• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ساہیوال شہر سے تقریباً اٹھائیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہڑپہ واقع ہے۔ اس کے بارے میں پہلے پہل مشہور تھا کہ یہ اڑھائی سے تین ہزار سال پرانا شہر ہے مگر جدید تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ شہر نہ صرف پانچ ہزار سال قدیم ہے بلکہ ضلع بولان# سے دریافت ہونے والے دنیا کے قدیم ترین آثار مہرگڑھ کے بعد برصغیر کی سب سے قدیم ہڑپہ# تہذیب کا امین بھی ہے۔ یاد رہے کہ موہنجوداڑو اور برھمن# آباد وغیرہ کو ماہرین آثار قدیمہ ہڑپہ تہذیب ہی کی شاخیں شمار کرتے ہیں۔
ساہیوال میں رات بون فائر بھڑکاتے اور پرانے دوستوں کے ساتھ گپیں لگاتے گزری۔ شہر میں اِدھر اُدھر پھرنے کے بعد چونکہ ہڑپہ بھی جانا تھا اس لئے اپنی نیند قربان کر کے صبح کافی جلدی اٹھنا پڑا۔ ہمارے نزدیک دنیا کی عظیم ترین قربانیوں میں سے ایک نیند کی قربانی بھی ہے جو ہم نے کبھی کسی حکمران اور شہنشاہ کی خاطر بھی نہیں دی مگر ہڑپہ کی بات اور تھی۔ روانہ ہوتے ہی اپنے آپ کو جناب انور مسعود کے اس فکر انگیز قطعے کا ورد کرتے پایا #
اجڑا سا اک نگر کہ ہڑپہ ہے جس کا نام
اس قریہٴ شکستہ و شہر خراب سے
عبرت کی اک چھٹانک میسر نہ ہو سکی
کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے!
یہاں پہنچ کر دنیا کے ان حسین اور گھمبیر آثار قدیمہ کی جو بے حرمتی دیکھی تو محسوس ہوا کہ ہمیں اس قریہٴ شکستہ و شہر خراب سے واقعی عبرت کی ایک چھٹانک بھی میسر نہیں ہو سکی ورنہ ماضی کے اس دلکش مزار کی مٹی ہم یوں پلید نہ کرتے۔ قانونی طور پر دیکھا جائے تو آثار قدیمہ کے آس پاس بائیسکل تک چلانے کی ممانعت ہے مگر ہم نے وہاں موٹر سائیکل، کار، گدھا گاڑیاں حتیٰ کہ ٹریکٹر تک چلتے دیکھا۔ دنیا میں پانچ ہزار سال پرانے آثار قدیمہ کی غالباً یہ واحد سائٹ ہو گی کہ جس کے عین بیچ سے ہم نے ایک عدد بارات بھی گزرتے دیکھی جس میں ہر وہ سواری شامل تھی کہ جس سے آثارِ قدیمہ کا ستیاناس با آسانی کیا جا سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یونیسکو ہڑپہ کو اپنے سایہ شفقت میں لینے پر آمادہ ہی نہیں ہو رہا۔ اس کی اولین شرط یہ ہے کہ سائٹ کے اردگرد چار دیواری قائم کر کے ماضی کی اس عظیم نشانی کو گاڑی موٹروں کی بھرمار اور دیگر واہیاتیوں سے محفوظ کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے تقریباً ایک سو اٹھتر ایکڑ پر محیط سائٹ کے گرد دیوار بنانے کی اشد ضرورت ہے ہم حیران ہیں کہ اس سے پہلے کبھی کسی ضلعی سربراہ یا ناظم ٹائپ کسی چیز کو اس چار دیواری کا خیال کیوں نہیں آیا حالانکہ ضلع ساہیوال نے مصطفی زیدی، جاوید قریشی، چوہدری اشرف اور حفیظ اختر رندھاوا جیسے عالم فاضل ڈپٹی کمشنر ”بھگت“ رکھے ہیں۔ بہرحال، دیر آید درست آید کے مصداق موجودہ ڈی سی او ذوالفقار گھمن نے ضابطے کی کارروائی کرتے ہوئے یہ نیک کام بھی شروع کر ڈالا ہے۔ شنید ہے کہ عنقریب چار دیواری کا کام شروع ہو جائے گا۔ اس کارنامے کا کریڈٹ گھمن صاحب کو تو خیر ملے گا ہی مگر اس حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی خدمات کو بھی مورخ کبھی نظر انداز نہیں کر سکے گا اور پھر اب تو ویسے بھی اس ضلع نے نواز لیگی امیدوار کو ضمنی انتخاب میں فتح سے ہمکنار کر کے حق محبت خوب ادا کر دیا ہے، اب تو یہ چار دیواری فوراً سے پہلے بن جانی چاہئے تاکہ ٹور ازم کے حوالے سے بھی ہڑپہ کو وہ مقام مل سکے جس سے یہ شہر خراب آج تک محروم چلا آ رہا ہے۔
ہڑپہ سے واپسی پر ساہیوال کا سفر اختتام پذیر ہوا۔
لاہور روانہ ہوتے ہوئے دل ایک بار پھر اپنا سکول دیکھنے کو مچل اٹھا۔ نہر کا بڑا پل عبور کرتے ہوئے ہم گھنے درختوں کی اوٹ میں چھپے کانوینٹ کے کلیساء کو دیکھنے کے لئے بار بار گردن موڑتے رہے مگر بچپن کی بیشمار دھندلی تصویریں نظروں سے بتدریج اوجھل ہوتی گئیں۔ اشرف یوسفی کا بے محل مگر نہایت خوبصورت شعر الہامی غیر ضروری طور پر یاد آ گیا۔ ڈھلتی شام کا سورج اور ہم اکٹھے ڈیپریشن میں ڈوبتے چلے گئے۔ شعر دیکھئے #
یہ شہر چھوڑنا ہے مگر اس سے پیشتر
اس بے وفا کو ایک نظر دیکھنا بھی ہے
تازہ ترین