• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیس بک مواد پر سنسرشپ کے لحاظ سے پاکستان سرفہرست

اسلام آباد(وسیم عباسی)فیس بک مواد پر سینسرشپ کے لحاظ سے پاکستان سرفہرست ہے۔چیئرمین پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ فیس بک سے توہین رسالت، ریاست مخالف مواد اور فحش نگاری سے متعلق شکایتیں کی ہیں۔بعض افراد نے دعویٰ کیا کہ ان کے خلاف اسلام مخالف، پاکستان مخالف ہونے کا پروپیگنڈہ ہوالیکن ان کی شکایت پر کوئی مثبت ردعمل نہیں آیا۔تفصیلات کے مطابق،فیس بک مواد پر سینسرشپ کے لحاظ سے پاکستان پہلے نمبر پر ہے۔جمعے کے روز کمپنی کی جاری کردہ رپورٹ کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 2018کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران پاکستان نے فیس بک سے مختلف مواد پر پابندی کی 2203درخواستیں کی ہیں ، جو کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں 700گنا زیادہ ہے۔کمپنی کے اعداد وشمار کے مطابق، پاکستان کے تقریباً3کروڑ 60لاکھ افراد فیس بک استعمال کرتے ہیں۔علاوہ ازیں کچھ لوگ جو سوشل میڈیا بشمول فیس بک ، ٹوئیٹر ، واٹس ایپ بہت زیادہ مانیٹر کرتے ہیں ، کچھ متاثرین اور بعض شکایت کنندہ ، انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومتی اداروں کو شکایت کی ہوئی ہے ۔ ایسے افراد نے نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے بہت پرانی شکایت کررکھی ہیں لیکن ہمارے خلاف پروپیگنڈہ جس میں اسلام مخالف ،پاکستان مخالف، بھارتی اور اسرائیلی ایجنٹ ، رشوت و کرپشن اور دیگر الزامات شامل ہیں ابھی تک بدستور جاری ہیں ۔ انہوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ عوام کی یہ شکایت فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس کو حکومت نے بھیجی ہیں اور اگر بھیجی ہیں تو اس کا کوئی مثبت ردعمل نہیں آیا۔ دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈجیٹل رائٹس رہنما نے کہا کہ فیس بک مواد پر پابندی دراصل پاکستان میں روایتی اور سوشل میڈیا پر بڑھتی سینسر شپ لہر کا حصہ ہے۔تاہم چیئرمین پی ٹی اے محمد نوید کا کہناتھا کہ فیس بک سے حکومت نے جو درخواستیں کی ہیں وہ توہین رسالت، ریاست مخالف مواد اور فحش نگاری سے متعلق ہے۔اس حوالے سے پاکستان کے بعد سب سے زیادہ درخواستیں برازیل نے 1855، جرمنی نے 1764، ترکی سے 1634،روس سے 1546، اور بھارت سے 1524درخواستیں فیس بک کو مواد پر پابندی کے حوالے سے موصول ہوئیں۔البتہ فیس بک صارفین کے خلاف پی ٹی اے کی شکایتوں کے حوالے سے پاکستان کو رواں برس کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران کمی دیکھنے میں آئی۔فیس بک صارفین کے خلاف شکایتوں کے لحاظ سے پاکستان کا فہرست میں 13واں نمبر ہے، جب کہ اس فہرست میں 70528شکایتوں کے ساتھ امریکا سرفہرست ہے، جب کہ دوسرے نمبر پر 23047شکایتوں کے ساتھ بھارت ہے۔رپورٹ کے مطابق، 2018میں پاکستان نے 92ایمرجنسی درخواستیں کیں ، جب کہ 1141درخواستیں قانونی طریقہ کار کے ذریعے کی گئیں۔جب کہ اس طرح کے 58فیصد کیسز میں فیس بک نے پاکستانی حکام کے ساتھ صارفین کے ڈیٹا کا تبادلہ کیا۔ڈجیٹل رائٹس رہنما ہارون بلوچ کا کہنا تھا کہ مواد پر پابندی میں اضافے کا تعلق پاکستان میں سینسر شپ کے بڑھتے رجحان سے ہے، جو میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز میں پھیل رہا ہے۔