• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی نئی حکومت ان دنوں ملک کی برآمدات میں اضافے کے لیے کوشاں ہے۔بلاشبہ یہ کوشش بہت مثبت ہے۔کیوں کہ پانچ برسوں میں ملک کی برآمدات میں 6.7ارب ڈالرز کی ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ حکومت جس تیزی اور جس شرح سےبرآمدات میں اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہےاس میں کام یابی کے کتنے امکانات ہیں؟اور کیا ہم اپنی روایتی فکر اور روایتی برآمدی اشیا کے ساتھ اس دریا کے پار اتر نے کے قابل ہیں؟

رواں برس جون کے مہینے میںسامنے آنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ برآمدات میں 6.7 ارب ڈالرز کی ریکارڈ کمی نے نہ صرف ملکی معیشت کو ہلا دیاہے بلکہ برآمد کنندگان کوبھی شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے ۔ رپو ر ٹ کے مطابق ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی ایکسپورٹ انڈسٹری زوال کا شکا ر ہو چکی ہے۔2013ء میں پاکستان نے برآمدات سے25 ارب ڈالرز کا زرمبادلہ کمایاتھاجس میں ٹیکسٹائل کے شعبے کی برآمدات کا حصہ 13 اعشاریہ 4 ارب ڈالر ز تھا ۔رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ٹیکسٹائل اور چمڑےکی مصنوعات، کھیلوں کے سامان ،زرعی، اور دیگر اشیاء کی برآمدت میں واضح کمی آئی ہے۔اس وقت برآمد کنندگان نے اس بحران کی وجہ حکومت کی ناقص پالیسیز،توانائی کے بحران اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کو قرار دیاتھا ۔ مختلف صوبوں میں قیمتوں کا فرق بھی برآمدات میں کمی کی ایک نمایاں وجہ بتائی گئی تھی۔ماہرین اقتصادیات کے مطابق برآمدات میں ایک ارب ڈالرز کی کمی کا مطلب ایک لاکھ مزدور کابے روز گار ہوناہے۔پاکستان کی برآمدی صنعت میں بہ تدریج کمی آ رہی ہے۔ لیکن اس کے اگلے ہی ماہ برآمدات کے ضمن میں بعض چھوٹی مگرحوصلہ افزا اورنئے راستے دکھاتی خبریں سامنے آئیں۔جولائی کے اواخرمیں پتا چلا کہ پاکستان سے سلے سلائے ملبوسات کی برآمدات میں گزشتہ مالی سال کے دوران 11.22 فی صد اضافہ ریکارڈکیا گیا ہے ۔ادارہ شماریات پاکستان کے اعدادوشمارکے مطابق جولائی سےجون 2018ءتک پاکستان نے سلے سلائے ملبوسات کی برآمدات سے 2.578 ملین ڈالر زکا زر مباد لہ کمایا جومالی سال 2016-17ءکے اسی عرصے کے مقابلے میں11.22 فی صد زیادہ ہے۔مالی سال 2016-17ء کے دوران پاکستان نے سلے سلائے ملبوسات کی برآمدات سے 2.318ارب روپے کا زرمبادلہ کمایا تھا۔ان ہی ایّام میں یہ خوش کن خبر بھی آئی کہ پاکستان سے تمباکو کی برآمدات میں گزشتہ ماہ118.4 فی صد کا نمایاں اضافہ ہواہے۔ادارہ برائے شماریات پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق جون 2018 کے دوران تمباکو کی برآمدات 8لاکھ 66ہزار ڈالرز تک بڑھ گئی تھیں ۔جون 2017کے دوران تمباکو کی برآمدات سے 3لاکھ 97ہزار ڈالرز کا زرمبادلہ کمایاگیا تھا۔اس طرح جون2017 کے مقابلے میں جون 2018 کے دوران تمباکو کی ملکی برآمدات میں 4 لاکھ 69 ہزار ڈالرز یعنی 118 فی صد سے زاید کا نمایاں اضافہ ریکارڈکیا گیا ہے۔

