• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچستان کے وزیراعلیٰ رئیسانی صاحب کو کچھ آتا ہو یا نہ آتا ہو(اورحکومت کرنا تو انہیں بالکل نہیں آتی) وہ اپنی گفتگو میں کبھی کبھی ایک خاص‘مجنونانہ دانائی کا مظاہرہ ضرور کرجاتے ہیں۔ کیسی کمال کی بات انہوں نے کہہ دی کہ”ڈگری‘ڈگری ہوتی ہے‘ چاہے اصلی ہو یا جعلی“۔ ایسے چٹکلے موجودہ سیاست سے پیدا ہونے والی ذہنی تکلیف ذرا دیر کے لئے کم کردیتے ہیں۔ذوالفقار مرزا نے بھی کیلے اورسیب کی کہانی سنا کر ہمیں ہنسادیا تھا۔ لیکن کیا ہم رئیسانی صاحب کی منطق کو جمہوریت کیلئے استعمال کرسکتے ہیں؟ یعنی اگر ہم یہ کہیں کہ جمہوریت تو جمہوریت ہوتی ہے چاہے اصلی ہویا جعلی تو کیا یہ مناسب ہوگا؟ مجھے یہ لفظ”جعلی“ قابل اعتراض لگتا ہے۔ شاید یہ کہنا زیادہ صحیح ہو کہ جمہوریت تو جمہوریت ہوتی ہے چاہیے خالص ہو یا اس میں ملاوٹ کردی گئی ہو۔ یوں بھی ہم خالص چیزوں کے عادی نہیں ہیں۔ پتہ نہیں کہ ایسے دوسرے ملک بھی ہیں کہ جہاں کھانے پینے کی چیزوں تک میں ملاوٹ کی جاتی ہو۔ وہ پرانا لطیفہ بھی تو ہے کہ کس نے خودکشی کرنے کیلئے زہر کھالیا اور بچ اس لیے گیا کہ زہر میں ملاوٹ تھی۔خاص نہیں تھا۔
معاف کیجئے گا میں بھٹک گیا۔ کہنا یہ تھا کہ آج کل پاکستان کی جمہوریت پر انتہائی سنجیدہ گفتگو کی جارہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک منتخب حکومت اپنی میعاد پوری کررہی ہے اور اس ضابطے کی کارروائی کو ایک سیاسی معجزہ سمجھا جارہا ہے۔ میعاد پوری ہوگئی۔ میعاد پوری ہوگئی۔ تالیاں۔ لیکن کیا صرف میعاد کے پورے ہونے سے جمہوریت اصلی ہوگئی…؟
گویا اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم اس جمہوریت کو مروجہ جمہوری اصولوں پر پرکھنے کے بعد یہ فیصلہ کریں کہ یہ کتنی اچھی ہے اورکہاں کہاں یہ مطلوبہ معیار سے گری ہے۔ یعنی انصاف کے ترازوکو تھامنے کی ضرورت ہے۔اس عمل کیلئے عمران خان کی پارٹی سے اجازت لینے کی چنداں ضرورت نہیں۔ نہ ہی اس میں اعلیٰ عدلیہ کی مداخلت درکار ہے۔ ہم سب اپنے اپنے ذہن میں ایک فرضی ترازو سے کام چلاسکتے ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں میں جو اچھے کام کیے ہیں حکومت نے”یا پارلیمنٹ نے‘ انہیں ہم ایک پلڑے میں رکھ دیں۔ جو غلطیاں اورلغزشیں سرزد ہوئی ہیں وہ دوسرے پلڑے میں ڈال دیں۔اب سوچیں کہ کون سا پلڑا بھاری ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے ذاتی سیاسی خیالات‘ تعصب اورمعلومات یا لاعلمی کے حساب سے جمہوریت کی صحت کی تشخیص کرے گا۔ پھربھی‘ اس قسم کا جائزہ بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں کسی اتفاق رائے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ جمہوریت کا تو مطلب ہی رائے کی آزادی ہے۔ اس کے علاوہ جمہوریت کا مطلب کیا ہے یہ جاننا اورسمجھنا بھی لازمی ہے۔یہاں میں یہ بات زور دے کر کہوں گا کہ میں سخن فہم نہیں‘ جمہوریت کا طرفدار ہوں۔ اور یہ جانبداری زندگی کے بارے میں میرے نظریے کی بنیاد ہے۔ انسانی تہذیب ہزاروں سال کے ارتقائی سفر کے بعد جمہوریت تک پہنچی ہے۔ وہ نظام جن کی ساخت کو جمہوری نہیں سمجھا جاتا‘ جیسے چین میں سوشلزم اورآزاد معیشت کے ملاپ سے قائم طرز حکمرانی وہ بھی عوام کے جمہوری حقوق اورامنگوں کے دائرے ہی میں زندہ رہ سکتا ہے۔مطلق العنان حکومتیں تاریخ کے راستے کا پتھرہیں وقت کا سونامی جلد یا بدیر انہیں بہالے جائے گا۔
