• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے وقت میں جب یو ٹرن کے حوالے سے بحث جاری ہے، عوام کو بےتابی سے وزیراعظم کے 100روزہ پلان اور اس پر عمل درآمد کا انتظار ہے جو اس ماہ کے آخر میں مکمل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے متعدد ٹاسک فورسز کی سفارشات اور رپورٹس کی روشنی میں کیا پالیسیاں وضع کیں اور ان پر کیسے عمل درآمد کیا جائیگا۔ بندہ صرف امید ہی کرسکتا ہے کہ جن اصلاحات کا انہوں نے وعدہ کیا تھا اس پر کوئی یوٹرن نہیں کیا جائیگا۔100دن بعد سیاست بدلنے جارہی ہے اور یہ حکومت کیلئے حقیقی معنوں میں امتحان ہوگا اور حزب اختلاف کے ساتھ محبت و نفرت کا تعلق ہوگا۔ جہاں تک سول ملٹری تعلقات ہیں، اس حوالے سے اب تک سب کچھ صحیح ہے ، اگرچہ وزیراعظم اور حکومت نے عدالتی احکامات کی وجہ سے کچھ ہزیمت اٹھانی پڑی لیکن اس کے لئے حکومت خود کو قصوروار ٹہرائے کیونکہ اس کی وجہ سے وزیراعلیٰ پنجاب، دو وفاقی وزرا کو پولیس اور انتطامی امور میں مداخلت پر سپریم کورٹ طلب کیا گیا۔بظاہر تحریک انصاف کی حکومت حزب اختلاف کے ساتھ جاری تناو کو کم کرنے کے موڈ میں نہیںکیونکہ پارلیمنٹ سے باہر اپوزیشن میں تقسیم حکومت کے حق میں گئی تاہم ایوان کے اندر حکومت کو سخت چیلنجز درپیش ہیں۔ تازہ ترین واقعہ جس کی پہلے کوئی نذیر نہیں ملتی تو وزیراطلاعات پر سینیٹ میں خود تحریک انصا ف کے حمایت یافتہ سینیٹ چئیرمین کی جانب سے لگائی جانیوالی پابندی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حزب اختلاف خصوصاً ن لیگ حکومت کے 100روزہ پلان کے فیل ہونے اور پے در پے یوٹرن لینے پر وہائٹ پیپر تیار کررہی ہےجبکہ پی پی کی طرف سے جوابی حملہ 30نومبر کو متوقع ہے جب سکھر میں پارٹی کا یوم تاسیس کے حوالے سے جلسہ ہوگا۔ بلاول بھٹو اور آصف زرداری دونوں اس موقع پر خطاب کریں گے جس میں میڈیا کیلئے کافی کچھ مواد دستیاب ہوگا۔سال 2019سیاست سے پر ہوگا جس میں نئے قوانین کے تحت بلدیاتی انتخابات ہونا ہیںاور جس سے پنجاب اور خصوصاً کراچی میں مستقبل کی سیاسی جہت کا حقیقی معنوں میں تعین ہوگاکیونکہ تحریک انصاف ان انتخابات کو ہر قیمت پر جیتنا چاہتی ہے تاکہ اپنے مستقبل کے منصوبوں پر عمل درآمد کرسکے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں جو کہ 29نومبر کو متوقع ہے، ان چیلنجز کا ذکر کریں گے جو ان کی حکومت کو اقتدار میں آنے سے قبل درپیش رہے اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ خطاب میں اس حمایت کا بھی ذکر ہوگا جو انہیں سعودی عرب اور چین جیسے دوست ممالک سے ملی۔ وہ اپنی حکومت، آئی ایم ایف کے حوالے سے لئے گئے یو ٹرن کا بھی دفاع کریں گے کیونکہ 100دن مکمل ہونے سے قبل آئی ایم ایف سے مذاکرات مکمل ہونے کی توقع ہے اور جس سے پتہ چل جائیگا کہ عام آدمی پر مزید کتنا بوجھ آرہا ہے، یا نہیں آرہا۔ توقع ہے کہ وزیراعظم اس امر پر افسوس کا اظہار کریں گے کہ کچھ سخت اقدامات کی وجہ سے عوام کو مہنگائی، بجلی کے نرخوں ، پیٹرول، گیس، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ برداشت کرنا پڑا، اور یہ کہ مستقبل میں بہتری آئیگی، اور یہ کہ عوام کو اپنے کپتان اور نیا پاکستان پر اعتماد رکھنا چاہیے۔ اپنے خطاب میں وہ حکومت کی کوششوں اور رخ بشمول سادگی مہم کا تذکرہ کریں گےجس کے نتیجے میں ملک میں استحکام آئیگا۔ انکی وزارتیں بھی 100روزہ پلان پر عملدآمد کے حوالے سے کاکردگی رپورٹ کے ساتھ حاضر ہوں گی۔ وزارت خزانہ، اطلاعات، ریلوے، ہاوسنگ، تعلیم، صحت اور داخلہ کے حوالے سے متعدد قوانین بھی زیر غور ہیں۔ پھر وزیراعظم ہمیں یہ بھی بتائیں گے کہ انکی حکومت کس طرح 1کروڑ افراد کو نوکری فراہم کرے گی، کس طرح پانچ سال میں 50لاکھ گھر بنائے گی اور مستقبل کے دیگر منصوبوں پر عمل کرےگی۔ ممکنہ طور پر وہ یہ بھی بتائیں گے کہ کس طرح سول سروس اور پولیس کو سیاست سے پاک کیا جائیگا۔ ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں قائم ٹاسک فورس کی رپورٹ بھی اسی ہفتے جمع کرائے جانے کی توقع ہے۔ اب سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہوگی کہ جو کچھ گزشتہ 100دنوں میں پنجاب اور وفاقی دارلحکومت میں ہوا، بشمول پولیس اور انتظامیہ میں متنازع تبدیلیوں کے حوالے سے، وہ سب کچھ وزیراعظم کے اس دعوے کے برعکس ہے کہ وہ انتظامی اور پولیس کے امور میں سیاسی مداخلت نہیں کریں گے۔ وہ اپنی حکومت کے اس عزم کا اعادہ بھی کریں گے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائیگی اور جو کوئی بھی دولت لوٹنے میں ملوث ہوگا ، جیل جائیگا۔ احتساب اور نئی قانون سازی کے حوالے سے وہ اپنی حکومت کی کامیابیاں بھی گنوائیں گے جن میں مختلف ممالک بشمول برطانیہ کے ساتھ طے پانیوالا تحویل مجرمان کا معاہدہ بھی شامل ہے۔ وہ اپوزیشن خصوصا پی پی اور ن لیگ کو ملک میں تمام تر خرابیوں کا ذمہ دار ٹہرائیں گے۔ وزیراعظم اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ حزب اختلاف تا حال اتحاد کا مظاہرہ نہیں کرسکی اور مولانا فضل الرحمن جیسے رہنما بھی مایوس ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام ف کی قیادت میں کراچی اور لاہور میں ہونے والے دو ملین مارچ کوئی بھی تاثر قائم کرنے میں ناکام رہےکیونکہ جماعت اسلامی اور جے یو آئ میں اندرونی طور پر حکمت عملی کے موضوع پر اختلافات ہیں۔ جماعت اسلامی کو کچھ تحفظات ہیں جس کے باعث یہ شو ایم ایم اے سے زیادہ جمعیت علمائے اسلام کے شو ثابت ہوئے۔

تازہ ترین