اس کے بعد اگست کے اوائل میں یہ خبر آئی کہ پاکستان کی آئی ٹی کی برآمدات پہلی بار ایک ارب ڈالرز سے تجاوزکرگئی ہیں۔ا سٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2017-18 کے لیے آئی ٹی کی برآمدات اور سروسز کی مالیت ایک ارب 6 لاکھ ڈالرز کے لگ بھگ رہی۔مالی سال 2016-17 میں یہ مالیت 939 ملین ڈالرز ریکارڈ کی گئی تھی۔اس طرح برآمدات میں 13 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔واضح رہے کہ آئی ٹی کی برآمدات میں مسلسل دوسرے سال اضافہ دیکھا گیا ہے۔برآمدات کی یہ مالیت لگائےگئے تخمینوں سے تین گنا زیادہ ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ آئی ٹی کی برآمدات میںاضافہ پاکستانی مصنوعات کی مانگ بڑھنے کے باعث ہوا ہے ۔اس ضمن میں آئی ٹی کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ بڑی کمپنیز کا کاروبار بہتر ہواہے اور بیرونی کلائنٹس سیکیورٹی کی صورت حال میں بہتری کے باعث پاکستان کا رخ کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ آئی ٹی کی برآمدات کا بیش ترحصہ امریکی مارکیٹ اوردوسرے نمبرپریورپی مارکیٹ میںجاتا ہے ۔

ان خبروں کا حوالہ یہاں محض اس لیے دیا گیا کہ ہماری روایتی فکر کے زِنداں میں تازہ ہوا کے کچھ جھونکے داخل ہوسکیں۔ہم اپنے کنویں سے نکل کر یہ دیکھ سکیں کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔لیکن اس کنویں سے نکلنے کے لیے ہمیں عشق کے بہت سے امتحان پاس کر ناپڑیں گے۔یہ ہی وہ مرحلہ ہے جہاں پہنچ کرہماری سانس اکھڑنے لگتی ہے اور ہم اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑدیتے ہیں۔حالاں کہ حقائق منہ پھاڑے ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔ہر باخبر تعلیم یافتہ شخص کو معلوم ہے کہ پاکستان کی اقتصادی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔جولائی کے مہینے میں یہ ہی بات اسٹیٹ بینک باضابطہ طورپر کہہ چکا ہے۔دوسری جانب اقتصادی امورکےماہرین کاکہناہے کہ پاکستان کی معیشت کو پائے دار بنیادوں پر استوار کرنے کےلیےدوررس اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اسٹیٹ بینک نے کہاہے کہ برآمدات میں کمی اور درآمدات میں مسلسل اضافے کی وجہ سے پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 16 ارب ڈالرز تک پہنچ گیا ہے ۔یہ بات بینک کی جانب سے آئندہ دو ماہ کے لیے جاری ہونے والی بینک کی مانیٹری پالیسی میں بتائی گئی تھی ۔ بینک کے گورنر آصف باجوہ کا کہنا تھا کہ حالیہ مہینوں میں ملک کی برآمدت اور بیرون ملک مقیم پا کستا نیو ں کی طرف سے ترسیل زر میں اضافے کے باو جو د ملک کی بڑھتی ہوئی درآمدات کی وجہ سے تجارتی خسارے کو کنڑول کرنا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مالی سال 2018ء میں مالی خسارے کا عبوری تخمینہ 6.8 فی صد لگایا گیا تھا۔ تاہم جولائی 2017ء سے مئی 2018ء تک کے گیارہ مہینوں کے درمیان کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر 16 ارب 20 کروڑ ڈالرز تک پہنچ گیا تھاجو گزشتہ برس کی اسی مدت میں11 ارب 10 کروڑ ڈا لر ز تھا۔ گزشتہ مالی سال کے پہلے 11 ماہ کے دوران برآمدات میں 13.2 فی صداضافہ ہوااور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات زر میں تین فی صد اضافے کے باوجود درآمدات میں اضافے کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ میں اضافہ ہوتا رہا ۔ مالی سال 2018 ء میں شرح نمو 5.8 تک پہنچ گئی تھی جوتیرہ برس کے دوران بلند ترین سطح ہے۔تاہم صارفین کے لیے افراط زرچھ فی صدے کم ہونے کے باوجود پاکستانی کی معیشت کو درپیش چیلنجز میں شدت آئی ہے۔تجارتی ا و ر اقتصادی امور سے متعلق غیر سرکاری ادارے،پاکستان بزنس کونسل کے سربراہ،احسان ملک کے مطابق اس کی بڑی وجہ حالیہ برسوں میں پاکستان میں بڑی تعداد میں مشینری کی درآمد ہے جس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہو ئی۔

