• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی بدحالی کی اصل علت جہالت ہے اور ترقی کا واحد راستہ تعلیم ہے ۔ جو تعلیم کا راستہ روکتا ہے وہ اس قوم کا دشمن اور جو تعلیم کے مواقع فراہم کرتا ہے وہ اصل محسن ہے اور یوں دیکھا جائے تو عبدالولی خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر احسان علی خیبرپختونخوا اور بالخصوص اہل مردان کے محسن ہیں۔ عبدالولی خان یونیورسٹی کے دورے سے قبل میں انہیں مردان کے سرسید کے نام سے یاد کیا کرتا تھا لیکن وہاں جاکر علم ہوا کہ وہ قائداعظم اور صاحبزادہ عبدالقیوم خان کے نقش قدم پر بھی گامزن ہیں اور خان عبدالغفار خان کو بھی انہوں نے اپنا آئیڈیل بنا رکھا ہے ۔ وہ قائداعظم کی طرح ان تھک محنت کرتے ہیں ۔ صاحبزادہ عبدالقیوم خان کی طرح تعلیمی سرگرمیوں کو دیکھ کرخوش ہوتے ہیں اور خان عبدالغفار خان کی طرح فقر اور درویشی سے کام لینے کے ساتھ ساتھ اپنی قوم اور اس کی آئندہ نسلوں سے دیوانگی کی حد تک پیار بھی کرتے ہیں ۔ انہوں نے عمل کے ساتھ یہ پیغام دے دیا جو لوگ کام کرنے والے ہوتے ہیں وہ بدترین حالات میں بھی کام کرکے دکھادیتے ہیں ۔ یقینا اعظم خان ہوتی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے شہر مردان کے لئے سرکاری خزانے کے منہ کھول دئے ہیں لیکن یہ ڈاکٹر احسان علی کا وژن ہے کہ وہ ایزی لوڈ مارکہ حکومت سے تعلیم کے لئے رقوم نکلوارہے ہیں اور پائی پائی کو بروقت اور اصل کام پرلگارہے ہیں ۔
وہ حکومت جس میں سیلاب میں بہہ جانے والا ایک چھوٹا سا پل (چکدرہ پل) چار سال میں نہ بن سکا ‘ جو پونے پانچ سال میں صوبائی دارالحکومت پشاور کی سڑکوں کو ٹریفک کے قابل نہ بناسکی‘ جو سوات کے آئی ڈی پیز کے نقصانات کی تلافی نہ کرسکی ‘ اس میں تین سال کے اندر ایک عظیم الشان یونیورسٹی کی تعمیر ‘ اس میں درجنوں شعبوں کا قیام ‘ اس کے لئے درجنوں کیمپس کا بندوبست اور اس میں ہزاروں طلبہ کی پڑھائی کا آغاز ‘ ناقابل تصور کارنامہ ہے جسے ڈاکٹر احسان علی کی قیادت میں ان کی ٹیم نے سرانجام دیا۔ مردان کا نقشہ حیدر ہوتی نے بدل دیا تو مردان کالج جہاں میں پڑھا ہوں اور جس کی حسین یادوں کو میں ہمیشہ دل سے لگائے رکھتا ہوں کا نقشہ ڈاکٹر احسان علی نے بدل دیا ہے ۔ آدھی عمارت میں خان عبدالولی خان یونیورسٹی کا مین کیمپس قائم ہے۔ انبار‘ بونیر‘ چترال‘ پبی ‘ پلوسہ ‘ فعت محل ‘شنکر اور تیمرگہ گرہ کے نام سے مزید آٹھ کیمپس قائم ہیں۔ سائنس اور آرٹس کے درجنوں ڈیپارٹمنٹس میں ہزاروں طلبہ کی پڑھائی شروع ہوگئی ہے ۔ درجنوں پی ایچ ڈی اساتذہ پڑھائی کے لئے موجود ہیں ۔ یونیورسٹی کی نئی عمارت جہاں میڈیکل اور انجینئیرنگ یونیورسٹیاں بھی قائم ہوں گی کے لئے پانچ ہزار کنال زمین خریدی گئی ہے۔ کئی کلومیٹر پر محیط طویل باوٴنڈری وال تعمیر ہوگئی ہے ۔ ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کا کام جاری ہے ۔ اپنے شہر مردان جہاں میرا بچپن اور لڑکپن گزرا ہے ‘میں یہ تبدیلی سرگرمیاں دیکھیں تو دل باغ باغ ہوگیا۔ اب وہاں پر شعبہ صحافت کا بھی افتتاح ہوا جس میں پہلے سال پچاس طلبہ داخلہ لے چکے ہیں ۔
