• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیزکے معرضِ وجود میں آتے ہی یہ سرزمینِ پاک عجیب و غریب سیاسی، سماجی،معاشی اور معاشرتی صورتحال کی بھینٹ چڑھ گئی۔ غیر جمہوری مکتبہ ٴ فکر کی حامل غیرنمائندہ لیکن مقتدرقوتوں نے مفادات کی ایسی پنیری کاشت کرنے کی حکمت عملی اپنائی جس کے ثمرات تک صرف اسی طبقہ ٴ فکر کے لوگوں کی رسائی ممکن ہو۔ یہ تمام مہم جوئی بظاہر منفرد اور مثبت سوچ کی حامل بتائی جاتی تھی مگر اس کے نتائج سے ہمیشہ عوام اور ملک شدید متاثر ہوتے رہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ آمریت اور اس سے جڑی ہر قسم کی فصل کے بیجوں کو اس زمین اور زمین کے باسیوں نے کبھی دل سے قبول کیا اور نہ ہی انہیں پھلنے پھولنے کا موقع دیا بلکہ اُنھوں نے مسلسل جدوجہد اور قُربانیوں سے یہ پیغام تاریخ کے سینے پر رقم کیا کہ یہ فضا صرف اور صرف جمہوری رویوں کی پاسدار ہے اور جب بھی اسے موقع ملتا ہے یہ جمہوری قدروں کو پروان چڑھا کر ان کے ثمرات سے ملک و قوم کو نہ صرف فیض یاب کرتی ہے بلکہ دنیا میں پاکستان اور پاکستانی قوم کے وقار کی بحالی اور بقاء کے لئے قدرے خوش آئند مستقبل کی نوید بن جاتی ہے۔
جمہوریت اپنی اصل میں اخلاقی اور قانونی جواز کی حامل ہوتی ہے جبکہ آمریت کو ان دونوں اقدارکی حمایت حاصل نہیں ہوتی اس لئے وہ ایسے راستے تلاش کرتی ہے جو کسی طور اس کے ناجائزاقتدارکوقانونی یا اخلاقی جواز مہیا کر دے۔ اس مقصد کے لئے وہ مختلف نظام متعارف کراتی ہے اورجعلسازی پرمبنی حربے آزماتی ہے ۔کیوں کہ وہ سیاسی حمایت یافتہ نہیں ہوتی اس لئے سیاسی جماعتیں فطری طور پر اس کا پہلا ہدف ٹھہرتی ہیں اور وہ ان کے توڑ کے لئے ایسے ہتھکنڈے تلاش کرتی ہے جو لوگوں کو تقسیم در تقسیم کرتے ہوئے اس طورعدم تحفظ کا شکار کر دیں کہ وہ اس کی ہیبت اور خوف کے سائے تلے جمع ہونے میں ہی عافیت سمجھنے لگ جائیں مثلاً ماضی میں بی ڈی ممبری ،مجلس شوریٰ ، ریفرنڈ م ،غیرجماعتی انتخابات کا انعقاد اور ضلعی حکومتوں کے نظام کے نتیجے میں عوام کو لسانی، علاقائی اور گروہی حوالے سے تقسیم کر کے نہ صرف صحت مند سیاسی رویوں اور جمہوریت کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ مذہبی رواداری اور قومی ہم یکجہتی کی جگہ عدم برداشت اور لسانی و علاقائی تعصبات کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع دیا گیا۔ آمریت اپنی ساخت کے سبب ماحول اور ذہنوں پر بے یقینی کی ایسی فضا طاری کر دیتی ہے جو عوامی رحجانات اور اُمنگوں کوسکڑنے سمٹنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اپنی بقاء اور تحفظ کا احساس لوگوں کو قبیلوں، مسلکوں، علاقائی تنظیموں، لسانی گروہوں اور برادریوں کے دائروں میں محصور ہونے پر اکساتا ہے جس سے تقسیم کے سفر کا آغاز ہوتا ہے جبکہ جمہوریت میں نظریاتی اور سیاسی وابستگی تفریق کے ان تمام سلسلوں کو ختم کر کے باہمی قربت کا باعث بنتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن ملکوں نے جمہوریت کی طرز فکر کو اپنایا انہوں نے نہ صرف ترقی کی منازل تک رسائی حاصل کی بلکہ وہاں امن و امان اور قومی ہم آہنگی کے تصورات بھی خوب پنپے۔ دوسری طرف پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے جب بھی یہاں جمہوریت کو کام کرنے دیا گیا لوگ ذات برادری کے خانوں سے نکل کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے۔ 1970ء میں پاکستانی عوام نے ووٹ کے ذریعے ہر طرح کے تعصب اور تقسیم کی نفی کرتے ہوئے ایک نئے باب کا آغاز کیا تھااور پہلی مرتبہ تمام تقسیموں سے بالاتر ہو کردومقبولِ عام جماعتوں کو ووٹ دے کر کامیاب کیا تو ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ وہ عوام دُشمنی اور نفرت کی سیاست کے دلی مخالف ہیں