برآمدی شعبہ

پاکستان کی برآمدات کی شروعات کھیلوں کے سامان ، آلات اور سرجیکل اوزار سے ہوئی ۔ برآمدات کے فروغ کے لیے حکومت کی ترغیبات سے نہ صرف ملکی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہوا بلکہ برآمدات کی مالیت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ۔گو کہ ملک کی مجموعی برآمدات میں درج بالا اشیاء کا حصہ کافی زیادہ تھا، لیکن آج بھی یہ ملک کی نما یاں برآمدات نہیں کہلائی جا سکتیں ۔ملک کے ابتدائی ترقیاتی منصوبوں میں کاغذ کی صنعت کو بہت اہمیت دی گئی تھی۔ اس کی برآمدات سے کافی امیدیں وابستہ تھیں ۔مجموعی برآمدات میں اس صنعت کا حصہ بھی کافی بڑا تھا اور توقع تھی کہ کاغذ اور نیوزپر نٹ کی مصنوعات کی بر آ مد میں اضافہ ہوگا۔ لیکن اس صنعت کے خاطر خواہ نتائج نہ نکل سکے۔لکھائی اور چھپائی کے کاغذکی پیداوارمیں اضافے کے بجائے کمی دیکھی گئی ۔اسی طرح اخباری کا غذ اور مشینی استعمال کے کاغذ کی پیداوار بھی ہدف سے کم رہی ۔کچھ عرصہ پہلے تک مشینری اور ٹرانسپورٹ کے سامان کی برآمدات بھی بہتر رہیں۔ ان کی مجموعی مالیت شروع میں بہتر رہی لیکن بعد میں کم ہوگئی ۔ان اشیاء کی بڑی منڈیاں بالعموم ہم سایہ ایشیائی وافریقی ممالک اور بالخصوص مشرقِ وسطیٰ تھا۔وقت کے ساتھ ملک میں تیل صاف کرنے کے کارخانے قائم ہوئے جن سے پٹرولیم کی مصنوعات کی بھی برآمدات شروع ہوئیں ۔ان مصنوعات کی برآمدات سے آمدن میںاضافہ ہوا اور یہ پاکستان کی نمایا ں برآمدات میں شمار ہونے لگیں۔

ایک وقت تھا کہ کھالیں ملک کی نمایاں برآمدات میں شمار کی جاتی تھیں۔ مگر یہ مسلسل کم ہوتی گئیں ۔خام چمڑے اور کھالوں کی برآمدات میں جو کمی ہوئی وہ چمڑ ے کی مصنوعات خصوصاًجوتوں کی برآمدات میں اضافے سے پوری ہوگئی ۔سوتی کپڑے اورسوتی مصنوعات کی برآمدات میں بھی غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پاکستان کی سوتی کپڑ ے کی صنعت کی برآمدات مسلسل بہتر ہوتی جا رہی ہیں۔ملک کی مجموعی پیداوار کا ایک تہائی سے زیادہ برآمد کیا جاتا ہے۔ترقیاتی منصوبوں میں سوتی مصنوعات کی برآمد ات کاہدف بہت زیادہ تھاجو وقت سے پہلے ہی حاصل کر لیا گیا اور اب یہ مصنوعات پاکستان کی نمایاں برآمدات میں شامل ہیں۔سوتی برآمدات کی کار کردگی اس لحاظ سے بھی قابلِ تعریف ہے کہ ان کی پیداوار اور متعلقہ درآمدی مرحلوں میں کئی مسا ئل اور پیداوار میں تاخیر بھی ہوئی۔تاہم نتائج اچھے آئے۔ سوتی مصنوعات کی برآمدات میں بھی مجموعی طور پر بہترین سالانہ اضافے کی شرح دیکھنے میں آئی،بلکہ اس کی برآمدات کی رفتار پیداواری صلاحیت سے بھی زیادہ تھی ۔ سوتی دھاگے پر ملنے والی رعایتوں کی غیر موافق تقسیم اور غلط حکمتِ عملی کے باعث سوتی مصنوعات کی برآمدات کی سالانہ شرحِ نموکم ہو رہی ہے۔لیکن پھر بھی برآمدات پیداوار سے کہیں زیادہ ہیں۔ سوتی دھاگے اور سوتی کپڑوں کی برآمدات میں اضافہ ہواہے۔کھڈیوں اور چرخوں کی صورت میں کپڑا سازی کی صلاحیت میں بھی وسعت آئی ہے۔آج سوتی دھاگے کی برآمدات دنیا میں چوتھے نمبر پر اور سوتی مصنوعات کی برآمدات پانچویں نمبر پر ہیں۔سوتی دھاگے کے نمایاں خریدار سوشلسٹ ممالک رہے ہیں۔مجموعی طور پر ہماری سوتی دھاگے کی برآمدات ساٹھ فی صدسے زیادہ ترقی پذیر ممالک کے لیے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہانگ کانگ سوتی دھاگے کی سب سے بڑی منڈی ہے۔پاکستان کی سوتی کپڑے کی صنعت کے لیے برآمدی منڈیاں اب پہلے سے بھی زیادہ اہم ہو گئی ہیں کیوں کہ اس صنعت میں توسیع ہوئی ہے اور اب یہ دنیا کی پانچویں بڑی صنعت ہے۔ لیکن اس اہم صنعت کو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے کہ ترقی یا فتہ ممالک میں کاٹن ٹیکسٹائل کی درآمدات پر بندشیں ہیںاور برطانیہ میں کوٹا سسٹم رائج ہے۔سوتی کپڑے کی صنعت پر جنیواگلوبل معاہدے کے حوالے سے بھی پاکستان کی برآمدات میں برطانیہ اور امریکہ کے حصے میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔جنیو اگلوبل معاہدہ 1963 میں طے پایا ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کی مصنوعات کی منڈیوں میں کوئی دخل اندازی نہ ہو سکے ۔تحفظ کے لیے اس سے پیش تربھی اس قسم کے عارضی انتظامات سالانہ طور پر ہوتے رہے ہیں۔ اب بھی یورپی ممالک کو صنعتی تحفظ حاصل ہے۔

