• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خواتین پر ہونے والے بہیمانہ تشدد کی روک تھام کے لئے، پنجاب اسمبلی نے ایک انضباطی بِل کیا پاس کیا کہ قیامت ٹوٹ پڑی۔ بعض حلقوں کی طرف سے اس کی مخالفت میں جو نہ کہا اور جو کہا وہ شرفِ انسانی کی تضحیک کے سوا کچھ نہیں۔ اب عورتوں پر گھریلو تشدد کی روک تھام کے لئے تھوڑی بہت قانونی اشک شوئی کا جتن کیا گیا ہے تو بعض متعصب حضرات کو انسان دوست دینِ محمدی کا سہارا لینے کی ضرورت کیوں پیش آ گئی۔ کیا یہ حضرات یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عورتوں پر ہونے والا بہیمانہ گھریلو تشدد جائز ہے؟
کیا گھروں میں عورتوں سے مردوں کے مقابلے میں برتی جانے والی تفریق دورِ جاہلیہ کی یاد دلاتی ہے یا پھر رحمت للعالمین ؐکی حیاتِ طیبہ کی؟ یہ صبح شام غیرت کے نام پر عورتوں کا قتلِ عام اسلامی روایت ہے یا پھر جاہلانہ قبائلی وحشی رواج؟ عورتوں کا صبح شام جلنا اور اُن پر تیزاب پھینکنا، اُن کا نان و نفقہ بند کرنا، اُنھیں تعلیم و تربیت سے محروم رکھنا، پائوں کی جوتی بنائے رکھنا اور اُنھیں اپنی زرخرید لونڈی یا گائے بکری سمجھنا کون سے اسلام کی پاسداری ہے؟ ایک صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ مرد کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر کی عورتوں کو ’’بُرے کاموں‘‘ سے روکنے کے لئےتشدد کرے۔ اگر مرد بے راہ روی کا شکار ہو تو کیا یہ صاحب وہی حق خواتین کو بھی دینا پسند فرمائیں گے؟
ہمارے عزیز دوست مولانا فضل الرحمان بذلہ سنجی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ انھیں پنجاب کے مردوں کے مخدوش مستقبل پر رونا آ رہا ہے کہ عورتوں کی تذلیل میں کمی اُن کے تئیں مردوں کی شان میں کمی ہے۔ انجمن تحفظِ شوہراں کی تشکیل کر کے مولانا مردوں کے کونسے حقوق کی حفاظت کرنے چلے ہیں: عورت کو پیٹنے کا حق، غیرت کے نام پر قتل کا حق، نان و نفقہ سے انکار کا حق،دوسری بیویاں لانے کا حق وغیرہ۔ اُن کا ایک فقرہ البتہ نہایت فکر انگیز ہے کہ پنجاب اسمبلی کے بل کا مقصد عورتوں کو مرد اور مردوں کو عورت بنانا ہے۔ اُن کا خدشہ کافی انقلابی ہے۔ اگر مرد حضرات عورت کی پوزیشن (ماں، بہن اور بیٹی، بیوی ) پر آ کر سوچنا شروع کر دیں اور عورتیں خود کو کمزور سمجھنے کی بجائے مرد کے ہم پلہ سمجھنے لگیں تو یقین مانیے دونوں انسان بن جائیں۔ عورت مرد کے مابین تاریخی نابرابری قصۂ پارینہ ہو جائے اور معاشرہ پدر شاہی نظام کے جبر سے آزاد ہو جائے۔
آخر پنجاب اسمبلی کے تشدد سے خواتین کے تحفظ کے بل (Protection of Women Against Violence Bill) میں ایسا کیا ہے جو ہمارے بعض علما کو سیخ پا کئے جا رہا ہے؟ باوجود یہ کہ پنجاب کے قانون نے عورتوں پر خانگی تشدد کو فوجداری نہیں بنایا، اس کے تحت اب عورتوں کے بچائو کے لئے ٹھوس اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ تشدد اور دبائو کا شکار عورتیں ہیلپ لائن پر شکایت کر سکیں گی۔ متشدد مرد کو گھر سے بیدخل اور عورت کو گھر کی چھت میسر رہے گی۔ عورتوں کی داد رسی کے لئے ایک ضلعی افسر ہوگی اور ضلعی سطح پر تشدد کے سدِباب کے لئے کمیٹی۔
نان و نفقہ کا انتظام اور مرد کی ذمہ داری جیسے معاملات اس میں شامل ہیں۔ اور اگر مرد روکنے کے باوجود مشتعل رہے تو پھر اُس کے لئے ایک ایسا کڑا ہوگا جو اُس کی آمد و رفت کی خبر دے گا اور اُس کا اسلحہ ضبط کیا جا سکے گا۔ یہ سارے اقدامات تو مردوں کی متشددانہ بے راہ روی کو روکنے کے لئےہیں، ان سے معاشرے کی اخلاقی بربادی کے سامان کہاں سے پیدا ہو گئے۔ قبل ازیں خواتین پر ہونے والے تشدد، امتیازی سلوک اور غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں قانون سازی کر چکی ہیں۔ لیکن قوانین پر عملدرآمد کہاں اور کتنا ہو رہا ہے۔ اصل سوال مردوں کی متعصبانہ سوچ اور پدر شاہی نظام اور اس سے متعلق رسم و رواج کا خاتمہ ہے جو خواتین و حضرات کو شرفِ انسانی سے بہرہ ور ہونے نہیں دیتیں۔
