• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ دنوں سے مجھے یہ شدید”تشویش“ لاحق ہو رہی ہے کہ لاہور سے عشق کے حوالے سے میرے بہت سے ”رقیب“ آہستہ آہستہ سامنے آ رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے نہاں خانہ ٴ دل میں اس محبوب کی محبت چھپائے بیٹھے تھے اوراب میر ے کالم سے شہ پا کر انہوں نے بھی حال ِ دل کہنا شروع کردیا ہے۔ ان ”رقیبوں“ میں ہمارے خوبصورت شاعر جمیل یوسف بھی شامل ہیں۔ لاہور سے ان کی محبت کا احوال میرے نام ان کے خط کی صورت میں پڑھیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ جمیل یوسف لاہور میں نہیں لاہور سے سینکڑوں کلومیٹر دوررہتے ہیں۔ دوسری طرف انتظار حسین جو گزشتہ 65برس سے لاہور میں رہتے ہیں ہم سب سے کہیں زیادہ ”لاہوریئے“ ثابت ہو رہے ہیں۔ انہوں نے میرے کالم کے حوالے سے جو کالم باندھا ہے اس میں پرانے لاہور کا عشق رم جھم رم جھم کی صورت میں سامنے آیاہے۔ انہوں نے غالب# کے ایک خط کی کیا خوبصورت کوٹیشن درج کی ہے جو 1857 کے بعد دہلی میں نئی تعمیرات کیلئے پرانی عمارتوں اور سڑکوں کے ڈھائے جانے اور ادھیڑے جانے کے حوالے سے ہے۔ غالب# کہتے ہیں ”آنکھوں کے غبار کی وجہ یہ ہے کہ جو مکان دلّی میں ڈھائے گئے اور جہاں جہاں سڑکیں نکلیں ان سے جتنی گرد اُڑی اس سب کو ازراہ ِ محبت میں نے اپنی آنکھوں میں جگہ دی“ میرے خیال میں یہی کام ہمیں لاہورمیں بھی کرنا چاہئے۔ ویسے نیا لاہور بھی تو بہت پیارا ہے۔ اس کی اپنی خوبصورتی ہے۔ آئندہ تیس چالیس برسوں میں یہ نیا لاہور بھی تو پرانا لاہور بن جائے گا۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا کہ بقول اقبال ”ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں“
چلیں اب جمیل یوسف صاحب کا خط پڑھ لیں!
برادر محترم جناب عطا الحق قاسمی صاحب!
السلام علیکم!
اس دفعہ دوحہ قطر میں آپ کو خراج تحسین و اعتراف پیش کرنے کے لئے جو عالمی اردوکانفرنس منعقد ہوئی جس میں بجاطورپرآپ کو لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس میں آپ کی ملاقات بھارت کے سپرسٹار ز گلزار اور نصیرالدین شاہ سے ہوئی اوران دونوں نے آپ کے سامنے آپ کے شہر اورہم سب کے شہر لاہور کیلئے جس محبت اوراپنائیت کااظہارکیا اس سے خوش ہوکرآپ نے اپنے کالموں میں لاہور کی خوبصورتیوں اوردلفریبیوں کاذکر کیاہے بلکہ29نومبر 2012 کا سارا کالم ہی آپ نے لاہور پر لکھاہے اور یہ خدشہ ظاہرکیا ہے کہ پرانا لاہور جوہماری یادوں میں بستا ہے، آنکھوں سے اوجھل ہو رہاہے اورٹریفک کے بے ہنگم اور منہ زور ریلے کے لئے نئے نئے راستے اور فلائی اوورز بنانے کی کوششوں نے لاہور کانقشہ ہی بدل کر رکھ دیاہے۔ اب لاہوریئے اپنے آپ کو ایک نئے لاہور میں پاتے ہیں جو دن بدن مزید نیا ہو رہا ہے اور جس کے بدلتے ہوئے خدوخال لاہور سے محبت رکھنے والوں کو ناسٹیلجیا میں مبتلا کر رہے ہیں۔ میں چونکہ خود بھی پچھلے پچاس سال سے لاہورکی محبت میں گرفتار ہوں اس لئے بے اختیار اس موضوع پر قلم رواں ہو گیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ لاہور کی مال روڈ لاہور کے ماتھے کاجھومر ہے۔ جب تک یہ جھومر موجود ہے اوراپنی چھب دکھا رہا ہے لاہور کی خوبصورتی اور دلفریبی کا طلسم قائم و دائم رہے گا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ابھی تک مال روڈ کے دونوں طرف موجود لاہور کے خدوخال میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ ایئرپورٹ سے آتے ہوئے جب لاہور چھاؤنی میں جناح ہاؤس کے پہلوسے گزرتا ہوا فورٹریس سٹیڈیم کے پل کی طرف بڑھتا ہوں تو لاہور کو ویسا ہی پاتا ہوں جیسا پچھلے پچاس سال سے دیکھ رہا ہوں۔ فورٹریس سٹیڈیم والا پل جو چھاؤنی کو لاہور شہر سے ملاتاہے ساٹھ سال سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ میں تو زمانہ ٴ طالب علمی سے اس کو اسی حالت میں دیکھ رہا ہوں۔ فورٹریس سٹیڈیم کے اندر جو تبدیلیاں نمودار ہوئی ہیں اور نئے نئے شاپنگ پلازے بنے ہیں ان کا پل پر چڑھتی ہوئی دورویہ سڑک پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا اوراس سے ہٹ کر اپنی جگہ یہ عمارتیں یقینا لاہور کے حسن و جمال میں اضافہ ہیں۔ پل سے اترتے ہی قربان لائنز اور پھر جم خانہ، آگے رسول سروس اکیڈمی پھر نہر کا پل۔ دائیں طرف ایچی سن کالج اور بائیں طرف جی او آر۔ سب اپنی پرانی آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ گورنر ہاؤس، الحمرا آرٹس کونسل، چڑیا گھر، واپڈا ہاؤس، اسمبلی ہال اور اسی طرح کچھ آگے ریگل چوک اور چند قدم کے فاصلے پر مزید آگے وہ پروقار عمارت ہے جو حسن و جمال کا شہکار ہے۔ میں ہائی کورٹ کی بلڈنگ کاذکر کررہا ہوں۔ یہ عمارت فن تعمیر کا نادر نمونہ ہے۔ اس کے برِک ورک کی خوبصورتی کی مثال شاید دنیا بھر میں نہیں ملتی۔ معماروں نے اینٹوں کی چنائی میں وہ ہنر دکھایا ہے کہ اینٹوں سے بنائے گئے بیل بوٹوں اور پھولوں سے آراستہ پیراستہ یہ عمارت ایک دلہن نظر آتی ہے۔
پھر آگے جی پی او ہے۔ ایک د فعہ اس محکمے کے ایک بے وقوف سربراہ نے نیا رنگ روپ دینے کی کوشش میں برِک ورک پر سیمنٹ سے پلستر کروا دیا تھا، انجمن شہریان کے احتجاج پر یہ سیمنٹ کھرج کر دوبارہ بلڈنگ کو اس کی اصلی شکل میں واپس لانے کی کوشش کی گئی۔ بہرحال اس حرکت سے عمارت کا حسن مجروح ہوا۔ آگے پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس جسے اب علامہ اقبال کیمپس کہتے ہیں اورعجائب گھر پھر ٹاؤن ہال (دفتر لاہور کارپوریشن) سب بفضل خدا اپنی جگہ صحیح و سالم موجود ہیں اورآن بان سے ایستادہ ہیں۔
باغ جناح اور منٹگمری ہال (قائداعظم لائبریری) کا ذکر تو رہ ہی گیا ہے۔ باغ جناح اور گلستان فاطمہ کی کئی روشوں اور یہاں کے کئی درختوں سے میری شناسائی کاعرصہ نصف صدی سے کم کا نہیں۔ وہی حفیظ جالندھری کے مشہور مصرع والی بات…
نصف صدی کا قصہ ہے
دو چار برس کی بات نہیں
ابھی مال روڈ کے دورویہ گھنے سایہ دار درختوں کی تصویر کشی باقی ہے۔ مال روڈ پرخصوصاً چھاؤنی میں سرورروڈ پرواقع راحت بیکرز سے لے کر لاہور ہائی کورٹ اور جی پی او تک دونوں طرف سرسبز و شاداب درختوں کا جو جمگھٹا ہے ان کا حسن اپنی جگہ قائم ہے۔ گورنر ہاؤس اور باغ جناح کے اردگرد مال روڈ پرجو درختوں کا ہجوم ہے وہ کس قدر بے پناہ ہے۔ جب تک لاہور کی یہ خوبصورتیاں موجود ہیں پرانا لاہور اپنے حسن و جمال کے ساتھ موجود ہے۔
مے باقی و ماہ تاب باقیست
مارا بتو صد حساب باقیست
ابھی تو گلبرگ کے بلیوارڈ، ماڈل ٹاؤن کے سبزہ زاروں، شاہی مسجد کے میناروں اورداتا دربار کی پرکیف فضاؤں کا بیان نہیں ہوا اورپھر شالامار باغ کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مختصر سی تحریر میں لاہور کی ساری خوبصورتیوں کو بیان کر دینا ممکن ہی نہیں۔
اوریہ تو صرف عمارتوں اور باغوں کا ذکر کر رہا ہوں لاہور کی خوبصورتیوں میں بہت سی نادرہ ٴ روزگار شخصیات بھی تو شامل ہیں جن کا سلسلہ علامہ اقبال، پطرس بخاری، فیض احمد فیض#، مولانا ظفر علی خان ، مولانا غلام رسول مہر، اختر شیرانی، حفیظ جالندھری، صوفی غلام مصطفی تبسم#، سعادت حسن منٹو، شورش کاشمیری، حبیب جالب#، سید عبدالحمید عدم#، احمد ندیم قاسمی، شہزاد احمد، ظفراقبال ، ڈاکٹر خورشید رضوی سے ہوتاہوا بلاشبہ خود آپ تک جا پہنچتا ہے۔ اس شہر خوباں کا تذکرہ کہاں تک ہو:
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
آپ کا مخلص…جمیل یوسف
تازہ ترین