انیسویں صدی میں ترقی یافتہ ممالک تیار شدہ اشیاء بناتے تھے اور غیر ترقی یافتہ نو آبادیاں ان ممالک کی صنعتوں کے لیے خام مال تیار کرتی تھیں ۔ یہ رجحان اب بدل گیا ہے۔ اس کی جگہ اب تقابلی برآمدات نے لے لی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے مسائل کا حل کو ٹے ، محصولات میں تبدیلی یا دنیا کی طرف کسی مدد کے لیے دیکھنے کے بجائے خود انحصار ی میں ہے۔ ورلڈ بینک اور ایف بی آر کی رپورٹس کے مطابق پاکستان کی 79فی صد آمدن پر ٹیکس نہیں دیا جاتا۔اگریہی ٹیکس وصول کرلیا جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔اگر پاکستان بھی ملائیشیا اور بھارت کی تقلید کرے تو سرمایہ لگائے، پیداوار بڑھائے اوراسے برآمدکرے۔ صحیح ٖفارمولا گلوبلائزیشن نہیں بلکہ یہ ہے کہ ترجیحات مقامی ضروریات کے مطابق ہوں۔اس سے ہمارے جی ڈی پی اور آمدن میں اضافہ ہوگا اور دنیا کی منڈیوں میں ہمارے لیے راستے کشادہ ہوجائیں گے۔لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ ملک کی مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل کا حصہ 38 فی صد ہے مگر اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے علمی اور تحقیقی سطح پر کوئی مثبت اور قابل قبول عملی اقدام نہیں اٹھایا گیاہے۔ نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی ملک کی واحد جامعہ ہے جہاں اس شعبے کے لیے تعلیم و تحقیق کا بندوبست کیا گیاہے مگر یہ ملک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

ہم نہ جانے کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ ملک کی معیشت اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی اور نہ ہی مضبوط ہو سکتی ہے جب تک ملک میںپیداواری شعبہ مضبوط نہ کیا جائےاوربرآمدات نہ بڑھائی جائیں اور درآمدات کو کم کیا جائے ۔ملک کی برآمدات بڑھانے میں سب سے اہم شعبہ پیداوار کا ہے اور ہمیں اپنے روایتی اور غیر روایتی دونوں شعبوںپر توجہ دے کراس کی پیداواربڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا،کیوں کہ اس وقت زیادہ انحصار ٹیکسٹائل اورچمڑے کی مصنوعات پرہے۔افسوس کہ ہم بنیادی طور زرعی ملک ہو تے ہوئے ڈیری فارمنگ پر کوئی توجہ نہیں دے سکے ۔دودھ، دہی اور مکھن بھی یورپ اور دیگر ممالک سے درآمدکررہے ہیں، حالاں کہ ہمیں اپنی ڈیری کی صنعت پر، جس پر اب کچھ کام ہو رہا ہے،بہت پہلے توجہ دینی چاہیے تھی۔تاہم اب بھی اس قدر توجہ نہیں دی جا رہی جتنی دینی چاہیے ۔ٹیکسٹائل کی مصنوعات پر پاکستان کی برآمدات کا تقریباً60 فی صدانحصار تھا جو اب کافی کم ہو چکا ہے ۔اس کی بنیا دی وجہ یہ ہے کہ ہم پہلے اپنا کاٹن برآمدکرتے ہیں،پھر یارن درآمدکرتے ہیںاوراس میں سے جوبچتا ہے وہ ملکی ضروریات کے لیے رکھتے ہیں۔ تیار شدہ مصنوعات کی پیداواری لاگت اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب ہم بین الاقوامی سطح پر اپنی لاگت کی وجہ سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔وفاقی وزارت کو فوراًاس صورت حال کا نوٹس لے کر اس پر کارروائی کرنی چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں ملک سے خام مال برآمد کرنے کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اورتیا رشدہ مصنوعات پر توجہ دینی چاہیے جیسا کہ بنگلا دیش ،تھائی لینڈ ،ملائیشیا ،سری لنکا اور دیگر ممالک کر رہے ہیں ۔

