• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بلوچستان سے سیاسی ہوا کا خوشگوار جھونکا تھا۔ جناب الطاف حسن قریشی کے پائنا کے زیراہتمام بلوچستان پر قومی سیمینار جنوری کے اوائل تک ملتوی ہوچکا لیکن بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے قائم مقام صدر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی لاہور کے لئے موڈ اور مائنڈ بنا چکے تھے چنانچہ وہ اپنی پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانزیب بلوچ اور سابق ایم این اے رؤف مینگل کے ہمراہ لاہور چلے آئے جہاں سے ان کے اوائل جوانی کی کتنی ہی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں۔ وہ یہاں کے تاریخی گورنمنٹ کالج میں (1969-71) ایف ایس سی کے طالب علم رہے (بعد میں ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے ایم بی بی ایس کیا) انہی دنوں سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہوا تھا۔ اس قیامت پر جواں سال جہانزیب کے جذبات بھی کروڑوں محب وطن پاکستانیوں سے مختلف نہ تھے۔ پائنا سیمینار کے التوا کے باعث ان دو تین دنوں میں ان کے لئے فرصت ہی فرصت تھی۔ وہ جاتی عمرہ میں نوازشریف سے ملے جو پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت میں واحد قدآور لیڈر ہیں جن پر بلوچستان کی پشتون اور بلوچ قیادت اعتماد کر سکتی ہے۔ بلوچستان میں قومی سلامتی کے حوالے سے درپیش تشویشناک حالات میں میاں صاحب کو اپنی قومی ذمہ داری کا بخوبی احساس ہے چنانچہ وہ بلوچ قیادت سے رابطے میں رہتے ہیں۔ زیادہ دن نہیں ہوئے جب وہ ناراض بلوچ سردار عطاء اللہ مینگل سے ملاقات کے لئے کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ بلوچ سردار کے گلے شکوے بڑے سکون سے سنے، جن میں کہیں کہیں تلخی کا رنگ کچھ زیادہ ہی گہرا تھا۔ میڈیا سے گفتگو میں بزرگ بلوچ رہنما نے پاکستان سے تعلق کا دھاگہ ٹوٹنے نہیں دیا تھا۔ چند ہی روز بعد بی بی سی سے ایک انٹرویو میں آزادی کے لئے ہتھیار اٹھانے والے اپنے بلوچ نوجوانوں سے ان کاکہنا تھا کہ اگر انہوں نے آزادی حاصل کر بھی لی تو کیا وہ اس کا تحفظ بھی کر پائیں گے؟ عطاء اللہ مینگل بی این پی کی قیادت اپنے صاحبزادے اخترمینگل کو سونپ چکے جو نوازشریف کی دوسری وزارت عظمیٰ میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ تھے۔ موٹروے کے جشن افتتاح میں وہ اسلام آباد سے لاہور تک نوازشریف کے ہمراہ رہے۔ بعد میں بلوچستان اسمبلی میں اکثریت کا ”اعتماد“ کھو دینے کے بعد وہ وزارت اعلیٰ سے الگ ہوگئے۔ نوازشریف آج بھی اس پر معذرت اور ندامت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہتے کہ انہیں اخترمینگل کی وزارت اعلیٰ بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تھا۔ بھٹو دور میں یہی معاملہ بڑے مینگل کے ساتھ ہو چکا تھا لیکن مختلف انداز میں۔ تب وہ 1970ء کے انتخابات میں حاصل ہونے والی اکثریت کی بناپر بلوچستان میں نیپ اور جے یو آئی کی مخلوط حکومت کے سربراہ تھے۔ یہ وہی تھے جنہوں نے وزیراعلیٰ بنتے ہی اردو کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دیا تھا (صوبہ سرحد میں یہ سعادت مفتی محمود کے حصے میں آئی) لیکن صرف دس ماہ بعد اسمبلی کا اعتماد حاصل ہونے کے باوجود بھٹو صاحب کے حکم سے مینگل حکومت برطرف کردی گئی۔ انہی دنوں سردار مینگل لاہور آئے اور کہا، مرکز کا یہی رویہ بنگالیوں کے احساس محرومی اور بالآخر سقوطِ ڈھاکہ پر منتج ہوا تھا لیکن میں اعلان کرتا ہوں کہ خدانخواستہ باقی ماندہ پاکستان بھی ٹوٹ گیا تو ہم بلوچستان کا نام پاکستان رکھ دیں گے۔ مینگل حکومت کی برطرفی سے شروع ہونے والی بات 1974ء میں نیپ پر پابندی، اس کی قیادت پر غداری کے مقدمے اور بلوچستان میں فوجی آپریشن تک جا پہنچی۔ 1985ء سے شروع ہونے والے سیاسی عمل میں بلوچ قیادت پھر قومی دھارے میں آگئی۔ مشرف دور بلوچوں کے لئے خون آشامی کا نیا سلسلہ لایا۔ بگٹی کے قتل نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ بلوچستان کے ناراض نوجوانوں کو بزرگ شہید مل گیا تھا۔
ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی اور ان کے رفقا سے نوازشریف کی ملاقات ہمیشہ کی طرح بہت خوشگوار رہی۔ اصلاح احوال کے لئے درکار اقدامات پر فریقین کا اتفاق تھا۔ نوازشریف کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) برسراقتدار آکر بگٹی کے قتل کا حساب لے گی (وہ اس موقع پر لال مسجد کے شہیدوں کو بھی نہیں بھولے تھے)۔ الطاف حسن قریشی کے عشائیے میں بھی، جہاں شہر کے چنیدہ اہل علم و فکر موجود تھے، بلوچ لیڈر نے اپنا سینہ کھول دیا۔ ان کا کہنا تھا، آپ ہماری مشکل کا اندازہ کریں کہ ایک طرف ہم بلوچستان کی آزادی کے لئے ہتھیار اٹھانے والوں کے لئے غدار ہیں تو دوسری طرف حب الوطنی اور قومی مفاد کو اپنی اجارہ داری سمجھنے والوں کے لئے بھی مشکوک اور ناقابل اعتبار۔ سینڈوچ کی یہ صورتحال کب تک چلے گی؟ ان کا کہنا تھا، ہم آج بھی پاکستان کے آئین اور وفاق کے اندر ہی اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اور اس کے لئے مسلح جدوجہد کی بجائے پرامن جمہوری اور سیاسی عمل کے قائل ہیں لیکن ”وہ“ ہم پر اعتبار تو کریں۔ اغوا کے بعد سڑکوں پر ملنے والی لاشوں میں ہماری پارٹی کے نوجوان بھی ہوتے ہیں جن کا عسکریت پسندی سے دور دور کا تعلق نہیں ہوتا۔ یہ بجا کہ مری، مینگل اور بگٹی قبائل کے کچھ نوجوانوں نے ہتھیار اٹھا لئے ہیں لیکن انہی قبائل کے لوگ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں سے وابستگی بھی تو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ بی این پی کے سربراہ اخترمینگل گزشتہ دنوں پاکستان آئے اور اصلاحِ احوال کے لئے جو چھ نکات پیش کئے، ان میں کون سی بات آئین پاکستان کے منافی تھی؟ جناب نوازشریف، سید منور حسن اور عمران خان کو ان نکات سے مکمل اتفاق تھا۔ عطاء اللہ مینگل کے چھوٹے صاحبزادے جاویدمینگل عسکریت پسندوں میں شامل ہیں لیکن بزرگ سردار اپنے بیٹے کی بیرون ملک سے آئی ہوئی کال تک نہیں سنتے۔ اخترمینگل بھی اپنے چھوٹے بھائی کی مسلح سرگرمیوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ جہانزیب کی اس بات پر ہمیں خیال آیا، نواب خیربخش مری کا چھوٹا بیٹا حربیار عسکریت پسند ہے تو ان کا بڑا صاحبزادہ چنگیز خان مری، جسے قبیلے کی روایات کے مطابق اپنے باپ کا جانشین بننا ہے، وفاق پاکستان پر یقین رکھتا ہے اور مسلم لیگ (ن) کا سینئر نائب صدر ہے۔ پاکستان کے خلاف براہمداغ کی بغاوت پر شہید بگٹی کی ساری اولاد کو تو غدار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، آخر ان میں پاکستان کی بات کرنے والے بھی تو موجود ہیں۔ تو کیوں نہ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی بجائے کھوٹے اور کھرے کی تمیز کی جائے؟ ان کا کہنا تھا، بلوچستان کے مسائل وہاں کی جینوئن لیڈرشپ ہی حل کر سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے وہاں مصنوعی اور جعلی قیادت مسلط کی جاتی ہے۔ انہوں نے یہاں ایک دلچسپ بات بھی بتائی، جنرل عبدالقادر بلوچ (اب مسلم لیگ (ن) کے رہنما) مشرف دور میں کورکمانڈر اور گورنر بلوچستان رہے۔ مشرف سے اختلاف پر وہ گورنری سے مستعفی ہوگئے۔ 2008ء کے الیکشن میں مشرف کا حکم تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں اس (گالی کے ساتھ) کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ بعد میں عدالت کے ذریعے قومی اسمبلی تک پہنچے۔ ایک سوال پر بی این پی کے رہنما کا کہنا تھا کہ وہ انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں لیکن اس کے لئے ماحول تو سازگار بنایا جائے۔ اور اب آخر میں وہ بات جو بلوچ رہنما نے اپنے گفتگو کے آغاز میں کہی، لاہور بہت خوبصورت ہوگیا ہے، چاروں طرف درخت ہیں اور سڑکوں کے بیچوں بیچ پھولوں کے تختے۔ کبھی کوئٹہ میں بھی پھول کھلتے تھے لیکن اب وہاں بارود کی بو ہے اور آگ کے شعلے۔ لاہور میں تعمیر و ترقی کے اقدامات پر ان کا کہنا تھا، کاش باقی صوبوں، خصوصاً بلوچستان کے حکمران بھی یہاں آئیں اور دیکھیں کہ گورننس کیا ہوتی ہے اور عوام کی فلاح و بہبود کے اقدامات کیسے کئے جاتے ہیں۔
تازہ ترین