چھوٹے چھوٹے گنبدوں پر مشتمل ایک عمارت، مغل طرز تعمیر کی عکاس، ان دنوں عمران خان کے زیر استعمال ہے۔ یہ اسلام آباد میں وزیر اعظم کا آفس ہے۔ وہاں مظہر برلاس کے بلاوے پر آئے ہوئے کالم نگاروں میں، میں بھی شامل تھا۔ عمران خان سےگھنٹہ بھر ملاقات رہی۔ سب نے اپنے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑے، کپتان نے تحمل سے ہر شخص کی بات سنی اور جواب دیا، سوائے میری بات کے، میراکہا ہوا سُن کر انہوں نے اپنے سیکرٹری کو حکم دیا کہ جو کچھ منصور کہہ رہا ہے اُس پر فوری طور پر عمل کیا جائے۔ مجھے توقع ہے کہ اگلے ایک دو ہفتوں میں ملک بھر میں تیس سے زائد اداروں کے سربراہ بدل جائیں گے۔ ایک کالم نگار نے جب بیورو کریٹس کو برہمن قرار دیا تو عمران خان نے اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ایک برہمن اُس وقت ہم میں موجود ہےاور پھر تبصرہ کرتے ہوئےکہا کہ میں نے شوکت خانم اسپتال میں پہلے دو سال میں چار چیف ایگزیکٹو بدلے تھے۔ آخرکار ایک ایسا شخص مل گیا جواسپتال کی ضرورت کے مطابق تھا۔ یہ جو مسلسل بیورو کریسی کے تبادلے جاری ہیں، یہ اُس وقت تک جاری رہیں گے جب تک اُس محکمے کے منسٹر کو یہ یقین نہیں آجائے گا یہ وفاقی یا صوبائی سیکرٹری واقعی میری توقعات کے مطابق ہے۔ بے شک بیورو کریسی میں اچھے برے دونوں طرح کے لوگ موجود ہیں مگر سب سے بری بات یہ ہے کہ بیوروکریسی کے اچھے لوگ اپنے برے بیوروکریٹس کی بھی حمایت کرتے ہیں جیسے جب احد چیمہ کو گرفتار کیا گیا تھا تو پنجاب سیکرٹریٹ کو تالے لگوا دئیے گئے تھے۔ دوسر ا یہ اپنے سےبہتر کسی کو سمجھتے ہی نہیں۔ ڈی ایم جی گروپ کے لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر اچھے عہدے پر انہی کے لوگ فائز ہوں۔ چاہے وہ عہدہ فنون لطیفہ سے متعلق ہی کیوں نہ ہو۔
وزیر اعظم نےاسلام آباد میں بھی کئی اداروں کے سربراہ تبدیل کرنے کا حکم صادر کیا۔ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس سے جمال شاہ ہٹا دئیے گئے ہیں، مقتدرہ قومی زبان سے افتخار عارف کی چھٹی کرا دی گئی ہے، ہمارے دوست انعام الحق جاوید کو بھی کہا جانے والا ہے کہ آپ نیشنل بک فائونڈیشن کو اب داغِ مفارقت دے دیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان کا نیا چیئرمین کسی وقت بھی لگ سکتا ہے۔ اس میٹنگ کے بعدوزیر اعظم کے میڈیاایڈوائزر افتخار درانی نے مجھے اِس عہدے کی آفردی مگر میں نےمعذرت کرلی، اس سے پہلے اِسی عہدے کیلئے میرے ساتھ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی بات کی تھی اور وزیرتعلیم شفقت محمود کو کہا تھاکہ مجھے اکادمی کا چیئرمین لگایا جائے مگرمیں نے شفقت محمود سے بھی کہہ دیا تھاکہ میں کوئی عہدہ نہیں لینا چاہتا، میری صرف اتنی خواہش ہے کہ ہر عہدے پر ایسا شخص لگایا جائے جس کی اہلیت پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔
پنجاب میں بھی بہت سے اداروں کے سربراہ بدلنے والے ہیں جن میں چلڈرن لائبریری، پنجاب انڈومنٹ فنڈ، ایوان اقبال، ایوان قائد، اردوسائنس بورڈ، اردو ڈکشنری بورڈ، اقبال اکادمی، قائداعظم اکیڈمی، مجلس ترقی ادب، پنجاب آرٹس کونسل، نظریہ پاکستان ٹرسٹ، تحریک کارکنانِ پاکستان، پنجاب سیرت اکیڈمی، پنجاب لائبریری فائونڈیشن، پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ، بزم اقبال پنجاب، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، پنجاب پبلک لائبریری، رائٹرز ویلفیئر فنڈ وغیرہ
اس میٹنگ میں بھی عمران خان کی گفتگو کا زیادہ تر موضوع گزشتہ حکومتوں کی لوٹ کھسوٹ رہا۔ کرپشن کے خاتمہ کے لئے کئے گئے اقدامات پر بات ہوتی رہی۔ انہیں اِس بات کا پوری طرح احساس ہے کہ کرپشن کا کینسر پاکستان کے جسم میں دور دور تک پھیل چکا ہے30سال سے مسلسل پھیلتا ہوا کینسرکہاں کہاں تک پہنچ چکا ہے۔ اس کا اندازہ اب ہورہا ہے جہاں ہاتھ لگاتے ہیں وہیں کچھ نہ کچھ کرپشن کا کینسرزدہ حصہ مل جاتا ہے سو جگہ جگہ آپریشن کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔
عمران خان سے ملاقات ختم ہوئی تو افتخار درانی مجھے اپنے آفس میں لے گئے، سیکرٹری انفارمیشن شفقت جلیل بھی وہیں آ گئے، پی ٹی وی زیر بحث آیا، اس میں ایک بڑے آپریشن کی ضرورت پر ہم دونوں نے اتفاق کیا، اتفاقاً تھوڑی کے بعدپی ٹی وی چیئرمین ارشد خان بھی آگئے۔ انہیں ایک ڈوبتے ہوئے جہاز کا کیپٹن بنایا گیا ہے اوران سے امید کی جارہی ہے کہ وہ اس ٹائی ٹینک کو ڈوبنے سےبچا لیں گے، میری دعائیں بھی اُن کے ساتھ ہیں، بہرحال ان تینوں شخصیات سے بڑی اہم گفتگو ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد مظہر برلاس مجھے تلاش کرتے ہوئے وہیں آگئے۔ اُن کے ساتھ وزیر اعظم کے سیاسی امور کے معاون خصوصی نعیم الحق کے آفس میں آگیا جہاں نعیم الحق نے ہمارے لئے لنچ کا انتظام کیا ہوا تھا۔ ان کے ساتھ لنچ پر پنجاب حکومت کے مسائل زیر بحث رہے۔
میں بارہ بجے کےقریب وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں داخل ہوا تھا، چار بجے وہاں سےنکلا۔ میں نے مڑ کر چھوٹے چھوٹے گنبدوں والی اس عمارت کو حیرت سے دیکھا۔ اقتدار کے ایوان میں یہ جو چار گھنٹے گزرےتھے یہ میرے لئے عجیب و غریب تھے، میں اس سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں کئی مرتبہ گیا تھا اس زمانے میں یہ بلڈنگ نہیں ہوتی تھی، نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کے دور میں یہاں آیا تھامگر پہلی مرتبہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں کسی عوامی دفتر میں آیا ہوں۔ جہاں صرف ملک کی بہتری کےلئے کام ہورہا ہے ہر آدمی اسی فکر میں ہے کہ ہم کیسے پاکستان کو جلد سے جلد ایک ترقی یافتہ پاکستان میں بدل سکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)