• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ اس دور کی بات ہے جب یوسف رضا گیلانی جیل میں ہوا کرتے تھے۔انہی دنوں میری شاعری کا مجموعہ ”نیند کی نوٹ بک“ شائع ہوا تھا میں اس کی تقریب ِ رونمائی میں شرکت کیلئے برطانیہ سے لاہورآیا تھا۔ تقریب کا اہتمام عطاء الحق قاسمی نے کیا تھا۔ احمد ندیم قاسمی نے صدارت فرمائی تھی اور احمد فراز اور ڈاکٹر سلیم اختر جیسے لوگوں نے کتاب کے حوالے سے مضامین پڑھے تھے وہ لمحے میری زندگی میں ایک یادگار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تقریب کے بعد احمد فراز نے مجھے اسلام آباد آنے کو کہا تو میں نے اس شرط پر ان کی دعوت قبول کرلی ہے کہ میں رہوں گا اپنے دوست مظہر برلاس کے گھر ۔احمد فراز سے میرے خاصے مراسم تھے وہ جب برطانیہ آتے تھے تو اکثر میرے گھر قیام کیا کرتے تھے ۔خیرمیں اسلام آباد پہنچ گیا اور تقریباً ایک ہفتہ مظہر برلاس کے ہاں قیام کیا مگر بڑی بوریت ہوئی ۔روزانہ دوچار گھنٹے تو فراز صاحب کے ساتھ گزر جاتے تھے مگراس کے بعداسلام آباد مجھے اجنبی لگنے لگتا تھا۔ مظہر برلاس کی اپنی مصروفیات تھیں وہ صبح اٹھ کر اپنے دفترچلا جایاکرتا تھاشاید ان دنوں اسلام آبادمیں ایک نجی ٹی وی کا بیور وچیف تھا پھر کسی اخبار میں کالم بھی لکھا کرتا تھا ۔رات نو دس بجے سے پہلے گھر واپس نہیں آتا تھا اور جیسے گھر آتا تھا کاغذوں کا ایک پلندہ کھول کر بیٹھ جاتا تھااور پھرکئی گھنٹے کسی کی لکھے ہوئے ٹوٹے پھوٹے جملوں کو ایک تحریر کی صورت میں لکھتا رہتا تھا ۔ میں نے جب اس سے پوچھا کہ یہ کیا کام شروع کر رکھا ہے تو کہنے لگا ”یار ایک دوست کی کتاب ٹھیک کر رہا ہوں ۔ تم اسے رہنے دو۔ حتی کہ اس نے یہ کوشش بھی کی تھی کہ وہ اوراق میں نہ پڑھ سکوں اس کے چھپانے کی وجہ سے میرا تجسس جاگ پڑا اور دوسرے ہی دن میں اس کی غیر موجودگی میں وہ کاغذ پڑھنے میں کامیاب ہوگیا۔ مجھے پتہ چل گیاکہ یہ یوسف رضا گیلانی کی آپ بیتی ہے۔ میں نے یوسف رضا گیلانی کے لکھے ہوئے کچھ صفحات پڑھے پھر مظہرکے لکھے ہوئے صفحات دیکھے تو مجھے معلوم ہوا کہ مظہر برلاس کتاب درست نہیں کر رہا بلکہ خود لکھ رہا ہے ۔ رات کو مظہر کی یہ مصروفیت مجھے بہت کھلنے لگی میں روز سونے سے پہلے مظہر برلاس کو صلواتیں سناتا تھا اور یوسف رضا گیلانی کو بھی ۔ ایک دن میں نے مظہر برلاس سے کہا ”لعنت بھیج اس کتاب پر جتنے پیسے اس خانقاہ نشین نے تجھے اس کتاب کے لکھنے کے دینے ہیں اتنے میں تجھے ویسے ہی دے دیتا ہوں تو مظہر نے تیز نظروں سے مجھے گھورتے ہوئے کہا ”یوسف رضا نے بھی کسی کو بھیجا تھا میرے پاس کہ اس کام کا کتنا معاوضہ لو گے تو میں نے اس کوجواب بھیجا تھا کہ میں تیموری نسل ہوں ہم ایسی چیزیں بیچا نہیں کرتے مفت دے دیا کرتے ہیں ۔میں اس کام کے کوئی پیسے ویسے نہیں لے رہا۔میں نے پوچھا ”تمہاری اس سے دوستی کیسی بنی ہے جن دنوں یہ اسپیکر ہوا کرتا تھا ان دنوں تو تمہارا اس سے کوئی واسطہ نہیں تھا ۔مظہر بولا ”وہ یار میری دوست ہے نا فرزانہ راجہ ۔وہ مجھے اس کے پاس لے گئی تھی، میں جب اس کے پاس گیا تو یہ رونے لگا کہ میں اپنی آپ بیتی لکھنا چاہتا ہوں میں نے کئی اہم صحافی دوستوں سے بات کی ہے مگر برے وقت کا کوئی ساتھی نہیں ہوتااس کی درد بھری داستان سن کر میں اس کے ساتھ وعدہ کر بیٹھا تھا کہ میں یہ کتاب لکھ دوں گا سو وعدہ نبھا رہا ہوں ۔خیر ایک ہفتہ مظہر کے پاس رہ کر میں واپس برطانیہ چلا آیا ۔ کچھ عرصہ کے بعد وہی کتاب میری نظر سے گزری میں نے بڑے اشتیاق سے اسے دیکھا سب سے پہلے یوسف رضا گیلانی کا لکھا ہوا اظہار ِ تشکر پڑھا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ مظہر برلاس نے اس کتاب کی نوک پلک درست کی ہے۔ یہ جملہ پڑھ میں طنزیہ سا مسکرا دیا تھا۔ کچھ گاڑیاں اورشاہراہِ جمہوریت سے گزر گئیں اور ایک دن میں نے ٹیلی ویژن پر یہ خبر سنی کہ یوسف رضا گیلانی پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے ہیں ۔ میں خوش ہوا کہ چلو مظہر برلاس کی محنت رنگ لے آئی ہے میں نے مظہر کو فون کر کے یوسف رضا گیلانی کے وزیر اعظم بننے کی مبارک باد دی۔ جسے اس نے بڑی خوشی کے ساتھ قبول کیا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اسی گفتگو میں مظہر سے کہا تھا کہ مظہر کوئی اچھاسا عہدہ لینا پیپلز پارٹی والے اس حوالے سے اچھے لوگ ہیں اپنے رائٹرز کی بڑی قدر کرتے ہیں بڑاخیال رکھتے ہیں ۔ذوالفقار علی بھٹو نے کوثر نیازی ، حنیف رامے ، افضل احسن رندھاوا کو بہت اہمیت دی تھی بے نظیر بھٹو نے بھی فخر زماں ، واجد شمس الحسن، اسلم گورداسپوری اور اظہر سہیل کو بڑے بڑے عہدے دئیے تھے ۔بس اب تم بھی کسی بڑے عہدے کیلئے تیار ہوجاؤ۔۔
تقریباً تین ماہ کے بعد یوسف رضا گیلانی نے پہلا امریکہ کا دورہ کیا تو وفد میں مظہر برلاس بھی شامل تھا جاتے ہوئے ایک دن لندن میں گیلانی صاحب نے قیام کیا اورمیں خصوصی طور پر برمنگھم سے مظہر کو ملنے لندن گیا اس کے ساتھ کئی گھنٹے گزارے اور اسے کہا کہ تم گیلانی صاحب سے کہو کہ تمہیں فلاں جگہ لگا دیں مظہر نے جواب میں مجھے ایک عجیب و غریب واقعہ سنایا کہنے لگا ”یار میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا قصہ یہ ہوا ہے کہ جب اس وفد میں جانے والوں کی فہرست یوسف رضا کے پاس گئی تو اس نے میرا نام کاٹ دیا جس پر شیری رحمان نے یوسف رضا گیلانی سے کہا کہ میں اس سے وعدہ کرچکی ہے اب اگر آپ اسے اپنے ساتھ حکومتی خرچے پر نہیں لے جا سکتے ہیں تو اس کا خرچہ میں خود برداشت کرلوں گی ۔ جس پر میرا نام دوبارہ لسٹ میں شامل کیاگیا‘ میں نے مظہر سے کہا ”ممکن ہے گیلانی صاحب تمہیں کوئی بڑا عہدہ دینا چاہتے ہوں اس لئے انہوں نے ابھی مناسب نہ سمجھا ہو کہ تمہیں ساتھ لے جایا جائے“ مظہر نے کہا” ممکن ہے ایسا ہی ہو“پھردو تین مہینے اور گزر گئے میری مظہر سے بات ہوئی تو میں نے پوچھا” کچھ ہوا ہے “تو کہنے لگا ”پچھلے تین ماہ سے بے روزگار پھررہاہوں بس یہی کچھ ہواہے “۔ میں نے اسے مجبور کیا کہ وہ جا کر یوسف رضا سے ملے اور اسے کہے کہ وہ اس کے لئے کچھ کرے ۔ میرے کہنے پر مظہر یوسف رضا سے ملا تو اس نے کہا کہ چار پانچ اداروں کے نام دے دو جن کا تمہیں سربراہ لگا یا جا سکے ۔ ہم نے کافی سوچ سمجھ کرچار پانچ ایسے اداروں کے نام لکھے جن کاسربراہ بننے کا مظہر برلاس اہلیت رکھتا تھا وہ لسٹ مظہر نے یوسف رضا کو فراہم کردی ۔ پورامہینہ گزر گیا مگر کچھ نہ ہوا۔ایک دن مظہر کا فون آیا کہ آج ایک تقریب میں شیری رحمان سے ملاقات ہوئی اس نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو تو میں نے کہا کہ بے روزگار پھرتا ہوں اس پر اس نے پی ٹی وی کے ایم ڈی کو بلا کر وہیں میرے آرڈر کرادئیے ۔چند ماہ کے بعد مظہرسے پھربات ہوئی تو اس نے بتایا آج ایک جگہ یوسف رضا سے ملاقات ہوئی ہے اس نے مجھے کہا ہے ”یار وہ لسٹ جو تمہیں پہلے دی تھی وہ کہیں گم ہوگئی ہے ۔ وہی لسٹ لکھ کر مجھے دے دو۔ میں نے لسٹ دوبارہ دے دی ہے ۔پھر دن ہفتوں میں ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے مگریوسف رضا گیلانی کی جیب سے وہ لسٹ باہر نہیں آسکی ۔جس دن یوسف رضا گیلانی کی حکومت ختم ہوئی تومیں نے پھر مظہر کو فون کیا اور کہا ” کہ بیچارہ یوسف رضا گیلانی کتنا بدقسمت وزیر اعظم تھا ۔ جس شخص کے وزیر اعظم بننے پر میں نے تمہیں مبارک باد دی تھی آج اسی شخص کی حکومت ختم ہونے پر بھی میں تمہیں مبارک باد دے رہا ہوں۔
تازہ ترین