اس سے بڑا انسانی المیہ کیا ہوگا کہ آدھی انسانیت کو شرفِ انسانیت سے محروم رکھا جائے، اور خواتین کو ہر طرح کے امتیازی برتائو اور استحصال کے شکنجے میں جکڑے رکھا جائے۔ اِس ظلم و استبداد کی ہزار صورتیں ہیں جو صبح و شام روزمرہ کی زندگی میں روا رکھی جاتی ہیں اور ہم انہیں اخلاقیات، معاشرتی روایات، خاندانی عزت و وقار اور مذہب کے نام پر برقرار رکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔
کونسا مذہب ہے جو انسانی تذلیل اور عورتوں کو عزت و غیرت کے نام پر جبر و استبداد کی اجازت دیتا ہے۔ دورِ جاہلیہ کے عرب میں کیسی کیسی بربریت پسند روایات تھیں جسے اسلام نے ختم کیا اور ظاہر ہے کہ حضور کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُس زمانے کے وحشی قبائل کو سدھارا۔ حضور کی زندگی سے کوئی مثال تو پیش کی جائے جس میں اُنھوں نے خود کوئی ایسی روایت روا رکھی۔ آپ ؐ نے تومردوں کو عورتوں کے حقوق، اُن کا عزت و احترام کرنے کی تائید کی۔
اب اگر فی زمانہ عورتوں کے ساتھ سلوک کو بہتر بنانے کی بات کی جاتی ہے تو اِس میں بُرائی ڈھونڈنا بیمار اور بوسیدہ ذہنوں کی غماز ہے۔ جونہی کوئی مہذہب شخص عورتوں کے مساوی حقوق، مساوی معاوضے، مساوی شرکت کی بات کرتا ہے یا کرتی ہے تو بہت سے نابلد مردانہ متعصب لکھاری مادر پدر آزادی کی مخالفت کے نام پر جھنڈے ڈنڈے لے کر میدان میں نکل پڑتے ہیں۔
کون ہے جو اس ملک میں مادر پدر آزادی کی تبلیغ کر رہا ہے؟ البتہ اُن لوگوں کی کمی نہیں جو حقوق و آزادیوں کو پامال کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔
حقوقِ نسواں کے حوالے سے زیادہ شور خاندان کے ادارے کی ممکنہ تباہی اور مقدس رشتوں کی پامالی پہ دیا جا رہا ہے۔ ان حضرات کو نہ تو خاندان اور نہ انسانی رشتوں کی تاریخی طور پر بدلتی صورتوں سے آگاہی ہے۔ تاریخ میں کبھی مادر سری نظام بھی تھا اور اماں حضور کنبے یا گروہ کی سربراہ تھیں۔ خاندان کا آغاز نجی ملکیت کے ظہور میں آنے کے بعد ہوا اور اس کے ساتھ ہی پدر شاہی خاندان اور بادشاہتیں وجود میں آئیں۔کثیر زوجگی کا رواج جو بہت پرانا ہے رفتہ رفتہ یک زوجگی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ زمانۂ جاہلیہ میں عورتوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، اُن کا کوئی مقام تھا نہ حیثیت۔ کالی کملیؐ والے کے انقلاب نے وحشی قبائل کو بتدریج عورتوں کے حقوق دینے پر راغب کیا۔ اور یہ تبدیلی آج بھی جاری ہے اور وہیں نہیں رُکے گی جہاں قرونِ اولیٰ میں تھی۔
ایک عرصہ ہوا دُنیا بھر کی اقوام نے بیجنگ میں ہونے والی کانفرنس میں ایک اعلان نامہ جاری کیا تھا جس کا مقصد خواتین کے خلاف ہر نوع کے امتیازی سلوک کا خاتمہ تھا۔ (Convention on Elimination of All Forms of Discrimination Against Women (CEDAW) دُنیا بھر کی اقوام کی طرح پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت نے اس اعلان نامے کی توثیق کر دی تھی اور پاکستان کی حکومت کو اس پر عملدرآمد کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کو باقاعدگی سے رپورٹ کرنا پڑتی ہے کہ اس پر کہاں تک عمل کیا۔ اس اعلان نامے پر عمل تو کم ہی ہوا، لیکن بہت سے، اچھے اقدامات ضرور ہوئے جس سے عورتوں کی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں شرکت بڑھی اور اُن پر ہونے والے مظالم کا نوٹس لیا جانے لگا۔ کوئی معاشرہ، کوئی تہذیب، کوئی جمہوریت، کوئی معیشت اور انسانی زندگی بہتری کی جانب نہیں بڑھ سکتی جہاں عورت کو شرفِ انسانیت سے محروم رکھا جائے۔ اور عورت ہی شرفِ انسانیت سے محروم کر دی جائے تو مرد بھی شرفِ انسانیت سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا۔ ابھی ٹیلی وژن پہ دیکھا کہ شرمین عبید چنائے کی عزت کے نام پر ستائی گئی عورت پر ایک ڈاکومنٹری کو آسکر ایوارڈ دیا گیا ہے۔ ہماری عزت بڑھی یا گھٹی؟ سوال فقط عورت کے شرفِ انسانی کا ہے، مادر پدر آزادی کا نہیں۔
تازہ ترین