• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حماقت اور عقلمندی میں فرق یہ ہے کہ عقلمندی محدود ہوتی ہے مگر بے وقوفی کی کوئی حد نہیں۔ (آئن اسٹائن)

اگرچہ نئے پاکستان میں اتفاق ہو چکا ہے کہ یوٹرن اچھے ہوتے ہیں اور ان دنوں ہر انصافیا یو ٹرن کی فضیلت و افادیت بیان کرنے میں لگا ہوا ہے مگر اڑچن یہ ہے کہ یو ٹرن بعض اوقات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پشاور کا بس ریپڈ ٹرانسپورٹ منصوبہ‘ جسے میں نے رواں سال کے آغاز پر دنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار دینے کی جسارت کی تھی، اسے پے درپے یو ٹرنز کی بدولت نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے مہنگے ترین مواصلاتی منصوبے کا اعزاز حاصل ہو چکا ہے۔ جناب پرویز خٹک جب خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ تھے اور اس منصوبے کی لاگت 49ارب روپے بیان کیا کرتے تھے تو خاکسار نے اس کالم میں انکشاف کیا کہ بی آر ٹی منصوبے کی ممکنہ لاگت کا تخمینہ 69ارب روپے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ یہ حساس قومی راز افشا کرنے پربندۂ گستاخ کو نہایت فراخدلی کے ساتھ گالیوں سے نوازا گیا۔ جب صوبائی حکومت کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ 31مئی کو اس منصوبے کا افتتاح ہو جائے گا اور پھر 30جون کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی اور میں نے تعجب کا اظہار کیا تو مجھے لفافہ صحافی کا خطاب دے دیا گیا لیکن اب نئے پاکستان میں باضابطہ طور پر ان باتوں کی توثیق کر دی گئی ہے تو سوچتا ہوں گالیوں سے لیس توپوں کا رُخ کس طرف موڑا جائے گا؟ ’’ایکنک‘‘ نے چند روز قبل بی آر ٹی کے جس نظر ثانی تخمینے کی منظوری دی ہے اس کے مطابق منصوبے کی لاگت 49ارب روپے سے بڑھا کر 66.43ارب روپے ہو چکی ہے جبکہ سول ورک کی تکمیل کے لئےجون 2019ء کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف اس تخمینے پر آئندہ برس یو ٹرن لیا جائے گا بلکہ ڈیڈ لائن میں بھی توسیع کرنا پڑے گی۔ اس منصوبے سے منسلک افراد کے خیال میں کام اسی رفتار سے جاری رہا تو ڈیڈ لائن تک محض ’’ریچ ون‘‘ پر سول ورک مکمل ہو گا یعنی دو تہائی کام پھر بھی ادھورا رہ جائے گا۔ اسی طرح منصوبے کی لاگت بھی کم از کم 90ارب روپے تک پہنچنے کی توقع ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی طرف سے اس منصوبے کا پہلا پروکیورمنٹ پلان 30جون 2017ء، دوسرا پروکیورمنٹ پلان فروری 2018ء جبکہ تیسرا پروکیورمنٹ پلان اپریل 2018ء میں سامنے آیا۔ آخری پروکیورمنٹ پلان کے مطابق اس منصوبے کی لاگت ڈالر کی موجودہ قیمت کے مطابق روپوں میں منتقل کی جائے تو یہ تقریباً 78ارب روپے بنتی ہے۔ ابھی چوتھا پروکیورمنٹ پلان آنا ہے جس میں لاگت کا تخمینہ تبدیل ہو سکتا ہے اور پھر منصوبے کے ڈھانچے میں بار بار کی گئی تبدیلیوں سے جو نقصان ہوا، اس کے اثرات بھی منتقل ہونا ہیں۔ اگر اے ڈی بی کے پروکیورمنٹ پلان کو دیکھیں تو یہ منصوبہ 31دسمبر 2021ء میں مکمل ہونا ہے اس لئے لامحالہ نئی ڈیڈ لائن پر بھی یوٹرن لئے جانے کی توقع ہے۔

