• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:چوہدری الطاف شاہد…برمنگھم
نظام جمہوریت میں جمہور کو ووٹ کی پرچی پر مہر لگانے کے سواکوئی آئینی کردار نہیں دیا گیا۔ منتخب ہونے والے ارکان کا استحقاق بات بات پرمجروح ہوجاتا ہے اوروہ اس پرخوب شوربھی مچاتے ہیں جس طرح حالیہ دنوں میں ڈی جی نیب کے ایک انٹرویو کو بنیاد بنا کر ان کامیڈیاٹرائل کیا گیا جبکہ اس ملک میں عام ووٹر کا کوئی استحقاق نہیں جو نمائندوں کو منتخب کرتا اور ایوان میں بھجواتا ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیاں جمہوریت کیلئے بظاہر تو سنجیدہ نظر آتی ہیں مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ حالیہ عام انتخابات میں پاک سرزمین پارٹی کی شکست کے پیچھے ایک گہری سازش کارفرما ہے مگراس کے باوجود سیّد مصطفیٰ کمال کے طرز سیاست کو ’’کمال است‘‘ کہنا بےجا نہ ہوگا۔ ان پارٹیوں کے اندرکسی کواپنی قیادت سے اختلاف رائے کی آزادی نہیں اور نہ ہی ان میں اہم عہدوں پر کارکنوں کی نامزدگی کا رواج ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جمہوریت لفظ عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے !یہ کہنا بھی نا مناسب نہ ہو گا کہ ان دوپارٹیوں نے جو جمہوریت پسندی کی گردان الاپنا شروع کی ہوئی ہے مہذب ملکوں کو یہ تاثر دینا ہے کہ وہ جمہوری اقدار کو فروغ دینا چاہتی ہیں مگر مقتدر حلقے انہیں ایسا کرنے سے روک رہے ہیں۔ معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ دونوں جماعتوں کے سربراہوں نے اب تک نظام مساوات کے لیے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی وہ دولت اور اختیارات کا ارتکاز اپنے ہاتھوں ہی میں کرتے آئے ہیں شاید انہوں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ اگر کوئی دوسرا جماعت کی کمان کرتا ہے تو ان کے پروگراموں پر عمل در آمد نہیں ہو پائے گا کسی کارکن یا کارکن نما کو اپنی جماعتوں کے کُلی اختیارات نہیں تفویض کئے… مگر یہ بات درست نہیں ثابت ہو سکی کیونکہ عوام کی حالت جوں کی توں رہی بلکہ خراب سے خراب تر ہوتی گئی …اس طرح جماعتی آمریت بھی توانا ہوتی گئی جس کے نتیجے میں آج بد عنوانی کے سمندر جنم لے رہے ہیں جن کا انکشاف ہر گزرتے دن کے ساتھ ہو رہا ہے۔ بہر حال یہ دونوں بڑی جماعتیں عوام دوست ہیں نہ جمہوریت پسند ان کے کرتا دھرتا تو آپس میں بھی ایک دوسرے کی حاکمیت کو ٹیڑھی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور چاہ رہے ہوتے ہیں کہ کسی طرح وہ سیاست ہی سے دستبردار ہو جائے اور وہ سنجی گلیوں میں تنہا پھرے لہٰذا جمہوریت ایک ڈھونگ ہے۔ جب تک لوگوں کو بنیادی حقوق نہیں دے دیئے جاتے انصاف سستا، سہل اور عام نہیں کر دیا جا تا تب تک یہ کہنا کہ ہم جمہوریت کے لئے کوشاں ہیں ایک دھوکا ہے مقتدر اشرافیہ نے جمہوریت کو اپنے محلات کی باندی بنا لیا ہے، جمہوریت کا آغاز اس وقت ہو گا جب عام لوگ خوش اورخوشحال ہوں گے بدعنوانی اوربدانتظامی کا سدباب ہو گا۔ سرکاری ادارے میرٹ کی شاہراہ پر گامزن ہوں گے، پھر یقیناً عدم برداشت کاایشو بھی کھڑا نہیں ہوگا۔ چند روز قبل ایک تقریب میں جانے کااتفاق ہواجہاں مقررین لچھے دار باتیں کر رہے تھے مگر انہوں نے نظام حیات پرکوئی خاص روشنی نہیں ڈالی کہ اگر یہ ٹھیک ہو جاتا ہے تو عام زندگی میں ٹھہرائو آ جاتا ہے تعلیم مفت بھی فراہم کر دی جائے تو معاشی بد حالی اور انصاف کے مہنگا اور اس تک رسائی نہ ہونے سے سماج کے اندر نفرت اور دوسروں کے وجود کو تسلیم نہ کرنے کا رجحان تقویت پکڑتا رہے گا۔ پھر یہ کہ اگر ہم اس نکتہ کو قبول کر اور سمجھ لیتے ہیں کہ ہر بیج میں شوق نمو ہے اور اس کی اہمیت ہے تو برداشت کا توازن بگڑنے نہیں پائے گا مگر اس پہلو پر ابھی تک ریاست نے نہیں سوچا اور شور مچا رہی ہے کہ یہ ہمیں کیا ہو گیا۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی جمہوریت کی تو یہ کسی کے کہنے اور سوچنے سے نہیں آ سکتی یہ تو اس وقت آئے گی جب ہم خلوص نیت سے اس کو لائیں گے یعنی اس کے تمام تقاضوں کو پورا کرینگے لہٰذا اپنے لئے تو اس کی ضرورت کا واویلا کرنا مگر عوام کو اس کے ثمرات سے محروم کرنا انصاف نہیں اور یہی نا انصافی ہر ایک کو رُلا رہی ہے اور رسوا کر رہی ہے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ہمارے حکمران طبقات نے اگر اس کو پچاس فیصد بھی نافذ کر دیا ہوتا تو اس وقت جو منظر ہاؤ ہو، پکڑ دھکڑ اور تحقیق و تفتیش ابھرا ہے نہ ابھرتا۔ خود احتسابی جاری رہتی غلطیوں اور کوتاہیوں کا انبار نہ لگتا مگر کسی نے بھی نہ سوچا بس چلتے رہے کہ اسی طرح ہی چلنا ہے مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ باغ اجڑتا رہے اور مالی کے ماتھے پر پسینہ نہ آئے اور اس کی آنکھیں نمناک نہ ہوں۔ عوام کو اجڑتے باغ پر دکھ اور افسوس ہونا ہی تھا لہٰذا انہوں نے دہائی دینا ہی تھی اور اس پر رد عمل بھی ظاہر ہونا تھا۔ سو وہ ہو چکا ریاستی ادارے متحرک ہو چکے ہیں اور وہ پوچھ گچھ کی دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے سوال کر رہے ہیں کہ بھاری رقوم کے تم مالک کیسے بن گئے کہ لوگ زندگی کو غربت و نا انصافی کی وجہ سے ایک بوجھ محسوس کرنے لگے ہیں مگر وہ جواب میں کہتے ہیں کہ آپ کو اس سے کیا غرض۔ وہ کیوں بتائیں انہیں سینہ زوری کی انتہاء ہے یہ۔ یہ سینہ زوری ہی تھی کہ ان کے عہد میں کمزور، بے بس ، مجبور اور لاچار عوام کے جائیدادیں ان کے ہاتھوں سے نکل گئیں ان پر بد معاشوں غنڈوں ، اشتہاریوں اور قانون شکنوں نے قبضہ کر لیا اب تک وہ مارے مارے پھرتے ہیں۔ میری عمران خان سے درخواست ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے وقت نکالیں، زمینوں جائیدادوں اور مکانات پر قابض افراد کی خبرلیں اس کیلئے میں ایک الگ سے تحریک چلانے والا ہوں۔ کیونکہ میں بھی متاثرین میں سے ہوں۔!!، بہر کیف موجودہ حکومت کو داد دینی چاہئے کہ اس نے بد عنوانی جو غیر جمہوری رویوں کا شاخسانہ ہے کے خلاف کئی برس سے اعلان جنگ کر رکھا ہے اور لگ رہا ہے کہ وہ اس کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کامیاب ہوجائے گی اگرچہ اسے تندوتیز تنقید کا بھی سامنا ہے کہ دیکھیں جی اس کے اندر بھی تو کچھ لوگ قابل احتساب ہیں انہیں بھی پوچھا جانا چاہیے، وزیراعظم عمران خان نے کس وقت کہا ہے کہ انہیں قانون کے کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا جا سکتا وہ تو خود کہتے ہیں کہ احتساب سب کا، یقین جانئے یہی جمہوریت ہے جو اب تک یہاں نہیں آ سکی کہ لوٹ مار کا بازار گرم رہا۔ اور ریاست کی بقا و سلامتی کو خطرات لاحق ہو گئے جسے بچانے کیلئے اہل خرد اور ذمہ داران نے اپنا کردار ادا کرنے کا آغاز کر دیا ہے اب جہاں جہاں بد عنوان اور ان کے ہمدرد چھپے بیٹھے ہیں وہ ضرور پکڑے جائیں گے، چاہے وہ کتنا ہی خود کو دبیز چادروں کی بکلوں میں چھپائیں، دیکھنے والی آنکھیں انہیں ڈھونڈ نکالیں گی کیونکہ انہوں نے ملک کے ہر شعبے میں بد عنوانی کا زہر داخل کر کے اس کے وجود کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔ سماجی بربادی کو ممکن بنایا مگر اب ایسا نہیں ہو گا۔ احتساب ہو گا اور حقیقی جمہوریت آئے گی جو ہر دُکھ کو دائمی راحت اورسکھ میں بدل دے گی!
تازہ ترین