اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ جن پر میری جان قربان، بنی نوع انسان کے سب سے عظیم اور سب سے جدید لیڈر ہیں۔ آپؐ نے اپنی زندگی میں وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیے جو آج تک انسانیت کی بقا کے ضامن ہیں۔ آپؐ نے اخلاق کی اساس پر انسانی تاریخ میں ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس کے گہرے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو جزیرہ نما عرب میں حق کے ساتھ مبعوث فرمایا کہ وہ علاقہ کرۂ ارض کے وسط میں واقع تھا اور آپؐ کی تعلیمات سے پورا عالم فیض یاب ہو سکتا تھا۔ 1978ء میں ایک امریکی عیسائی مائیکل ہارٹ نے ’’دنیا کی سو سب سے زیادہ اثرانگیز شخصیتیں‘‘ نامی کتاب شائع کی جس میں حضرت محمدﷺ کو سرِفہرست رکھا۔ اِس کے منظرِ عام پر آنے پر ایک تہلکہ مچ گیا، مگر مصنف اپنی رائے پر قائم رہا اور اس نے حقائق سے ثابت کیا کہ حضرت محمدﷺ نے انسانی تاریخ اور تہذیب و تمدن کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے اور ایک ایسی ریاست قائم کی تھی جس کی مثال دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی۔
سرورِ دوعالم حضرت محمدﷺ کو اس دنیا سے رحلت فرمائے تقریباً پندرہ صدیاں گزرنے والی ہیں، مگر آپؐ کی سیرت کا آفتاب جہاں تاب اطرافِ عالم کو منور کیے ہوئے ہے۔ آپؐمحسن انسانیت ہیں جن کی آفاقی تعلیمات دنیا میں امن قائم کر سکتی ہیں اور حقیقی مساوات اور حریتِ فکر کے حیات افروز مناظر تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ دنیا کو احساس ہوتا جا رہا ہے کہ دیرپا بھائی چارہ رسولِ مدنی ﷺکے اسوۂ حسنہ کے اتباع ہی سے قائم کیا جا سکتا ہے۔
تصور تو کیجیے کہ رحمۃ للعالمین حضرت محمدﷺ جس خطے میں مبعوث فرمائے گئے، اس کی ذہنی، سماجی اور اخلاقی حالت کیا تھی۔ اَن گنت قبیلے تھے جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، البتہ ان میں چند خوبیاں بھی تھیں، مگر وہ زیادہ تر معاملات میں نہایت سنگ دل واقع ہوئے تھے۔ لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیتے۔ اس معاشرے میں عورت کا کوئی مقام نہیں تھا اور غلام خریدے اور بیچے جاتے اور اُن پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جاتے۔ لونڈیاں رکھنے کا عام رواج تھا۔ اخلاقی طور پر اس بگڑی ہوئی سوسائٹی میں ہادیِ برحق حضرت محمدﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُن کی اصلاح کا بیڑہ اُٹھایا اور اپنے حُسنِ اخلاق سے اُن کے اندر ایک اعتبار پیدا کیا۔ اُنہیں یقین تھا کہ حضرت محمدﷺ صادق و امین اور ہماری سوسائٹی کے سب سے زیادہ قابلِ اعتبار شخص ہیں۔ جب آپؐ نے توحید کا پیغام دیا اور اپنی نبوت کا اعلان کیا، تو وہ آپؐ کے خلاف ہو گئے اور طرح طرح کی اذیتیں پہنچانے لگے۔ آپؐ کے تیرہ سال مشرکوں کے درمیان گزرے اور جب اُنہوں نے آپؐ کے قتل کا منصوبہ بنایا، تو آپؐ سب سے سچے دوست سیدنا ابوبکرصدیقؓ کے ہمراہ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ راستے میں غارِ ثور میں قیام کیا۔ مشرک تعاقب میں تھے اور غار تک پہنچ گئے تھے۔ تب وحی نازل ہوئی کہ گھبراؤ مت اللہ تمہارے ساتھ ہے۔