یو ٹرن سیاسی اعتبار سے بیشک اچھے ہوں مگر معاشی تناظر میں بہت خوفناک اور تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر بی آر ٹی منصوبے کا فیتہ کاٹنے کی جلدی میں سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے ٹرانس پشاور کمپنی کے سی ای او پر دبائو ڈالا کہ وہ جس قدر جلد ممکن ہو سکے، چین سے بسیں منگوائیں اور انہیں چلانے کے لئے انٹیلی جنس ٹرانسپورٹ سسٹم کی بڈنگ کا عمل مکمل کریں۔ ٹرانس پشاور کمپنی کے سی ای او اس دبائو کی تاب نہ لاتے ہوئے مستعفی ہو گئے اور اب صورتحال یہ ہے کہ چین کی گولڈن ڈریگن کمپنی جس سے 450ہائبرڈ بسیں خریدنے کے لئے معاہدہ کیا گیا تھا، کا اصرار ہے کہ ادائیگی کریں اور اپنی بسیں وصول کریں۔ دوسری طرف جس فرم کو آئی ٹی ایس کا ٹھیکہ دیا گیا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ جلد سول ورک مکمل کریں تاکہ آئی ٹی ایس کے لئے ضروری نیٹ ورک بچھایا جا سکے مگر ٹرانس پشاور کمپنی کی انتظامیہ جو گزشتہ کئی ماہ سے بغیر سربراہ کے کام کر رہی ہے، وہ پریشانی کے عالم میں کبھی پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی طرف دیکھتی ہے تو کبھی بی آر ٹی روٹ پر سست روی سے جاری کام اس کا منہ چڑاتا ہے۔ ٹرانس پشاور کمپنی بسیں وصول کرنے سے اس لئے قاصر ہے کہ ابھی تک بس ڈپو تعمیر نہیں ہو سکا۔ سیاسی دبائو کے باعث ٹرانس پشاور نے جو تیزی دکھائی وہ سول ورک کے بروقت مکمل نہ ہونے سے نہ صرف لاحاصل ہو گئی بلکہ اس سے منصوبے کی لاگت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

میں نے کالم کے آغاز میں بتایا تھا کہ بی آر ٹی پشاور پاکستان کے میٹرو بس منصوبوں کے مقابلے میں تو مہنگا ترین منصوبہ ہے ہی مگر اب اسے دنیا کے مہنگے ترین منصوبے کا اعزاز بھی حاصل ہو چکا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے اشتراک سے دنیا کے کئی ممالک میں بی آر ٹی پشاور طرز کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر چین میں جیانگ شی تیان اربن ٹرانسپورٹ منصوبے پر کام جاری ہے۔ منگولیا میں اربن ٹرانسپورٹ ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کو اے ڈی بی فنانس کر رہا ہے۔ بھارت میں بھی اسی نوعیت کا ایک منصوبہ مکمل کیا جانا ہے مگر آپ بنگلہ دیش کے بی آر ٹی پروجیکٹ کا پشاور بس ریپڈ ٹرانسپورٹ منصوبے سے موازنہ کریں تو دنگ رہ جائیں۔ گریٹر ڈھاکہ اے ڈی پروکیورمنٹ پلان کے مطابق بی آر ٹی پروجیکٹ کی لاگت کا تخمینہ 25.5ملین ڈالر ہے یعنی بی آر ٹی پشاور کے نصف سے بھی کم۔ اگر دونوں منصوبوں کا فی کلومیٹر لاگت کے اعتبار سے تقابل کیا جائے تو بھی بہت واضح اور بڑا فرق دکھائی دیتا ہے۔ بی آر ٹی پشاور منصوبہ 27کلومیٹر پر محیط ہے یوں فی کلومیٹر لاگت 22198148ڈالر بنتی ہے جبکہ گریٹر ڈھاکہ پروجیکٹ جس کی لمبائی 20کلومیٹر سے کچھ زائد ہے اس کی فی کلومیٹر لاگت 12750000ڈالر بن رہی ہے۔ یعنی فی کلومیٹر لاگت میں بھی بی آر ٹی کو بہت بڑی سبقت حاصل ہے۔

لیکن ان پریشان کن معلومات پر دل جلانے یا بھائو کھانے کے بجائے جمع خاطر رکھیں، حکومت بی آر ٹی کے ضمن میں بار بار یوٹرن لینے کے باوجود منزل کی جانب بڑھ رہی ہے اور جب یہ منصوبہ مکمل ہو گا تو عوام کو بھی بی آر ٹی کے روٹ پر یو ٹرن کی سہولت دی جائے گی۔

تازہ ترین