• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق امریکی اسپیکر او نیل کا کہنا ہے․․․” سیاست مقامی معاملات سے تعلق رکھتی ہے۔“چنانچہ تمام اعلیٰ سطح پر ہونے والی خفیہ کارروائیاں، عالمی دہشت گردی، بین الاقوامی معاملات ، عقربی مظاہر فطرت، جیساکہ نیاگرا آبشار وغیر ہ کو بھول جائیں کیونکہ حقیقی سیاست آفاقی تقاضوں کی دامن گیر نہیں ہوتی․․․ لہٰذا چکوال کی گلیوں اور بازاروں میں خاصی گہما گہمی دکھائی دیتی ہے اور یہاں لگائی جانے والی سیاسی قلابازیاں اولمپک گولڈ میڈلسٹ کو چیلنج کررہی ہیں۔
اس علاقے کے تین ناظم․․․ اٹک کے میجر طارق صادق، جہلم کے فرخ الطاف اور چکوال سے میرے عزیز دوست غلام عباس․․․ جنرل مشرف ، جب وہ تمام سفید و سیاہ کا بلاشرکت ِ غیرے مالک تھا،کے پسندیدہ تھے۔ ان میں غلام عباس کو یہ امتیاز بھی حاصل تھا کہ وہ گجرات کے چوہدری پرویز الہی کا بھی دل پسند تھا۔ چوہدری صاحب کے ایک قریبی دوست حافظ عمار یاسر ، جن کا تعلق تلہ گنگ سے ہے، کی کرم نوازی کی وجہ سے غلام عباس کو عہدے کے لئے زیادہ سرگرمی نہیں دکھانا پڑی ، چنانچہ قسمت اُن پر مہربانی کرتی رہی اور غلام عباس بھی اہم افراد کی قربت حاصل کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ چنانچہ ترقیاتی فنڈز یا جو بھی اُن کو چاہیے ہوتا تھا، کی فراہمی میں فراوانی دیکھنے میں آئی۔ چونکہ سیاست میں کوئی چیز بھی حرف آخر نہیں ہوتی اور نہ ہی اس دنیا سے معجزے ناپید ہوئے ہیں، اس لئے اب مسٹر عباس مسلم لیگ (ن) میں جانے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ ان کو مائل بہ پرواز کرنے میں اس علاقے کے لئے قدرت کی عطاکردہ خوبصورت پہاڑیاں کاٹ کاٹ کر افغانستان اور انڈیا کی ضروریات پوری کرنے والے سیمنٹ مافیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اگر چہ اعلیٰ سطح پر ان سیمنٹ فیکٹریوں کو یہاں لگانے کی اجازت دینے میں صدر مشرف کا ہاتھ تھا تو بھی مقامی سطح پر اس سے غلام عباس کو ہی فائدہ ہوا۔اب اسی مافیا نے غلام عباس کو تحریک دی ہے کہ وہ اس پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیں جس کا ببانگ دہل نعرہ ہے․․․”ہم بدلیں گے پاکستان۔“اگریہی رویہ انقلابی تبدیلی ہے تو پھر سکوت و جمود کے تو وہ معانی ہونے چاہیں جو عام فہم ہونے کے باوجود نا قابل ِ اشاعت قرار دیے جاتے ہیں۔ ویسے ابھی باضابطہ طور پر معاملہ طے نہیں پایا ہے مگر عباس کے حامی متحرک ہیں۔ اگرچہ یہ افراد گزشتہ ستائیس برس(1985 سے لے کر 2012 )سے مسلم لیگ (ن) کے مخالفین رہے ہیں مگر اب ان کو اس میں شامل ہونے میں کوئی عار نہیں ہے۔
اس ضمن میں مسٹر عباس کی مہارت دیدنی ہے۔ جب 2000 میں مشرف نے ریفرنڈم کا انعقاد کیا تو سابقہ گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل خالد مقبول اپنے باس کی حمایت حاصل کرنے چکوال آئے تو اسٹیج پر آکر عباس نے نہایت جوش کے عالم میں جو تقریر کی اُس کا لب لباب یہ تھا کہ اُس نے زندگی میں بہت سے رہنما دیکھے ہیں مشرف کی سی خوبیاں کسی میں نہیں پائیں۔ 2001 میں وہ جنرل مجید ملک کے تعاون سے ضلعی ناظم بن گیا۔ 2005 میں جنرل مجید ملک، جو مشرف کیمپ میں شامل ہو چکے تھے، خود ناظم بننا چاہتے تھے مگر اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی نے عباس کی حمایت کردی۔