اب اگر ہم اپنی موجودہ جمہوریت کا جائزہ لیں تو یہ سچ ہے کہ ہمیں مثبت رجحانات کا خانہ خالی دکھائی نہیں دے گا۔ یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ جمہوری عمل کا جاری رہنا ہی ہمارے لئے ایک نعمت ہے۔ اتنی بار ہم نے فوجی مداخلت کا عذاب سہا ہے کہ ہمارے ذہنوں میں قومی سلامتی کے بارے میں کئی الجھنیں پیدا ہوگئی ہیں۔ ہمارے اجتماعی کردار میں کئی غیرجمہوری رویے جڑپکڑ چکے ہیں۔ جمہوریت کی روح سے زیادہ ہم اس کے پیکر کو زیادہ اہمیت دیتے رہے ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں میں صحیح سمت کا تعین کرنے کی کوششیں بھی کی گئی ہیں۔اٹھارویں ترمیم ایک اچھی مثال ہے۔آزاد عدلیہ اورآزاد میڈیا کی پیش قدمی بھی اطمینان کا باعث ہے گو ان دونوں شعبوں میں ایسے گوشے بھی ہیں جو شبہات کو جنم دیتے ہیں۔آزاد اورخودمختار الیکشن کمیشن کے قیام کو ہم جمہوریت کی فتح قرار دے سکتے ہیں۔یہ سب ہے لیکن مجھے دوسرا پلڑا‘ جس میں منفی رجحانات رکھے جائیں‘زیادہ بھاری لگتا ہے۔ مفاہمت پسند مبصر‘ اپنے ذہنی سکون کی خاطر اورتکلیف دہ مایوسی سے بچنے کی کوشش میں شاید یہ کہیں کہ دونوں پلڑے برابر ہیں۔ میں اسے انصاف نہیں سمجھتا۔ گزشتہ پانچ سالوں میں معاشرے کی حالت مزید بگڑی ہے۔ انفرادی زندگیوں میں مصائب کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے جس بات سے کسی کو اختلاف نہیں وہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی حکمرانی کا معیار انتہائی شرمناک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو حکومت کرنا نہیں آتا۔ احتساب کی ضرورت کے مسلسل شور میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔ ہر طرف افراتفری ہے۔ علمی‘ فکری اور اخلاقی بے راہ روی بڑھ رہی ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی وجہ سے معاشرے میں توازن باقی نہیں رہا ہے۔ یہ سب مانتے ہیں کہ امن وامان کا قیام اور لوگوں کی جان اورمال کی حفاظت کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ اس لحاظ سے تو موجودہ حکومت اپنے پہلے پرچے ہی میں فیل ہوگئی ہے۔
اگر حکومت کا اپنی میعاد پوری کرنا کوئی بڑا کارنامہ ہے تو اس کیلئے ہمیں افواج پاکستان کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے۔ وہ اس لئے کہ ہم فوجی مداخلت ہی کو جمہوریت کیلئے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں۔لیکن ایسا نہیں ہے۔ فوج کب مداخلت کرتی ہے اور کب نہیں کرتی اور اس عمل میں غیرفوجی اداروں یا افراد کا کیا رول ہوسکتا ہے اس سے قطع نظر…اب یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ خودجمہوریت بھی جمہوریت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ آپ یہ دیکھئے کہ موجودہ حکومت جسے مفاہمت کہتی ہے کیا وہ کئی معنوں میں غیرجمہوری قوتوں سے سمجھوتہ نہیں ہے؟ ایسا کیوں ہوا کہ جمہوریت بھی چلتی رہی اور انتہاپسندی میں بھی اضافہ ہوتا رہا‘ جبکہ انتہا پسندی جمہوریت کی ضد ہے؟ اس سلسلے میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ صرف اپنی میعاد پوری کرنے کی غرض سے موجودہ حکمرانوں نے اکثر اپنی اہم ذمہ داریوں سے چشم پوشی کی۔ جب بھی کوئی کڑا وقت آیا انہوں نے اصولوں سے بے وفائی کی۔ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد کے واقعات میری نظر میں ہیں۔ دوسری کئی مثالیں بھی ہیں۔
تو اب‘ جب میعاد پوری ہورہی ہے تو جمہوریت کا کیا بنے گا؟ ایک ضرورت تو یہ ہے کہ انتہا پسندی کیخلاف انتظامی سے زیادہ‘فکری اور سیاسی محاذ بنانے پر زور دیا جائے۔پورے معاشرے پردہشت اورخوف کا جو غلبہ ہے اسے دور کیا جائے۔ ایک روشن خیال‘ جدید معاشرے کے قیام کیلئے ایک ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جس میں کسی مفاہمت‘ بزدلی یا کمزوری کا دخل نہ ہو۔پتہ نہیں موجودہ حالات میں یہ ممکن بھی ہے یا نہیں۔
تازہ ترین