اس کی افتتاحی تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کے لئے بلایا گیا تو زبان گنگ ہونے لگی ۔ سامعین میں کالج کے دنوں کے پروفیسر ڈاکٹر ہمایوں ہما اور پروفیسر میاں عنوان الدین کاکاخیل جیسے بڑے اساتذہ بھی بیٹھے تھے اور مسرت خان عاصی جیسے صحافتی استاد بھی ۔ اب ان کے سامنے خطاب کے جوہر دکھاتا تو کیسے دکھاتا ۔ چنانچہ تقریر کی بجائے طلبہ کے سامنے اپنے آپ کو سوال و جواب کے لئے پیش کیا۔ پہلا سوال صحافت کے پیشے میں درپیش خطرات اور دوسرا سوال مناقشہ رپورٹنگ سے متعلق تھا۔ جواب میں عرض کیا کہ ان دنوں پاکستان کے ہرگوشے اور بالخصوص خیبرپختونخوا‘ فاٹا ‘ بلوچستان اور کراچی میں صحافت جان ہتھیلی میں لئے پھرنے کا دوسرا نام بن گیا ہے اور جو لوگ حقیقی صحافت کرنا چاہتے ہیں انہیں ہمہ وقت خطرات سے کھیلنا ہوگا ۔ اس لئے وہی نوجوان اس طرف آئیں جو زندگی کا رسک لے سکتے ہیں ۔ اسی طرح پورا پاکستان کنفلکٹ زون بن گیا ہے اور جو بندہ بھی میدان صحافت میں قدم رکھے ‘ اس نیت کے ساتھ رکھے کہ انہیں کنفلکٹ زون میں ہی کام کرنا ہوگا۔ پاکستان میں جو تنازعات ہیں ‘ ان کی کئی پرتیں ہیں ۔ یہ تنازعات مذہبی بھی ہیں ‘ نسلی بھی ہیں ‘ لسانی بھی ہیں ‘ معاشرتی بھی ‘ سیاسی بھی ہیں اور ان میں ہر طرح کے ہتھیاروں کا استعمال ہورہا ہے ۔ فریقین الزام تراشی کا ہتھیار بھی استعمال کرتے ہیں ‘ فتویٰ بازی کا بھی‘ گالی اور دشنام کا بھی ‘ جلسے اور جلوس کا بھی ‘ لاٹھی اور گولی کا بھی ۔ یوں اب اہل صحافت کے لئے صرف ایم اے جرنلزم کے نصاب میں شامل کتابوں کا مطالعہ کافی نہیں بلکہ صحافت کے کسی بھی شعبہ میں قدم رکھنے سے قبل پاکستان کے مذکورہ تنازعات اور ان کے تمام پہلوؤں کی سرسری سمجھ بوجھ ضروری ہے ۔ اس لئے مستقبل کے صحافیوں کو دوران طالب علمی بھی اپنے مطالعے اور مشاہدے کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا اور مختلف یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے صحافت کے منتظمین کوبھی چاہئے کہ وہ مذکورہ حوالوں سے بھی طلبہ کی ذہن سازی کریں۔
اس وقت پاکستان اور افغانستان پر پوری دنیا کی نظر ہے ۔ پچاس کے لگ بھگ ملکوں کی افواج افغانستان میں آکر بیٹھ گئی ہیں ۔ پاکستان کے اندر بھی کم وبیش ان تمام ممالک کی اینٹیلی جنس ایجنسیاں اور لابیاں سرگرم عمل ہیں ۔ اس خطے میں پاکستان اور ہندوستان کی پراکسی وار بھی جاری ہے ‘ ایران اور سعودی عرب کا بھی اور مشرق و مغرب کی دیگر بڑی قوتوں کا بھی ۔ ماضی میں یہاں گریٹ گیم جاری تھا لیکن اب اس سے بھی بڑھ کر گریٹ بزکشی کا کھیل گرم ہے جس میں افغانستان اور پاکستان کے عوام کا وہ حشر ہورہا ہے جو بزکشی کے کھیل میں ذبح شدہ بکرے کا ہوجاتا ہے ۔ اس گیم کی نوعیت تزویراتی بھی ہے ‘ مذہبی و نظریاتی بھی ہے ‘ معاشی بھی ہے ‘ سیاسی بھی ہے اور معاشرتی بھی ۔ مستقبل کے صحافیوں کو چاہئیے کہ وہ عملی زندگی میں قدم رکھنے سے قبل اس گریٹ گیم کے تمام پہلوؤں سے آگاہی حاصل کرلیں تاکہ وہ اس کی طرف فیصلہ سازوں کو متوجہ کرنے اور قوم کو ان حوالوں سے ایجوکیٹ کرنے کے قابل ہوسکیں ۔ اگر وہ اس گیم کو سمجھے بغیر ہماری طرح خبر دینے اور لینے کو آئیں گے تو قوم کی رہنمائی کی بجائے اسی طرح کنفیوژن میں اضافہ کریں گے جس طرح کہ آج کل ہم اہل صحافت کررہے ہیں ۔ ہم روزانہ خبر دیتے اور خبر لیتے ہیں ‘ ٹی وی چینلز کی بھرمار ہے اور ٹاک شوز کی یلغار ہے لیکن آج بھی قوم نہیں جانتی کہ امریکہ اس کا دوست ہے یا دشمن ‘ طالبان کون ہیں اور القاعدہ کی حقیقت کیا ہے ؟ ۔ پاکستانی طالبان افغانی طالبان کا پرتو ہے یا پھر ایک الگ اکائی ؟۔ آج کے اہل صحافت تو قوم کو کنفیوژڈ کرچکے ہیں ‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے صحافی بھی ہمارے نقش قدم پر چل پڑیں۔
تازہ ترین