وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ڈیرہ غازی خان کے پہلے دورے میں اربوں کی لاگت کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ جن میں کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ، ماڈل مویشی منڈی اور تین اسٹیٹ آف دی آرٹ یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ ایک ڈیرہ غازی خان میں بنے گی، ضلع میں ایک لاکھ 93ہزار انصاف صحت کارڈفراہم کئے جائیں گے، ٹیکنیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے، پوسٹ گریجویٹ کالج کی بحالی اور غازی میڈیکل کالج کی بحالی اور اسی میں قبائلی کوٹہ بڑھانے کے علاوہ یونیورسٹی کیمپس کے لئے ایک ارب 70کروڑ روپے، کالجز طلبہ کیلئے 12بسوں کا اعلان بھی کیا۔ کھیل کے میدان، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور واسا کا ادارہ قائم کرنے، جنوبی پنجاب میں15چھوٹے ڈیم اور حفاظتی بند بنانے، نئے لینڈ ریکارڈ سینٹر ویمن ایمپلائمنٹ سینٹر اور سویٹ ہوم بنانے کا بھی اعلا ن کیا۔ عدم مساوات کا منطقی نتیجہ سوائے نفرت کے کچھ نہیں ہوتا، جو ہمیں بسااوقات صوبے کے مختلف علاقوں میں صوبائی دارالحکومت کیلئے دکھائی اور سنائی دیتی ہے تاہم یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا کوئی دور نہیں گزرا جب جنوبی پنجاب کے سیاستدان صدر، وزیراعظم، اسپیکر قومی اسمبلی، گورنر شپ، وزارت اعلیٰ، وفاقی وزارتوں جیسے اہم عہدوں پر متمکن نہ رہے۔ جاگیردار طبقے سے متعلق ان افراد کی ترجیحات میں عوامی بہبود شامل ہی نہ تھی تو جنوبی پنجاب میں ترقی کے ثمرات نہ پہنچ پانے کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ نمائندے یا صوبائی دارالحکومت؟ افسوس کہ اسی محرومی پر سیاستدانوں کی دکانداری کا دارومدار تھا اور ہے، یہ حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب محرومیوں کا شکار ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے جنوبی پنجاب کیلئے جن منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے انہیں اس خطے کے لئے نیک شگون قرار دیا جاسکتا ہے لیکن شاید یہ کافی نہ ہوں، اس ضمن میں حکومت کو ہر سال کی بنیاد پر محرومیوں کو پیش نظر رکھ کر اقدامات کرنا ہوں گے، حکومتی اعلانات نہایت خوش آئند ہیں
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998