اب ہمیں خوبصورت الفاظ کے گورکھ دھندوں سے نکل کر حقیقی دنیا میں آجا نا چاہیے ۔ہم نے پچاس سال پہلے ملک میں گاڑیوں کے اسمبلنگ پلانٹ لگا ئے تھے اور طے کیا تھا کہ دس سال میں ٹیکنالوجی کے تبادلے کے ساتھ پیداوارہوگی۔موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ تجارتی پالیسی میں اسے یقینی بنائے کہ اب ملک میںجو گاڑیاںتیارہوں ان کی پیداوار ٹیکنالوجی کے تبادلے کے ساتھ ہو۔سابق حکومت کی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے رواں برس مئی کے اواخر میں تین سال کے لیے وزیراعظم کے برآمدی پیکیج کی منظوری دی تھی۔ای سی سی نے برآمدی مصنوعات میں مسابقتی عمل کو بہتر بنانے او ر سرمایہ کاری میں مراعات کےلیے مقامی ٹیکسز اور لیویز کو تجارتی اور برآمد کنندگان کی شرط پر واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا۔اس کے علاوہ مزید غیر روایتی شعبے،برقی پنکھوں، برقی آلات، بجلی کا سازو سامان، کیبلز، ٹرانسپورٹ کا سامان، چمڑے کی مصنوعات،ا سٹیشنری، فرنیچر، تازہ پھلوں اور سبزیوں، گوشت اور گوشت کی پیداوار بھی پیکیج میں شامل تھی۔اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ وزیراعظم کے برآمدی پیکیج کی توسیع تیار مصنوعات ،غیر روایتی مصنوعات اور غیر روایتی منڈیوں میں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کاروبار کے مواقع فراہم کرے گی اوربرآمدی پیکیج کے ان اجزا سے تخمینہ ہے کہ برآمدی شعبے کو سالانہ پینسٹھ ارب روپے کے فوائد حاصل ہوں گے۔ہمیں ان ہی نکات پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

عالمی بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں امیر اور غریب کے درمیان طبقاتی فرق بڑھنے لگا ہے۔ پاکستان میں پانی کی فراہمی، صحت و صفائی اور غربت کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ ملک کےدیہات میں اسی فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ رپورٹ کے مطابق شہری کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں اب تک صحت سمیت دیگر بنیادی سہولتیں ناپید ہیں۔دوسری جانب ہمارا تجارتی اورجاری کھاتوں کا خسارہ بڑھتا جارہا ہے۔ان حالات میں ہمیں اپنے لوگوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے معیشت کے غیر رسمی شعبوںپر بھی بھر پور توجہ دینا ہوگی تاکہ ہر طبقہ ترقی کرسکے۔اس کے ساتھ برآمدات بڑھانے کے لیے کاروبار کرنے کی لاگت کو مسابقت کے قابل بنانے سے لے کر غیر روایتی شعبوں کی حوصلہ افز ا ئی ، روایتی شعبوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے،نئی منڈیاں تلاش کرنے،انٹر پرینیور شپ کو فروغ دینے کا کام بھی کرنا ہوگا۔ہمیں علم پر مبنی معیشت اور تحقیق و ترقی کی ترویج کے لیے بھی کام کرنا ہوگا،جو بہت توجہ ،اخلاص اور وقت کا متقاضی ہے۔ان سب کے بغیر اٹھائے جانے والے اقدامات عارضی فوائد تو دے سکتے ہیں،لیکن چند برس بعد ہم پھر آج والی صورت حال کا شکار نظر آئیں گے۔لہذا ہمیں وقت کے تقاضے سمجھ کر بہت کچھ نیا کرنا ہوگا۔

تازہ ترین