• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انور مجید اور حسین لوائی وغیرہ کو فوراً اسلام آباد منتقل کرنے کا حکم

لاہور (نمائندہ جنگ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتار اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید، انکے صاحبزادے عبدالغنی مجید اور نجی بینک کے سابق سربراہ حسین لوائی کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے حکم دیا ہے کہ انور مجید کو ایئرایمبولینس کے ذریعے اسلام آباد کے پمز اسپتال منتقل کریں جبکہ عبدالغنی مجید اور حسین لوائی کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تینوں بہت بااثر ہیں کراچی میں تفتیش نہیں ہوسکتی، وزیراعلیٰ سندھ اور انکے سرپرست کو کہیں گواہوں کو بازیاب کرائیں، سمجھ رہے ہیں کیا کہہ رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے جے آئی ٹی کو حکم دیا کہ وہ 10روز میں تفصیلی رپورٹ پیش کرے۔ ہفتے کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جعلی بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت آئی جی سندھ پولیس ڈاکٹر سید کلیم امام اور ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تینوں شخصیات کو پمز اور اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے تاکہ ان سے روزانہ کی بنیاد پر تفتیش ہو سکے۔ دوران سماعت ملزمان کے وکیل نے استدعا کی کہ ملزمان کو کراچی میں ہی رہنے دیا جائے اور جے آئی ٹی ان سے تفتیش کرے۔ تاہم چیف جسٹس نے یہ استدعا مستردکر دی اور حکم دیا کہ انور مجید کو پمز اسپتال اور اے جی مجید اور حسین لوائی کو اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ لوگ بہت بااثر ہیں ،کراچی میں ان کا اپنا راج ہے انہیں اسلام آباد منتقل کیا جائے تاکہ آزادانہ تفتیش مکمل ہو سکے۔ دوران سماعت ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ انور مجید انکوائری میں تعاون نہیں کر رہے۔ا س پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے جے آئی ٹی کو بااختیار بنا دیا ہے۔ کیس میں ملوث ملزمان کے گواہوں کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ گواہ لاپتا ہے اور انکا کوئی پتہ نہیں چل رہا۔ عدالت اس کا نوٹس لے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ وزیراعلیٰ سندھ سے انکی بازیابی کا کہیں یا انکے باس سے بات کی جائے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سمجھ گئے ہیں کہ میں یہ بات کیوں کر رہا ہوں کہ انکے باس سے بات کی جائے تاکہ لاپتا گواہ بازیاب ہو سکے۔ دوران سماعت چیف نے پوچھا کہ کیا جے آئی ٹی نے ملزمان سے اپنی تمام تحقیقات مکمل کر لی ہیں جس پر جے آئی ٹی ارکان نے کہا کہ ابھی تک انہیں ملزمان تک رسائی نہیں دی گئی۔اس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ انور مجید کو کراچی کے اسپتال سے فوری طور پر ایئر ایمبولینس کے ذریعے پمز اسپتال منتقل کیا جائے جبکہ حسین لوائی اور اے جی مجید کو کراچی سے اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔ دوران سماعت انور مجید کی اہلیہ نے چیف جسٹس سے اپیل کی انکے شوہر بیمار ہیں انہیں کراچی میں ہی رہنے دیا جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بھی ساتھ آ جائیں اور اپنے شوہر کی خدمت کریں۔ جب یہ پمز اور اڈیالہ جیل میں رہیں گے تو میرے قریب رہیں گے۔ سپریم کورٹ کے قریب رہیں گے جس سے انکی صحت پر بھی اچھا اثر پڑے گا اور کیس میں بھی پیش رفت ہوگی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اومنی گروپ نے چاروں بینکوں جن میں سمٹ بینک، سندھ بینک، سلک بینک اور نیشنل بینک کو جو رقم دینی ہے کیا آپ کو یہ طریقہ کار منظور ہے۔ اس پر تمام بینکوں کے سربراہان نے کہا کہ انہیں ابھی تک صرف پراپرٹی بتائی گئی اور اس پراپرٹی کا تخمینہ اومنی گروپ نے ہی لگا کر بتایا ہے لہٰذا ہم حقیقی تخمینہ سے مطمئن نہیں ۔اس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ جو بتائی گئی جائیداد ہے اور اومنی گروپ کی طرف سے جو بتائے گئے انڈسٹریل پلاٹس ہیں اور جو انکے ذاتی پلاٹس ہیں ان کا تخمینہ لگا کر 10 روز میں رپورٹ پیش کی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر یہ بیان حلفی غلط ثابت ہوا اور جائیداد کی وہ قیمت جو بتائی گئی وہ درست نہ ہوئی تو پھر بینکوں کے سربراہان ذمہ دار ہوں گے۔ چیف جسٹس نے اس حوالےسے پورا معاہدہ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

تازہ ترین