پاکستان پر عشروں سے مسلط عوام دشمن اسٹیٹس کو کو انہدام کے جاری عمل میں لانے والے موجودہ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز اسلام آباد میں کالم نویسوں کی وساطت سے عوام اور دنیا کو قائل تو یہ کرنا تھا کہ ’’حکومتی پالیسی اور فیصلہ سازی وہی کامیاب ہوتی ہے جس میں حکومتی اقدامات مخصوص صورتحال (Situational factor) کے مطابق لئے جائیں‘‘ بین الاقوامی تعلقات و سیاست کا معاملہ ہو یا داخلی سیاست کا، حکومتوں کو وسیع تر ملکی یاقومی مفاد کی خاطر کسی مخصوص موضوع یا اس حوالے سے اپنی جاری پوزیشن (بحوالہ اختیار کی ہوئی پالیسی، موقف اور بیانیہ وغیرہ) میں یکسر چونکا دینے والی تبدیلی لانا پڑ جاتی ہے۔ پھر حکومتی معاونین و مشیرزورلگاتے ہیں کہ قیادت (فیصلہ سازی کی حتمی ذمہ دار) اور حکومت کی ساکھ اور عوامی حیثیت کو محفوظ رکھنے (بلکہ بڑھانے) کے لئے جلد سے جلد Well rationalized (عقلی دلائل اور منطق سے بھرپور) ناقابل اختلاف ایسا بیانیہ تیار کریں جو اچانک لی گئی مختلف قیادت یا حکومت کی پوزیشن کو دل سے ایٹ لارج درست تسلیم کرلیاجائے اوررائے عامہ اسی کے مطابق تیار رہے۔ لیکن یہ تو گڈ گورننس والی حکومتوں میں ہوتا ہے، جن میں سیاسی ابلاغ سے بم نہیں چلائے جاتے، ایسی حکومت جناب عمران خان سے ابھی تشکیل نہیں ہو پا رہی کہ عملی سیاست میں اختیار کی گئی سیاسی ابلاغ کی Risky بے نیازی، ان کے بطور حکمران حکومتی ابلاغ میں بھی وافر ہے، جو ان کے ابلاغی معاونین و مشیران (جن کا اپنا ابلاغ بھی آئے دن چھوٹے بڑے ابلاغی ڈیزاسٹر پیداکر رہا ہے) سے متاثر معلوم دیتی ہے جبکہ خان اعظم کا اپنا وژن، کمٹمنٹ اور کیلیبر تو خاصا کشادہ ، مستحکم اوروزنی ہے۔ اپنی ذاتی صلاحیتوں اور شخصیت کی خوبیوںکے حوالے سے ان کا انداز ِحکومت، مشیران سے متاثرہ سیاسی ابلاغ سے کہیں زیادہ معیاری اور پرکشش ہے۔ سو، خان صاحب اپنے سیاسی ابلاغ میں اصطلاحات،تاریخی حوالوں اور الفاظ کی connotation (کسی لفظ کا اذہان میں بننے والا عمومی مگر پوشیدہ تاثر) کی ادائیگی بڑی بے نیازی سے ابلاغ کے اثر پذیری کی پرواہ کئے بغیر بدستور کئے جارہے ہیں۔ معلوم دیتا ہے کہ وہ اپنے اور نابغہ روزگار مشیران کی مشاورت پر غیرمطلوب حد تک اعتماد کرتے ہیں کہ ’’یہ ہی درست ہے‘‘ حالانکہ یہ درست ہو کر بھی طریق ادائیگی کے حوالے سے درست نہیں رہتا۔
اگر حکومتی سربراہوں کا فقط کوئی بیان ہی ٹی وی چینلز کی بریکنگ اور پھر بلیٹن کی اوپننگ نیوز بن جائے اور آنے والی صبح کے قومی روزناموں کی شہ سرخی بھی تو اس کا فالو اپ پھر شیطان کی آنت کی طرح طویل ہوتا ہے۔ بطور پاپولر سیاسی و عوامی رہنما خان صاحب کی میڈیا میں زیادہ جگہ اوروقت لیناتو سمجھ آتا ہے بلکہ یہ ہر سیاسی پارٹی کی بڑی ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے قائد کی میڈیا میں کوریج کی فری کوئینسی زیادہ سے زیادہ ہو، لیکن بطور حکمران فقط ایک بیان اور اصطلاح کے غلط جگہ پر یہ غلط انداز میں ادائیگی سے حاصل ہونے والا طویل تر فالو اپ ’’لینے کے پڑ گئے دینے‘‘ کے مترادف ہے، وہ الگ بات ہے کہ ہمارے خان اعظم کا اپنے پراعتماداوربے نیازی، امریکی صدر ٹرمپ کے شہرہ آفاق حکومتی ابلاغ کے درجےپر آگئی ہے۔
ہمارے شہرہ آفاق اینٹی کرپشن اور پرو اکائونٹبیلیٹی وزیراعظم، ان کے معاونین خصوصاً فقط تیزطرار ابلاغی مشیران، تمام سیاسی قائدین و کارکنان اور عوام الناس کی Consumption (ذہنی کھپت) کے لئے فقط اتنی عرض، بغرض اصلاح سیاسی و حکومتی ابلاغ، ضرور ہے کہ:
