• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انداز بیاں … سرداراحمد قادری
31اکتوبر سے گیارہ نومبر 2018کا سفر پاکستان اگرچہ میرے جدامجد حضرت حافظ فتح محمد قادری رحمۃ اللہ علیہ کے 104ویں سالانہ عرس مبارک کی تقریب میں شرکت کی غرض سے تھا لیکن اس سفر میں مسلسل روحانی تجربے ہوئے اس لئے میں اس پورے سفر کو ’’روحانی سفر‘‘ کا عنوان دیتا ہوں۔ ملتان جو ’’مدینۃ الاولیاء‘‘ کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے، کبھی ’’گرم و گردا گدا اور گورستان‘‘ یعنی گرمی گردوغبار، گداگروں اورقبرستانوں کے حوالے سے فارسی شاعر کی شاعری ۔ میں ایک شعر کی صورت میں مشہور ہو گیا تھا اب ایک جدید اورخوبصورت ائرپورٹ والا اکیسویں صدی کا شہر ہے جس میں زندگی کی وہ تمام رعنائیاں اور سہولیات موجود ہیں جو دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود ہو سکتی ہیں۔ پہلے جب انگلستان سے پاکستان جانا ہوتا تو کراچی یا اسلام آباد ائرپورٹ اترنا پڑتا۔ وہاں ایک رات ہوٹل میں قیام ہوتا اورپھراگلے دن ملتان کی فلائٹ دستیاب ہوتی تھی۔ اور وہ بھی کبھی کبھی ’’چانس‘‘ پر ، ورنہ سارا دن ائرپورٹ پر انتظار کرنا پڑتا لیکن اب مانچسٹر سے ملتان کے لئے سامان ہوائی جہاز میں لوڈ ہو جاتا ہے۔ گزشتہ مرتبہ جہاز دوبئی رکا تھا اور اب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں رکا، وہاں سے ڈھائی گھنٹے کے قیام کے بعد جہاز ملتان کے لئے روانہ ہوجاتا ہے۔ مانچسٹر کی سواریاں گرم کپڑے پہنے، مہنگی خوشبوئیں لگائے، دیدہ ذیب جوتے پہنے، مہنگی گھڑیاں سجائے روانہ ہوتی ہیں جبکہ دوبئی اور دوحہ سے سوار ہونے والے پاکستانی محنت کشوں کے گرمی سے جھلسائے ہوئے چہرے ان کے سادہ لباس اور ان کے ہاتھوں میں تھامے ہوئے بیگ ان کی جدوجہد اور محنت کشی کی داستان سناتے ہیں۔ملتان ائرپورٹ پر عزیزم صاحبزادہ شعیب حسن قادری اپنے صاحبزادوں سمیت موجو تھا۔ شعیب حسن نے جس احسن طریقے سے ڈیڑھ سو سال سے قائم مدرسہ قادریہ فتیحہ کے انتظام کو سنبھالا ہے اور خود تدریس کے شعبے کا سربراہ بن کر اسے ایک روحانی مثالی ادارہ بنایا ہے اس پر ہم سب کو فخر بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر بھی بجا لاتے ہیں۔ ملتان میں ایک سرکاری دفترمیں ضروری کام تھا جسے میں نے آمد کے پہلے ہی دن نمٹانا چاہا۔ یہ کام تو شاید دو تین گھنٹے میں ہو جاتا لیکن نئی حکومت کے چند نئے احکامات کی وجہ سے پانچ چھ گھنٹے لگ گئے لیکن یہ وقت ضائع نہیں گیا بلکہ روحانی ملاقات اور گفتگو کا ذریعہ بن گیا۔ دفتر کے سربراہ کے کمرے میں مجھے بٹھایا گیا تھا۔ گفتگو شروع ہوئی تو اس نے ایک ایک کرکے اپنے دفتر کے دیگر شریک کار لوگوں کو بھی اپنے کمرے میں بلا لیا اور روحانی موضوع پر گفتگو سوال و جواب کے سیشن میں تبدیل ہوگئی۔ پاکستان کے پڑھے لکھے افراد میں روحانی جستجو دن بدن بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ مادی زندگی کی آسائشوں کو حاصل کرنے کیلئے دن رات دولت حاصل کرنے کی لامحدود خواہشات نے ان لوگوں کو اندر سے توڑ پھوڑ کررکھ دیا ہے ان کی روحیں بے چین ہیں اور وہ اپنی اداسیوں کا مداوا مزید تفریح، ہوٹلوں میں کھانا کھانے، شاپنگ کرنے اور تفریحی ٹورز پر جانے میں تلاش کرتے ہیں لیکن اس سے اخراجات اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔ یوں وہ اور بھی اداس ہوجاتے ہیں اور جب وہ روحانیت میں پناہ لیتے ہیں اور مرشد کامل کی تلاش میں کسی مردحق کو پا لیتے ہیں اور اس کی محفلوں میں بیٹھتے ہیں تو قلبی سکون اور راحت حاصل کرتے ہیں۔ مجھے ان مصروف لوگوں کے قیمتی وقت کا احساس تھا اس لئے میں انہیں عوام کو ان کے کاموں میں سہولت دینے کی ترغیب دیتا رہا۔ وہ لوگوں کے ضروری کام بھی کرتے رہے اور پھر اس کمرے میں جہاں میں بیٹھا تھا وہاں اگرچہ میری گفتگو میں شریک ہوتے رہے یوں تقریباً سارا دن وہاں پر گزر گیا، وقت ایک روحانی لیکچر کی صورت اختیار کرگیا۔ دفتر کے سربراہ نے ملتان کا روایتی کھانا تندوری روٹی اور نہاری مغز بھی کھلایا۔ جلال پور پیروالا میں 24،25صفر المظفر کو میرے جد امجد کا سالانہ عرس ہوتا ہے اس دفعہ یہ عرس 3اور 4نومبر کو تھا اور مجھے دونوں دن خطاب کرنا تھا۔ سجادہ نشین صاحبزدہ حسین احمد قادری نے محبت سے مجھے دونوں دن خطاب کے لئے کہہ رکھا تھا۔ جلال پور پیروالا میں جمعہ کا خطبہ بھی تاریخی جامع مسجد حافظ فتح محمدقادری میں دینےکی سعادت نصیب ہوئی۔ اس دن پاکستان میں احتجاج کا ماحول تھا، سپریم کورٹ کے فیصلے کے ردعمل میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے اور وہ اس خاتون کی سزائے موت منسوخ ہونے کے خلاف سراپا احتجاج تھے جس نے مبینہ طور پر گستاخی رسالت مآب ﷺ کا ارتکاب کیا تھا۔ جلال پور پیر والا کے مقامی احباب اور میرے خاندان کے افراد نے میری آمد سے پہلے نماز جمعہ کےبعد جلال پور کے مرکزی چوک میں میرے خطاب کا اعلان کر رکھا تھا۔ ایک بڑا اجتماع تھا، میں نے آدھا گھنٹہ تک حضور سرور کائنات، نبی کریم رؤف الرحیم سیدنا محمد الرسول اللہ ﷺ کی شان مقدسہ اور مقام و عظمت کا تذکرہ کیا اورشرکاء جلوس کو بتایا کہ مسلمانوں کے دل میں اپنے آقا و مولا کی عزت و تکریم کی کیا حیثیت اور کیا مقام ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی شان جس نے بھی شاعری میں نثر اور تقریر میں بیان کی ہے اللہ تعالیٰ نے بیان کرنے والے کو بھی عزت اورناموری سے سرفراز فرما دیا۔ اور جس کسی نے گستاخی کا ارتکاب کیا وہ قابل نفرت بن گیا۔ خطاب کے بعد میں نے شرکاء سے پرامن طریقے سے اپنے اپنے گھروں کو جانے کی درخواست کی اور یوں یہ جلوس پرامن طریقے سے منتشر ہوگیا۔ عرس مبارک کے حوالے سے یہ بات بہت اہم لگی کہ ہر سال پچھلے سال سے لوگوں کی تعداد اور جذبہ زیادہ نظر آتا ہے جن لوگوں نے ہمارے خاندان سے روحانی تعلق اور وابستگی کی بنیاد پر روحانی سفر شروع کیا تھا اب ان کی تیسری اور چوتھی نسل نے یہ تعلق قائم رکھا ہوا ہے۔ میں تو عرصہ ہوا پاکستان سے ہجرت کرکے انگلستان آگیا ہوں اور دو تین سالوں کے بعد جانا ہوتا ہے اس لئے نوجوانوں کو بالخصوص اپنا تعارف کراتے ہوئے مجھے بتانا پڑتا ہے کہ ان کا والد اور دادا بھی روحانی طور پر ہمارے خاندان سے وابستہ تھے۔ عرس مبارک کی تقاریب میں میرا خطاب سرائیکی زبان میں ہوتا ہے، سامعین حیران ہوتے ہیں کہ زندگی کا زیادہ تر حصہ انگلستان میں گزارنے کے باوجود میں سرائیکی زبان میں اس روانی سے اور عمدگی سے کیسے اپنا مافی الضمیر بیان کرلیتا ہوں اور کس طرح خواجہ غلام فرید اورخواجہ فتح محمد قادری کے سرائیکی اشعار اب تک یاد کئے ہوئے ہیں تومیں انہیں بتاتا ہوں کہ سرائیکی میری ’’ماں بولی‘‘زبان ہے اور ماں بولی کو کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا۔عرس مبارک کی ختم شریف کی محفل اولیاء اللہ کے مزارات کے قریب واقع وسیع و عریض ’’جنازہ گاہ‘‘ میں ہوتی ہے اورعجیب روحانی سکون کا منظر ہوتا ہے۔روحانی محفلوں کے اختتام پر کھانا کھلانا اولیائے کرام کا معمول رہا ہے اور اس میں بڑی برکتیں اورحکمتیں ہیں اسے لنگر شریف کہا جاتا ہے۔ لنگر شریف کی تقسیم سے عرس مبارک کی تقریب کا اختتام ہوا تو شام تک دوست احباب سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ دوسرے دن میں نے اسلام آباد راولپنڈی، کھاریاں اور لاہورکے سفر کا پروگرام بنایاہوا تھا۔ عزیزم صاحبزادہ شعیب حسن قادری اور عزیزم نوید احمد میرے ہم سفر تھے۔ الحمدللہ اب جلال پور پیروالا سے اسلام آباد کا سفر بڑا آرام دہ یوں بھی بن گیا ہے کہ جلال پور سے آرام دہ کوچز براہ راست اسلام آباد کے لئے چلتی ہیں جوراستے میں تھوڑے سے قیام کے بعد اسلام آباد پہنچتی ہیں۔ ہم نے نماز عشاء کے بعد جلال پور سے سفر شروع کیا اور فجر کی نماز راولپنڈی میں ادا کی اور وہاں پہنچ کر پرسکون طریقے سے ناشتہ کیا۔ اسلام آباد انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے شعبہ تقابل ادیان کے پروفیسر خورشید احمد سعیدی سے ملاقات طے تھی انہوں نے ہمیں اپنا شعبہ دکھایا اور ان سے بڑی سیرحاصل گفتگو ہوئی۔ وہ ایک علمی اورتحقیقی نوعیت کی ایسی شخصیت ہیں جنہیں اپنے مضمون پر مکمل عبور حاصل ہے۔ یونیورسٹی میں پچیس ہزار طلباء و طالبات زیرتعلیم ہیں اور اس کی جدید اور خوبصورت و کشادہ عمارتیں دعوت نظارہ دیتی ہیں، ہمارا قیام میرے محترم دوست حضرت صاحبزادہ ساجد الرحمٰن سجادہ نشین دربار نقشبندیہ مجددیہ بگھار شریف کی رہائش گاہ پر تھا۔ صاحبزادہ صاحب نے حسب معمول کرم نوازی فرماتے ہوئے اپنی رہائش گاہ پر ہمارےقیام کا پرتکلف اہتمام کیا ہوا تھا جس میں محبت اورخلوص کی چاشنی ہر لمحہ محسوس ہوتی تھی۔ انہوں نے اپنی گاڑی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی بھیجی تھی۔ صاحبزادہ صاحب ایک حادثہ کے نتیجے میں آج کل آرام فرما رہے ہیں لیکن تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں مکمل طور پر شفائے کاملہ عطا فرمائے اور ان کے روحانی وجدانی اور عرفانی علوم سے امت مسلمہ کو فیض یاب ہونےکاطویل موقع عطا فرمائے۔ رات گئے ان کی آرام گاہ میں ان سے ان کے دور طالب علمی کے ایسے ایمان افروز واقعات سنے جس سے روح کو تازگی عطا ہوگئی وہ حضرت سعید احمد سعیدکاظمی رحمۃ اللہ علیہ کے قابل فخر تلامذہ میں سے ہیں۔ ایسے استاد گرامی کے ایسے باکمال شاگرد اب بہت کم ہی رہ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ راولپنڈی سے سفر کا اگلا مرحلہ کھاریاں اور لاہور تھا جس کا تذکرہ آئندہ ہوگا۔ انشاء اللہ
تازہ ترین