بہرحال ہمارا آج کا موضوع موجودہ جمہوری نظام کے ثمرات سے ہے۔ گزشتہ پانچ سالہ جمہوری دور کے اچھے برے پہلو اپنی جگہ موجود ہیں کیونکہ اس نظام کے استحکام کے لئے ابھی کچھ اور عرصہ اور تسلسل درکار ہے مگر خوش کن بات یہ ہے کہ حالیہ ضمنی انتخابات اپنے دامن میں تمام جمہوری اور اُمید پرست مزاج رکھنے والوں کے لئے ایک نئے دور کے آغاز کی خوشخبری کے ساتھ وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ یہاں مجھے اس بات سے بالکل کوئی سروکار نہیں کہ ان انتخابات میں کون سی جماعت نے جیت کو اپنے ماتھے کا تاج بنایا اور کون سی جماعت کو شکست ہوئی نہ ہی مجھے اس بات سے کوئی مطلب ہے کہ جیت اور ہار کے پس پشت کیا اسباب کار فرما تھے۔ میرے لئے صرف یہ بات اہم ہے کہ ان انتخابات سے پاکستانی عوام جنہیں مقتدرہ قوتوں کی جانب سے طنزاجاہل، کم علم اور گنوار کہا جاتا ہے نے اپنی شعوری پختگی اور سیاسی بلوغت کا بھرپور ثبوت دیا ہے کیوں کہ یہ انتخابات ذات، برادریوں، لسانی دائروں اور دیگر تعصبات سے ماورا تھے۔ میرے اپنے حلقے NA-107 میں جاٹ 67 فیصد، اعوان 16 فیصد، راجپوت 11 فیصد اور گجر 4 فیصد ہیں اور یہاں سے اعوان برادری کے امیدوار ملک حنیف اعوان کی جیت اور گجر برادری کے رنر اپ رحمن نصیر کے ووٹ یہی پیام دیتے ہیں کہ جمہوریت نے لوگوں کے ذہنوں، دلوں اور فکر پر اپنا اثر ثبت کرنا شروع کر دیا ہے۔ کیوں کہ اس دفعہ عوام نے صرف پارٹیوں کو ووٹ دیئے ہیں شخصیتوں یا برادریوں کو نہیں۔ جب کہ یہ بات بھی اپنی جگہ بے حد اہمیت کی حامل ہے کہ جیتنے والے امیدوار کے پارٹی سربراہ کا تعلق جس برادری سے ہے وہ یہاں ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس حوالے سے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جمہوری سوچ بھی خراجِ تحسین کی حامل ہے جنہوں نے امیدواروں کو ٹکٹ دیتے ہوئے ذات برادریوں کی اکثریت کو قطعاً مدنظر نہیں رکھا اور نہ ہی اس علاقے کے لوگوں نے اس بات کو اہمیت دی۔ سیاسی جماعتوں اور عوام کی سوچ کا اشتراک ایک خوش آئند مستقبل کی نوید کے ساتھ ساتھ عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد بھی ہے۔
موجودہ ضمنی انتخابات کے نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ ایک مثبت تبدیلی ہمارے صحن چمن میں اتر چکی ہے۔ مثبت تبدیلی خوشبو کی طرح ہوتی ہے جو غیر محسوس طریقے سے ماحول کو خوشگوار بنا دیتی ہے اور اس کے اثرات دھیرے دھیرے ظاہر ہوتے ہیں۔ شاید اب وہ وقت آ چکا ہے جب پاکستانی قوم کو ایک فیصلہ کر لینا چاہئے کہ اب اس ملک میں جمہوریت کے علاوہ کوئی اور نظام قابل قبول نہیں ہو گا کیوں کہ جمہوریت اداروں کے قیام، بقاء اور استحکام کی ضمانت ہوتی ہے اور اداروں کا استحکام عوامی اور قومی مفاد کا حامل ہوتا ہے جبکہ اداروں کے عدم استحکام کی صورت میں قومیں بکھر جاتی ہیں اور بسا اوقات بھٹک بھی جاتی ہیں۔
ان حالات میں تو بلدیاتی انتخابات بھی پارٹی سسٹم پر ہی ہونے چاہئیں تا کہ عوام کی سوچ کسی حوالے سے بھی محدود نہ ہو اور وہ ہمیشہ مرکز کے ساتھ جڑے رہیں۔ اگر یہ سلسلہ برقرار رہا تو ہر دو سطح پر مزید بہتری آئے گی اور تعصبات سے پاک ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے گا جس میں لوگ محبت، رواداری اور انسانیت کی اعلیٰ قدروں کے ترجمان بن کر ایک نئی دنیا کی تعمیر کریں گے۔
تازہ ترین