آپؐ مدینہ پہنچے، تو انصار کے بچوں نے دف بجا کر آپؐ کا استقبال کیا۔ چھپ چھپ کر مکہ سے مسلمان مدینہ منورہ پہنچنے لگے۔ آپؐ نے کمال حکمت اور دانائی سے اخوت کا نظام قائم کیا اور انصار اور مہاجرین کو آپس میں عقیدے کی بنیاد پر بھائی بھائی بنا دیا۔ دنیا میں پہلی بار بھائی چارے کے وہ مناظر دیکھنے میں آئے جن کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اِس عظیم الشان انسانی جذبے پر ریاستِ مدینہ کی بنیاد رَکھی گئی۔ اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ نے معاشرے میں امن قائم رکھنے اور معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اہلِ کتاب سے معاہدے کیے اور انہیں بنیادی حقوق کی ضمانت دی۔ اِس ریاست میں شہریوں کی فلاح و بہبود پر غیرمعمولی توجہ دی گئی۔ بیت المال ضرورت مند شہریوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرتا تھا اور اس میں آنے والی ایک ایک پائی کا حساب رکھا جاتا۔ وہ عظیم المرتبت شخصیت ؐ،جس نے آگے چل کر تاریخ کا دھارا بدل ڈالا اور انصاف پر مبنی تمدن کی داغ بیل ڈالی، نے اپنا معیارِ زندگی سب سے کم رکھا۔ جنگی حالات میں آپؐ نے اپنے پیروکاروں کے مقابلے میں ایک کے بجائے دوپتھر پیٹ پر باندھے۔ آپؐ کے گھر میں اکثر فاقے رہتے اور گھر میں جو کچھ ہوتا، اسے خیرات کرتے رہتے۔
سرورِ کونین حضرت محمدﷺ نے طاقت کے استعمال سے مکمل اجتناب فرمایا اور جب فتنے کی سرکوبی کے لیے ہتھیار اُٹھانا ضروری ہو گیا، تو انسانی تاریخ میں پہلی بار ہدایات جاری کی گئیں کہ بوڑھوں، بچوں اور عورتوں پر ہاتھ نہیں اُٹھایا جائے گا۔ درخت کاٹے جائیں گے نہ فصلیں اُجاڑی جائیں گی نہ صلح کے طالب گروہ کو گزند پہنچایا جائے گا۔ زخمیوں اور مریضوں کا علاج کیا جائے گا۔ مدینہ کی ریاست نے صلح اور جنگ کے دو اصول وضع کیے اور اُن کی پوری پوری پابندی کی جس کی مثال اقوامِ عالم کی تاریخ میں شاذ و نادر ہی ملتی ہے اور فتح مکہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمدﷺ نے جس فراخ دلی اور عفو و درگزر کا مظاہرہ کیا، اسے دوبارہ دیکھنے کے لیے چشمِ فلک ہمیشہ بےتاب رہے گی۔ ابوسفیان جس نے آپؐ کو اور آپؐ کے رفقا کو ناقابلِ برداشت اذیتیں پہنچائی تھیں، آپؐ نے اسی کے گھر کو دارالامن قرار دے دیا۔ آپؐ نے اہلِ مکہ کے لیے عام معافی کا اعلان فرمایا اور لوگوں کو سینے سے لگایا۔
آپؐ نے اِس دنیا سے وصال کرنے سے پہلے حضرت صدیقِ اکبرؓ کو اپنا خلیفہ مقرر فرمایا جنہوں نے راہِ حق میں بےمثال قربانیاں دی تھیں اور پیغمبرِ خدا سے اپنی دوستی کا حق ادا کیا تھا، یوں آغاز ہی سے ہر طرح کی موروثیت کی جڑ کاٹ دی اور معاشرے میں آزادیِ اظہار اور احتساب کی مکمل آزادی تھی۔ اسلام نے عورت کو وراثت میں حصہ دے کر اسے بااختیار بنا دیا اورحضرت بلالِ حبشیؓ کو معاشرے میں اعلیٰ مرتبہ دے کر یہ ثابت کر دیا کہ گورے کو کالے پر کوئی سبقت حاصل نہیں، حالانکہ امریکہ جو مغربی تہذیب کا امام ہے، اس نے ابھی تک کالوں کا وجود تسلیم نہیں کیا۔ آپؐ نے انسانی حقوق کا جو چارٹر پیش کیا، اس کی ہمہ گیریت سے اقوامِ متحدہ کا چارٹر بہت پیچھے ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیشتر معاشروں کو یہ احساس ہوتا جا رہا ہے کہ عالمِ انسانیت کے عظیم ترین لیڈر کی پیروی ہی میں اُنہیں حقیقی سکون حاصل ہو سکے گا۔