پاکستان کے سیاسی ابلاغ میں ’’یوٹرن‘‘ کی جو منفی Connotation (عمومی تاثر) ہمارے سیاسی ابلاغ میں بنا دی گئی ہے، اس کے مقابل بین الاقوامی امور، ڈپلومیسی حتیٰ کہ ترقی یافتہ جمہوریتوں میں بھی یوٹرن ایک ناگزیر سیاسی و حکومتی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتی ہے مگر منفی نہیں مثبت۔ ایسے کہ پالیسی، فیصلے اور سیاسی و حکومتی پوزیشن میں کسی لئے جانے والے یوٹرن کی تشریح عقلی دلائل اور منطق کے ساتھ ایسی صحافتی زبان میںساتھ ہی کردی جائے کہ عوام الناس کی سطح پر اس کی بآسانی ذہنی قبولیت ہو کر یہ ہی تبدیل شدہ سیاسی یا حکومتی پوزیشن، فیصلہ، اقدام رائے عامہ کی شکل اختیارکرلے تو حکمت عملی کے طور پر Cold-Intelectual Calculations کی بنیاد پر لیاگیا یوٹرن لینا ناگزیر اور نتیجہ خیزہوتاہے۔
ہم نے کابل میں پاکستان دوست طالبان حکومت کے قیام پر اطمینان کا اظہارکیا (ہم نے ہی نہیں امریکہ اور برطانیہ نے بھی اور پاکستان میں وزیراعظم بینظیر نے بھی) لیکن مخصوص صورتحال میں، جب ہمیں طالبان حکومت سے نظریں چراکر، آمرانہ حکومت کے ذریعے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی پوزیشن لینا پڑی تو بطور قوم ہم نے اسے بآسانی دس بارہ سال کے لئے ہضم کرلیا۔ وہ الگ بات ہے کہ آج سیاست کی دکان چمکانے کےلئے سیاستدان حریت پسندی ثابت کرنے کے لئے یہ کہیں کہ ایساایک کال پر ہو گیا۔ اس وقت کوئی نہ بولا تھا اور صحیح نہیں بولا تھا۔ آج روس پاکستان کی جانب اور پاکستان روس کی جانب، ترکی کی حکومت بابائے قوم اتاترک کی پالیسیوں اور نظریات کے مخالف یوٹرن لے چکی اور کامیاب جارہی ہے۔ سرسید احمد خان نے بطور سیاسی دانشور جنگ آزادی کے مجاہدین دانشمندانہ حساب کتاب سے اپنی ’’پاور آف ون‘‘ قائم کرکے جداگانہ انتخاب قیام مسلم لیگ تا قیام پاکستان کی راہ ہموار کی۔ وزیر اعظم عمران خان کو نہ جانے کس مشیر نے یوٹرن خان کے طنز کا بے تکا جواب ہٹلر اور نپولین بتایا ہے۔ بنایا کسی مشیر نے ہی ہے اللہ انہیں ان کے مضبوط حصار سے باہر نکالے۔
’’یوٹرن‘‘ بنیادی طورپر ٹریفک اور سفری زبان کی اصطلاح ہے۔ جس کی عملی صورت چلتے چلتے 180 درجے پرپوزیشن تبدیل کرلینا ہے یعنی مغرب کی جانب جاتے جاتے رخ مشرق کی طرف یا مغرب کی طرف جاتے جاتے رخ تبدیل کرکے مشرق کی طرف کرلیناہے۔یا دائیں سے یکدم مکمل بائیں یا بائیں جانب سے مکمل دائیں جانب مڑ جانا ہے۔ اسی لئے سیاست و حکومت میں قائم پوزیشن یا موقف میں یکسر تبدیلی کو یوٹرن سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ بھارتی قوم نے بطور قوم اپنے جمہوری اور سیکولر تشخص پر ناز سے یکسر لاپروا ہو کر اپنی پوزیشن ایسی تبدیل کی ہندوتوا کے نعرے اور ہندو بنیاد پرست کو عام انتخابات میں مینڈیٹ دے کر بھارت کو عملاً بنیاد پرست ہندو ریاست میں تبدیل کردیا جو کہ بھارتی آئین کی روح اور فلاسفی سے یکسر مختلف ہے لیکن اسرائیل، امریکہ اور بھارت کی تکون سے نئی عالمی سیاست شروع ہوگئی۔
’’یوٹرن‘‘ کو جب بھی سیاست و حکومت اور سفارتکاری کے حوالے سے زیربحث لایا جائے، دیکھنا یہ چاہئے کہ سفر کی سمت یکسر تبدیل کرنے کا مقصد کیا ہے۔ جیسے بھارتی قوم نے اپنے آئینی مقصد کو ترک کرکے مذہبی انتہاپسندی کی راہ اختیار کی اور ہندوتوا (بحالی ہندومت) کا ہدف حاصل کیا اور اپنا سیکولر تشخص گنوا دیا۔ امریکی قوم نے بھی عام انتخابات میں یوٹرن لیا اور امریکی قوم کے تشخص کو کھو کر ٹرمپ حکومت کو نسل پرستی اور مذہبی تعصبات پر مبنی پالیسیوں کےباوجود چلنے دیا جارہا ہے۔ جو امریکہ کے فلسفہ آزادی و جمہوریت کے خلاف ہے۔ پاکستان کی داخلی سیاست میں وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی گفتگو میں یوٹرن کی بھونڈی تشریح کے حوالے سے جو بحث شروع ہوئی ہے،اس میں یہ جائزہ لینا چاہئے کہ وزیراعظم عمران خان جہاں جہاںاور جیسے جیسے یوٹرن لے رہے ہیں، وہ کس مقصد کے لئے ہیں، اس سے ان کے انتخابی مہم میں کئےگئے اٹل ارادے تبدیل ہوگئے یا یہ ان ہی کے حصول کے لئے ہی لئے گئے۔ وما علینا الاالبلاغ