ہائے ستم بالائے ستم، تبدیلی کی سرکار بھی آئی ایم ایف کی باندی نکلی کہ ہے تو انہی بالائی طبقوں کی امین جنہیں افتادگانِ خاک کی فلاح سے کیا غرض۔ عالمی مالیاتی ادارے سے بات چیت کا مرکز ہے تو صرف دو خسارے یعنی بجٹ خسارہ اور توازن ادائیگی میں بگاڑ (زرِ مبادلہ کی آمدن اور بیرونی ادائیگیوں کا فرق)۔ پہلے بھی ایک درجن سے زائد ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے پروگراموں پر عمل کیا جا چکا، لیکن خسارے جُوں کے توں۔ اب جو آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا جا رہا ہے، اُس کے نتیجے میں طلب ماند پڑے گی، روپیہ مزید قدر کھوئے گا، مہنگائی دس برسوں میں سب سے زیادہ سطح پر پہنچے گی، شرحِ سود بڑھے گی اور قومی ترقی کی نمو بہت ہی نچلی سطح پر آ رہے گی۔ اس کے باوجود، مالیاتی و مالی خساروں سے مستقل بنیادوں پہ مُکتی نہ مل پائے گی۔ دُنیا کے 130 ملکوں میں آئی ایم ایف کے پروگراموں پہ تحقیق کرنے والے چوٹی کے معیشت دانوں بارو اور لی، ولیم ایسٹرلی (2005)، کینیٹکگنس، سٹیبز اورکنگ (2016) کی تحقیقات کی بنیاد پر پاکستان کے مایہ ناز معیشت دان ڈاکٹر اکمل حسین نے دی نیوز میں چھپنے والے مضمون میں دعویٰ کیا ہے کہ’’آئی ایم ایف کے پروگرام اپنے ہی دعوؤں کے مطابق افراطِ زر میں کمی اور معاشی نمو میں بڑھوتری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بدترین نتیجہ انسانی ترقی پہ اس کے منفی اثرات کی صورت برآمد ہوا۔‘‘ افسوس تو شریف حکومت کے وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل پرہوا جو خود آئی ایم ایف کی دکھائی فرسودہ راہ پر چلے اور اپنے بعد آنے والے وزیرِ خزانہ اسد عمر پر اُسی راہ کو اپنانے پر جانے کیوں پھبتیاں کس رہے ہیں۔ چھاج بولے تو بولے، چھلنی کیا بولے؟ دست نگری کی مفت خور معیشت کا پیٹ بھرنے کیلئے کاسۂ گدائی اسحاق ڈار کے ہاتھ میں تھا یا پھر اب اسد عمر کے ہاتھ میں ہے، اُس سے ہمیں کیا غرض، ہے تو کاسۂ گدائی!! دی اکانومسٹ کے انٹیلی جنس یونٹ کے حالیہ جائزہ کے مطابق پاکستان میں مجموعی قومی پیداوار (GDP) کی شرح تین فیصد تک گر جائے گی، جبکہ شرح سود 14 فیصد اور افراطِ زر بھی ڈبل ہندسے سے اوپر ہو جائے گی۔ ملال بس اس بات پر ہے کہ معاشی تنزل کے اس دور میں اگر قربانی کا بکرا کسی کو بننا ہے تو وہ وزیراعظم عمران خان کی غریبی کے خاتمے کے بارے میں ریاست مدینہ کے سہانے خواب یا پھر سکینڈے نیویا کی فلاحی ریاستوں کی پیروی کا عزم۔ مدنی ریاست تو انتہائی سادگی و شرافت کی مساوات تھی، جبکہ سکینڈے نیویا کی فلاحی ریاست تو قائم ہی امیروں پہ بھاری ٹیکس اور غریبوں کی فلاح پہ زیادہ خرچ کے دو اُصولوں پہ ہوئی۔ قرونِ اولیٰ کی سادگی تو واپس آنے سے رہی، اور امیروں پہ بھاری ٹیکس لگانے اور ریاست کے بھاری خرچے کم کرنے کی منتخب حکومتوں کو استطاعت نہیں۔ ایسے میں وزیراعظم بیرونی کھاتوں میں چھپائے گئے اربوں ڈالر کی واپسی کے خوابوں میں نہ بہکیں اور قوم کو نہ بہلائیں تو کیا کریں۔ اس سے یوٹرن لیے بنا اُن کے پاؤں زمین پہ نہیں لگ پائیں گے اور اس میں ہرج بھی کیا ہے، بھلے حزب اختلاف والے کیسی ہی چٹکیاں بھرا کریں۔
