• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب‘ کرپشن کی روک تھام کیلئے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پر انحصار

اسلام آباد (انصار عباسی) وفاقی حکومت پنجاب میں کرپشن کی روک تھام کیلئے اچھی ساکھ کے ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) پنجاب حسین اصغر پر انحصار کر رہی ہے جبکہ کچھ حلقوں کو خدشہ ہے کہ اینٹی کرپشن محکمے کو شریف فیملی کیخلاف کارروائی کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے حسین اصغر پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے اور کچھ طاقتور لوگوں نے ان کے ساتھ کچھ ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ اصغر کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اے سی ای کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ پارٹی وابستگی سے بالاتر اور سیاسی اثرات سے پاک ہو کر کرپشن کیخلاف کارروائی کی جائے۔ حسین اصغر ایک ایماندار اور باصلاحیت پولیس افسر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ عہدہ اصغر کیلئے ایک امتحان ہوگا، جنہیں اپنی آزادی ثابت کرنا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ان کے محکمے کو سیاسی مخالفین کو ہدف بنانے کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ حکومت زبردست کوششیں کر رہی ہیں کہ سرکاری فائلوں سے نواز شریف اور شہباز شریف کیخلاف کچھ نہ کچھ حاصل کیا جا سکے۔ تاہم، ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ حسین اصغر کے تحت درج کی جانے والی زیادہ تر ایف آئی آرز اور شروع کی جانے والی انکوائریاں حکمران اتحاد میں شامل ارکان پارلیمنٹ بشمول پی ٹی آئی اور ق لیگ کے خلاف ہیں۔ ن لیگ کے ایک سینیٹر کیخلاف بھی اے سی ای پنجاب کا ادارہ تحقیقات کر رہا ہے۔ آج ایک باصلاحیت افسر اے ڈی خواجہ کو نظرانداز کرکے حسین اصغر کو گریڈ 22؍ کے عہدے پر ترقی دی گئی ہے۔ خیال ہے کہ حکومت کو حسین اصغر سے توقع ہے کہ وہ پنجاب میں کرپشن کیخلاف جہاد شروع کریں۔ تاہم، جب پی ٹی آئی کے سینئر عہدیداروں سے بات چیت کرکے ان کا موقف معلوم کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ حکومت کسی کو ہدف نہیں بنانا چاہتی، پنجاب اے سی ای کے اختیارات میں حکومت نہیں بلکہ سپریم کورٹ نے اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں کوئی بات راز نہیں رہتی اسلئے کسی کو بھی سیاسی طور پر نشانہ بنانے کی گنجائش نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر سیاسی مخالفین کو ٹھوس شواہد کے بغیر نشانہ بنایا گیا تو پنجاب حکومت بھرپور انداز میں اس کی مخالفت کرے گی کیونکہ متاثرین عدالتوں میں جائیں گے اور وہاں حکومت کو ہزیمت کا سامنا ہوگا۔ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ حسین اصغر آئندہ چند ماہ میں ر یٹائر ہونے والے ہیں اور حکومت چاہے گی کہ وہ کنٹریکٹ پر کام کرتے رہیں کیونکہ وہ ایک طاقتور شخصیت کی نظروں میں اچھے انسان ہیں۔ پنجاب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) کو اب کسی کو بھی بشمول وزیراعلیٰ، چیف سیکریٹری، آئی جی پولیس یا کسی بھی دوسرے شخص کو کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار کرنے کے اختیارات حاصل ہیں اور اس کیلئے ادارے کو کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ تاہم، دیگر تین صوبوں میں اینٹی کرپشن کا محکمہ گہری نیند سو رہا ہے اور صوبائی چیف ایگزیکٹو، چیف سیکریٹری اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری وغیرہ کی اجازت کے بغیر کسی کیخلاف کوئی انکوائری شروع یا ایف آئی آر درج کر سکتا ہے اور نہ ہی کرپشن کے کسی ملزم کو گرفتار کر سکتا ہے۔ پنجاب اے سی ای کا ادارہ اس وقت طاقتور بنا جب اس کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل حسین اصغر نے سپریم کورٹ سے رجوع کرکے اے سی ای رولز 2014ء کی کچھ شقیں معطل کرنے کی درخواست کی، ان شقوں کے تحت اے سی ای پنجاب کیلئے گریڈ 18 اور اس سے زیادہ کے کسی بھی بیوروکریٹ کیخلاف کارروائی کیلئے پہلے وزیراعلیٰ / چیف سیکریٹری / ایڈیشنل چیف سیکریٹری کی اجازت ضروری تھی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے گزشتہ جمعہ کو حسین اصغر کی درخواست کی سماعت کی۔ حسین اصغر نے وزیراعلیٰ اور سینئر سرکاری انتظامیہ کی جانب سے اپنی پیش کردہ سفارشات مسترد کیے جانے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ سفارشات میں تجویز دی گئی تھی کہ اے سی ای رولز کی کچھ شقوں کو معطل کیا جائے کیونکہ یہ نہ صرف امتیازی ہیں بلکہ کرپشن کی روک تھام کی راہ میں رکاوٹ بھی۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد، پنجاب اے سی ای حسین اصغر کی قیادت میں حقیقتاً طاقتور ادارہ بن گیا ہے۔ اے سی ای کے ڈائریکٹر جنرل نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھ کر بتایا تھا کہ انکوائری شروع کرنے، ایف آئی آر درج کرنے اور کسی بھی شخص کی گرفتاری کے اختیارات وزیر اعلیٰ، چیف سیکریٹری اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری کی بجائے ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کے پاس ہونا چاہئیں۔ حسین اصغر نے اپنے وکیل میاں ظفر اقبال کالانوری کے توسط سے بتایا کہ اے سی ای کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی سینئر بیوروکریٹ کیخلاف کارروائی شروع کرنے کیلئے پہلے وزیراعلیٰ کی منظوری حاصل کرے۔ حسین اصغر کی درخواست کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے اگرچہ وزیراعلیٰ، چیف سیکریٹری اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری کے یہ اختیارات معطل کر دیے تھے لیکن دیگر صوبوں میں اینٹی کرپشن محکمے سینئر بیوروکریٹس کیخلاف تحقیقات کیلئے صوبے کی سیاسی قیادت اور انتظامی سربراہان پر انحصار کرتے ہیں۔

تازہ ترین