ہارون بلوچ کا کہنا تھا کہ پیکا کے تحت پی ٹی اے کی بعض درخواستیں آزادی اظہاررائے کو پامال کررہی ہیں کیوں کہ پاکستانی قانون اس حق کو مکمل تحفظ فراہم نہیں کرتا۔ہارون بلوچ کا کہنا تھا کہ مواد پر پابندی کے تحت فیس بک سے پوسٹس ہٹادی جاتی ہیں ،جب کہ میزبان ملک کی درخواست پر پیجز بھی ختم کردیئے جاتے ہیں۔ہارون بلو چ کے مطابق، فیس بک ان کٹیگریز کو واضح نہیں کرتا ، جس کے تحت اس طرح کی درخواستیں کی جاتی ہیں ، جس کے باعث آزادی ا ظہار رائے سے متعلق تحفظات میں اضافہ ہورہا ہے۔دی نیوز سے بات کرتے ہوئے پی ٹی اے چیئرمین کا کہناتھا کہ پاکستان عام طور پر جو درخواستیں کرتا ہے اس کا انحصار ملک میں ہونے والے واقعات سے ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ توہین مذہب کا معاملہ قوم کے لیے خاصی حساسیت کا حامل ہےلہٰذا رواں برس اس ضمن میں درخواستوں میں اضافے کا تعلق اسی معاملے کے تحت ہے۔ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا فیس بک سینسر شپ کا تعلق رواں برس عام انتخابات سے ہے تو انہوں نے اس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی اے سیاسی نوعیت کی درخواستیں فیس بک کو نہیں بھجواتا۔ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر درخواستیں عوام کی اور اداروں کی شکایتوں پر مبنی ہوتی ہیں ، جو کہ تین طرح کے مواد توہین مذہب، فحش نگاری یا ریاست مخالف مواد سے متعلق ہوتی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں چیئرمین پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ فیس بک حکومت پاکستان کی درخواستوں پر آنکھیں بند کر کے عمل نہیں کرتا کیوں کہ اس کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہاں تک کے الیکٹرونک کرائمز ایکٹ کا تحفظ (پیکا)،2016کے تحت کی گئی درخواستیں بھی بعض اوقات فیس بک مسترد کردیتا ہے کیوں کہ اس کا امریکا سے باہمی قانونی معاونت کا کوئی معاہدہ نہیں ہے، جہاں سے فیس بک کا تعلق ہے۔ان سے جب پوچھا گیا کہ بھارتی حکومت کس طرح مقبوضہ کشمیر میں آزادی اظہار رائے کو قابو کرنے میں فیس بک پر اثر انداز ہورہی ہےتو پی ٹی اے چیئرمین نے اقرار کیا کہ حکومت پاکستا ن نے اب فیس بک سے بہتر انتظامات کرلیے ہیں اور فیس بک اب پاکستانی درخواستوں پر زیادہ دھیان دے رہا ہے۔رپورٹ میں فیس بک نے دعویٰ کیا کہ وہ صرف ان حکومتی درخواستوں پر جواب دیتا ہے جو اس کے قوانین اور قواعد و ضوابط کے تحت ہوتی ہیں۔فیس بک کے مطابق، موصول ہونے والی ہر درخواست کا قانونی لحاظ سے جائزہ لیا جاتا ہےاور ہم ایسی درخواستوں کو مسترد کرسکتے ہیں یا ان پر مزید وضاحت لے سکتے ہیں جو بہت زیادہ واضح یا مبہم ہو۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم حکومتی درخواستیں اس لیے قبول کرتے ہیں تاکہ باقاعدہ قانونی عمل کی اکائونٹ معلومات کی زیر التوا رسیدوں کو محفوظ کیا جاسکے۔جب ہمیں کوئی درخواست موصول ہوتی ہےتو ہم متعلقہ اکائونٹ معلومات کا عارضی اسنیپ شاٹ محفوظ کرلیتے ہیں ، تاہم کسی بھی محفوظ ریکارڈ کو اس وقت تک ظاہر نہیں کیا جاتا ، جب تک ہمیں باقاعدہ قانونی طریقہ کار سے درخواست موصول نہ ہوجائے۔

تازہ ترین