تاہم جب تیس اکتوبر کو لاہور کے جلسے کے بعد عمران خان کی ویگن میں سواریاں بھرنا شروع ہو گئیں تو عباس نے وقت گنوائے بغیر تبدیلی کے چیمپئن خان صاحب کو چکوال مدعو کیا اور تحریک انصاف کی حمایت کا اصولی فیصلہ کیا۔ تاہم ایک سال کے اندر اندر ان پر ایک اور اصول پسندی منکشف ہوئی اور اب وہ پی ایم ایل (ن) کے لئے دیدہ دل فرش راہ ہیں۔ سچ ہے کہ سچی لگن رکھنے والاانسان کبھی بھی ناکام نہیں رہتا۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق غلام عباس کا چوہدری نثار علی خان سے رابطہ ہے(تاہم چوہدری نثار کے پرسنل سیکریٹری نے اس خبر کی تردید کی ہے)۔ چوہدری صاحب کا بیرونی دنیا کے ساتھ رابطہ صرف اپنے پی اے کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔لگتا ہے کہ فرشتے بھی چوہدری صاحب سے سوال وجواب ان کے پی اے کے ذریعے ہی کریں گے۔ تاہم غلام عباس کی اس تازہ ترین قلابازی میں ان کو امید کی کرن پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ہی دکھائی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ”قابلِ انتخاب “ افراد کی ضرورت ہوتی ہے مگر کیا اس ضرورت کے چرنوں میں ہر اصول اور قدر قربان کر دی جانی چاہیے ؟کیا یہ طرز ِ سیاست خود کمزور ذہنیت کی عکاسی نہیں کرتی ؟اور پھر یہ دعویٰ کہ ”ہم پاکستان کو بدلیں گے“
1977 کی انتخابی دوڑ میں ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے رفقاء نے سمجھا کہ سیاسی کامیابی کے لئے جیتنے والے گھوڑوں پر ہاتھ رکھنا ضروری ہے ۔ چناچہ اُن جاگیر داروں جن کو ”راج کرنے والی خلقِ خدا“ 1970 کے انتخابات میں شکست دے چکی تھی، کواس امید پر پی پی پی میں شامل کر لیاگیا کہ ان کے ساتھ لاکھوں حامی ہیں مگر کیا اُس پالیسی کا پی پی پی کے انقلابی نعرے کو فائدہ ہوا یا نقصان ؟1979میں پاکستان میں زیادہ تر رجائیت پسند سیاست دان، جن میں نواز شریف اور اعتزاز احسن بھی شامل ہیں، ائیر مارشل اصغر خان کی تحریک ِ استقلال میں جوق در جوق شمولیت اختیار کررہے تھے۔ تاہم جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء کا نفاذ کرتے ہوئے ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی تو ائیر مارشل صاحب کے گلشن سے بھی پنچھی پرواز کر گئے۔
عمران خان کا سونامی کس طرح اتنی جلدی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا؟ شعلہ ِ انقلاب کس طرح راکھ کا ڈھیر بن گیا ؟ اس کی وجہ دور آفاق میں بپا ہونے والی کوئی تبدیلیاں نہیں بلکہ انہی ”قابل انتخاب “ افراد کی پارٹی میں شمولیت ہے جنہوں نے بادہ ِ انقلاب کے لئے ترشی کا کام دیا۔ شروع میں عمران نے گمنام نوجوانوں اور باحوصلہ جواں فکر طلبہ کی امیدوں کا چراغ روشن کیا تھا کیونکہ اس وقت ہر طرف دقیانوسی سیاست کا اندھیرا تھا ․․․ پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) روایتی طرز ِ سیاست رکھتے تھے جس میں اصحاب ِ ثروت ہی جا پاتے ہیں۔ تاہم جیسے ہی خان صاحب نے ”قابل انتخاب “ افراد سے سیٹیں بھرنا شروع کر دیں، ان کا جہاز بوجھل ہو کر روایتی ریت میں بیٹھ گیا کہ ابھی کم گہرے پانی میں تھا۔ اب پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی اس راہ پر چل نکلی ہے۔ یقیناً جب آسمانی طاقتیں کسی کی تباہی کا فیصلہ کر لیتی ہیں تو وہ پہلے استقامت کادامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ پارٹی میں یہ بحث بھی نہایت سنجیدگی سے ہورہی ہے کہ ننکانہ سے پارٹی کا ٹکٹ بریگیڈئیر اعجاز شاہ، جو مشرف کا پر زور حامی اور اس کے دور میں آئی بی کا سربراہ تھا، کو دے دینا چاہیے۔ میں نے سوچا کہ اعجاز شاہ کو پارٹی میں جگہ ملنی ناممکن ہے مگر جب اس تبدیل ہوتے ہوئے سیاسی پیمانوں میں، جس میں امیر مقام، ماروی میمن اور سمیرا ملک اب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنما ہیں، تو مسٹر اعجاز شاہ کا کیا قصور ہے؟
اس وقت مسلم لیگ (ن) اس کے سوا اور کچھ نہیں چاہتی کہ اس کو اگلی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہوجائے اور یہ منطق قابل ِ فہم ہے کہ اکثریت کے بغیر یہ حکومت سازی نہیں کر سکے گی۔ اس کا صاف مطلب ہو گا ملک کو اگلے پانچ سال کے لئے پھرزرداری راج برداشت کرناپڑے گا ․․․ اور یہ سوچ رستم کا کلیجہ بھی پانی کردیتی ہے۔ تاہم اقتدار کی سیاست کے لئے ہر اصول کی پامالی کہاں تک روا ہے ؟کیا انتخابی سیاست میں کامیابی دراصل موقع پرستوں اوروفاداریاں تبدیل کرنے والوں کی کامیابی ہوتی ہے؟اس میں کوئی شک نہیں سندھ، خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں پی ایم ایل (ن) کی پوزیشن کمزور ہے اور وہاں اسے مناسب سیاسی حمایت کی ضرورت ہے، لیکن چکوال میں یہ صورت ِ حال نہیں ہے۔ یہاں سے مشرف دور ، جب مقامی قائدین نے موقع پرستی دکھائی، کے سوا 1985 سے لے کر اب تک ہر الیکشن میں عوام نے نواز لیگ کے امیدوار کی ہی حمایت کی ہے۔
مبادا یہ کالم کسی ذاتی مقصد ، کہ میں ایک مرتبہ پھر یہاں سے ایم این اے بننے کا خواہشمند ہوں، کے پس منظر میں دیکھا جائے، ایک وضاحت ضروری ہے․․․ اگر مجھے ٹکٹ نہ دیا جائے تو نظام ِ ہستی اسی طرح چلتا رہے گااور اس میں رتی بھر تبدیلی واقع نہ ہوگی لیکن کیا چکوال، جو ہمیشہ سے ہی مسلم لیگ کے ساتھ رہا ہے، کے لوگ اس سلوک کے مستحق ہیں کہ ایک ایسے شخص ، جو ہر دور میں نواز لیگ کا مخالف رہا ہو، ان پر مسلط کر دیا جائے؟آگ اور پانی کے ملاپ سے کیا نتیجہ آئے گا؟ غزنوی کا دربار یقیناً ”ایاز“ کے مرہون ِ منت نہیں ہے لیکن زلفیں ابھی اتنی بھی برہم نہیں ہوئی تھیں اور پھر چکوال میں نواز لیگ زندہ ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں روایتی سیاست میں خود کو مکیش کے لافانی گیت کی عملی تصویر پاتا ہوں․․․” سچ ہے دنیا والوکہ ہم ہیں اناڑی“۔ دل تو چاہتا ہے کہ عباس سے میں بھی کچھ سبق سیکھوں ۔مجھ سے بہت سی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں مگر شاید سب سے سنگین غلطی وہ تھی جب میں نے نہایت قابل ِ احترام ایڈووکیٹ ضیا الحسن زیدی کو نواز لیگ کے ضلعی صدر کے عہدے سے ہٹائے جانے کو برداشت کیا۔ کاش یہ غلطیاں قابل ِ تلافی ہوتیں۔
تاہم جادہ ِ زیست بہت سے پیچ و خم سے عبارت ہے، کہ یہی زندگی ہے۔ آخر میں ، شاید کہنے کے لئے یہی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں وقتی فائدے کے لئے کوئی بھی اصول بنا لیتی ہیں اور پھر دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ انقلاب لا رہی ہیں۔ پاکستان کو بچانا ہے لیکن اگر ان نجات دہندوں کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ پاکستان کو بہت زیادہ نجات کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین