• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ جمہوری ملکوں میں کاروبارِ مملکت چلانے میں پارلیمنٹ کا ادارہ کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچنے والے مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان یہاں مل بیٹھ کر بنیادی پالیسیاں طے کرتے اور قوانین بناتے ہیں۔ آئین کی تشکیل اور اس میں حسب ضرورت ترامیم اور اصلاح بھی پارلیمنٹ ہی کا کا م ہے جس کی بنا پر ریاست کے تمام دوسرے اداروں پر اسے بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کی یہ اہمیت اس کے ارکان سے بھی شائستہ، باوقار اور ذمہ دارانہ طرزِ عمل کا تقاضا کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے حصولِ آزادی کے ستر سال بعد بھی ہمارے منتخب ایوانوں میں شائستہ جمہوری رویوں کا شدید فقدان نظر آتا ہے۔ سینیٹ ہماری قومی پارلیمان کا بالائی ایوان ہے اور سیاسی جماعتیں اس کی رکنیت کیلئے بالعموم زیادہ تعلیم یافتہ اور باصلاحیت افراد کو نامزد کرتی ہیں جس کی بنا پر توقع کی جاتی ہے کہ سینیٹ کا ماحول قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نسبت زیادہ پروقار ہو گا، تاہم پچھلے چند روز میں سینیٹ میں جن جارحانہ رویوں کا مظاہرہ ہوا، چیئرمین سینیٹ کیلئے ایوان کی کارروائی چلانا جس طرح مشکل بنا دیا گیا حتیٰ کہ ایک وفاقی وزیر کے سینیٹ میں آمد پر اس وقت تک کیلئے پابندی عائد کرنے کی نوبت آ گئی جب تک وہ اپنے طرزِ گفتگو اور الزامات پر اپوزیشن سے معافی نہ مانگ لیں اور چیئرمین سینیٹ کی اس رولنگ پر بعض ذرائع سے سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق وفاقی کابینہ میں جس منفی ردعمل کا اظہار کیا گیا، کوئی بھی باشعور شخص اس صورتحال کو آئینی و جمہوری نظام کیلئے نیک فال قرار نہیں دے سکتا۔ سابق چیئرمین سینیٹ اور ملک کے تمام سیاسی حلقوں میں یکساں احترام کی نگاہ سے دیکھے جانے والے سینیٹر میاں رضا ربانی کا ایوان میں اس حوالے سے اظہارِ خیال حکومت اور اپوزیشن سمیت ملک کی پوری سیاسی اور عوامی قیادت کیلئے انتہائی قابل غور ہے۔ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ تمام ریاستی اداروں کے ارکان کے احتساب کیلئے یکساں نظام کا مطالبہ کرتے ہوئے میاں رضا ربانی نے جمعہ کو ایوان میں کہا کہ گزشتہ چھ دنوں سے پارلیمان میں دراڑیں نظر آنے لگی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ فاشسٹ قوتوں کو چھوڑ دیا گیا ہے تاکہ وہ پارلیمان، اداروں اور آئین کے تحت کام کرنے والے عہدوں کو ملیا میٹ کر سکیں۔ چیئرمین سینیٹ کی رولنگ پر حکومت کی جانب سے جو ردعمل آیا وہ کسی آمرانہ دور میں بھی نہیں آیا، کسی آمر کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ پر انگلی اٹھا سکے۔ پارلیمان کے تقدس کی حفاظت کا عزم کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ مارشل لا ادوار میں بھی پارلیمنٹ کا تقدس پامال نہیں ہونے دیا اور اب موجودہ حکمرانوں کے سامنے بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنیں گے، تاہم وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد نے وضاحت کی کہ ’’کابینہ میں چیئرمین سینیٹ کے کنڈکٹ پر کوئی بات نہیں ہوئی، وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت جاتی ہے تو جائے مگر وہ کابینہ میں کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑیں گے‘ ہم ناتجربہ کار ہیں لیکن کٹی پتنگ نہیں‘ ایوانوں کو کوئی خطرہ ہے نہ ان میں دراڑآنے دی جائے گی‘‘۔ سینیٹر شیری رحمٰن نے وزیر مملکت کے اس بیان کو بجا طور پر خوش آئندہ قرار دیا اور مولا بخش چانڈیو نے بھی بیان کا خیر مقدم کیا جبکہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ ہم سب مل کر اس ایوان کا تقدس برقرار رکھیں گے۔ ایوان کے احترام پر یہ اتفاق رائے یقیناً نہایت خوشگوار ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ باہمی اختلافات افہام و تفہیم سے طے کیے جائیں، ایوان میں الزام تراشیوں اور اشتعال انگیز رویوں سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ کرپشن کے خلاف کارروائی زیادہ مؤثر بنائی جائے اس کا دائرہ تمام ریاستی اداروں کے ارکان تک یکساں طور پر وسیع کیا جائے لیکن اسے سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے سے قطعی گریز کیا جائے۔ ملک کی بقا اور سلامتی کا یہی واحد راستہ ہے۔ نفرت اور اشتعال کی سیاست تفریق بڑھانے اور تباہی کو یقینی بنانے کے سوا کسی اور منزل تک نہیں پہنچا سکتی۔

تازہ ترین