمال کیا کہ سبھی کو ایک پلیٹ فارم پر لے آئے ورنہ تنقید و طنز تو اسمبلیوں کا حصہ ہے۔ اس شادی میں پوزیشن والے اور اپوزیشن والے ایسے گھی شکر ہو رہے تھے آپس میں گویا کوئی اختلاف ہی نہ ہو۔ لگتا ہے عوامی تماشے بھی اہتمام سے لگتے ہیں کہ اداکار جو عوامی نمائندے ہیں انہیں داد دےیناچاہئے۔ غور کیجئے وہ جو ہم نے شروع میں کہا تھا نا کہ ہمارے لوگ دوسروں کے عقائد و ایمان کا پتہ ایسے رکھتے ہیں گویا یہ بھی ثواب کا عمل ہے کوئی۔ تو پھر توجہ طلب بات یہ رہی اس شادی میں تمام طبقہ فکر کے احباب سے لے کر تمام مکتبہ فکر کے احباب کے آنے پر زیادہ زور رہا۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ گونج رہی کہ آرمی چیف کے بیٹے کی شادی کی تقریب نکاح کیلئے علامہ ثاقب رضا مصطفائی کی خدمات حاصل کی گئیں یعنی کہ انہوں نے نکاح پڑھایا۔ مزید خبر یوں تھی کہ آرمی چیف کے صاحبزادے سعد باجوہ کی زندگی کے نئے سفر کے آغاز پر سپہ سالار باجوہ کی جانب سے عظیم الشان محفل میلاد کا اہتمام کیا گیا۔ محفل میلاد میں تمام عاشقان رسول ﷺ نے آپ ﷺ کو گلہائے عقیدت اور سلام پیش کیا۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ جب 27نومبر 2016کو سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے جنرل قمر جاوید باجوہ کو بطور آرمی چیف آف سٹاف مقرر کیا گیا تھا تو جمعہ کے روز ہی آرمی گیسٹ ہاؤس میں اسی طرح محفل میلاد کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں محمود اشرفی اور دیگر نعت خواں شریک ہوئے تھے جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے عمرے کی سعادت بھی حاصل کی اور روزہ رسولﷺ پر حاضری بھی دی تھی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے شادی کی تقریب کو ایک شفاف گہوارہ ثابت کیا یکجہتی کا، سبھی کو ساتھ لے کر چلنے کی روش قائم کرکے اسے عوامی بنا دیا۔ پوزیشن اور اپوزیشن کو ساتھ بٹھا دیا، محب وطن تو ہماری سرحدوں کے سپاہی تک ہوتے ہیں تو ہمارے افسران تو زیادہ ہی ہوں گے بلکہ ہیں۔ ہمارے لوگوں کو یہ باور ہونا چاہئے کہ ایک اسلامی ملک میں کوئی خاص امور کا معاملہ ہو یا اعلیٰ عہدوں کا معاملہ ہو، وہ طے اسلامی احکام کے مطابق ہوتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جو کسی دانشور سے لے کر عام ذہن میں بھی نہیں آتی کہ کسی بھی حساس اعلیٰ عہدے پر صرف مسلمان عقائد والے ہی پہنچتے ہیں کوئی اور نہیں۔
تازہ ترین