پاکستان میں جہاں ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں اور 40 فیصد غذائی قلت یا سوکھے کا شکار ہیں، وہاں غربت خاص طور پر دیہات میں ماسوا جاگیرداروں اور چوہدریوں کے ڈیروں کے ہر جانب ڈیرہ لگائے بیٹھی ہے۔ پاکستان میں اسکول جانے والوں کے اوسط سال 8.6، بھارت میں 12.3، نیپال میں 12.2اور بنگلہ دیش میں 11.4سال ہیں۔ جبکہ صحت کے حوالے سے، پاکستان میں اوسط عمر 66.6سال، نیپال میں 70.6 سال، بنگلہ دیش میں 72.8سال اور بھارت میں 68.6سال ہے۔ اسی طرح آبادی کی شرحِ افزائش 2.4 فیصد سالانہ، بنگلہ دیش اور نیپال میں 1.1 فیصد اور بھارت میں 1.2 فیصد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم غریبی میں بھی آگے اور افزائش آبادی میں بھی آگے اور پھر بھی بھارت اور پاکستان اسلحے کی دوڑ اور علاقائی خفیہ جنگوں میں مصروف۔
عمران خان نے آبادی میں نوجوانوں کے غلبے سے خوب فائدہ اُٹھایا تھا اور یہی تبدیلی کی قوتِ محرکہ ثابت ہوا۔ ہماری آبادی کا 64 فیصد 30 برس تک کے نوجوانوں اور بچوں پہ مشتمل ہے۔ اس موضوع پر یو۔این۔ڈی۔پی کی ایک رپورٹ ماہرینِ معیشت عادل نجم اور فیصل باری نے مرتب کی ہے۔ اُن کے مطابق اسکولوں میں موجودہ شرح داخلہ پہ 2076 تک ہی ہر بچہ اسکول جا پائے گا۔ اور اگر ہم نے 2030 تک ہر بچے کو اسکول بھیجنا ہے تو موجودہ شرح داخلہ کو چار گنا بڑھانا ہوگا۔ جس کیلئے ہمیں تعلیم پر موجودہ خرچ کو 2.2 فیصد سے بڑھا کر چھ فیصد کرنا ہوگا۔ اور اس اضافے کے باوجود اچھی تعلیم کی پھر بھی یقین دہانی نہیں کی جا سکتی۔ اس رپورٹ کے مصنفین نے ایک (تھری E) فارمولہ دیا ہے: اچھی تعلیم228 بارآور روزگار228 نوجوانوں کی بامقصد شمولیت۔ وگرنہ، اُنہوں نے انتباہ کیا ہے کہ نوجوانوں کا ہجوم شادمانی کی بجائے گریہ زاری کا باعث ہوگا۔ پاکستان پر نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق ایک حقیر اقلیت کو ہر طرح کی سہولتیںاور مراعات میسر ہیں، جبکہ عوام کے انبوہ کثیر کے مقدر میں سوائے بھوک و افلاس، جہالت، بیروزگاری، بیماری اور بے حالی کے کچھ بھی نہیں۔ اس تقسیم میں بھی وہ اضلاع ہیں جہاں فراوانی ہی فراوانی جیسے کہ لاہور، کراچی، راولپنڈی، سیالکوٹ، جہلم، حیدر آباد، کوئٹہ، پشاور، ملتان اور فیصل آباد۔ (یہاں بھی کچھ غربت ہے)۔ دس اضلاع میں جہاں بھوک ننگ ناچ رہی ہے وہ ہیں: تھرپارکر، کوٹلی، بدین، شکار پور، میرپور خاص، قلعہ عبداللہ، زیارت، جھل مگسی و دیگر اضلاع۔ انسانی پیمانوں پر پنجاب (سرائیکی علاقہ نہیں) سب سے آگے ہے جبکہ بلوچستان اور سندھ کے اندرونی علاقے سب سے پیچھے ہیں۔
یہ صورتِ حال تمام جماعتوں، منتخب اداروں، ریاستی طرم خانوں اور دانشوروں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہونی چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان پرانی دقیانوس معاشی روایت سے ہٹنا چاہتے ہیں اور غریبی کے خاتمے، سماجی خدمات کے شعبوں کی ترقی، نوجوانوں اور بچوں کیلئے عمدہ تعلیم و صحت و رہائش کی فراہمی کی حکمتِ عملی دینے والے ہیں۔ کاش! وہ ان دل دہلانے والے حقائق کو سامنے رکھ سکیں اور انسانی ترقی کے پائیدار ماڈل سے رجوع کر سکیں۔ ڈاکٹر اکمل حسین اور دیگر ماہرین نے یو۔این۔ڈی۔پی کیلئے ایک شاندار رپورٹ مرتب کی ہے جو شراکتی اور پائیدار ترقی کیلئے ایک پالیسی فریم ورک فراہم کرتی ہے۔ بہتر ہے کہ حکومت اس سے استفادہ کرے۔ لیکن اصل سوال سیاسی معیشت کا ہے اور اقتدار کے موجودہ ڈھانچے میں طبقاتی تبدیلی کا۔ دست نگری کی معیشت پہ قائم بھکاری اور مفت خور معیشت پر موجودہ ریاست کے بھاری بھر کم بوجھ اُٹھائے جا سکتے ہیں، نہ غریبی ختم ہو سکتی ہے۔ اس کیلئے کون سوچے، کون قدم بڑھائے؟ سماجی جمہوریت بنا کوئی چارہ نہیں!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)