• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج 16دسمبر، سانحہ سقوط ڈھاکہ کا دن ہے۔ اس دن ایک سبق تو یہ ہے کہ آمریت کی کوکھ سے صرف المیے ہی جنم لے سکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ انتخابات کے اعتبار اور فراخ دلی کے ساتھ ان کے نتائج کو تسلیم کرلینا، ان کے انعقاد سے بھی کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات کے حوالے سے بھی ہماری دیرینہ بیماری جوں کی توں موجود ہے۔ نہ وہ مان رہے ہیں جو شکست کھا گئے اور نہ انہیں سکون آرہا ہے جنہیں اپنی شکست دکھائی دینے لگی ہے۔ جمعرات کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کراچی میں حلقہ بندیوں اور گھر گھر ووٹوں کی تصدیق کے علاوہ ضمنی انتخابات کے معاملے پر بھی تفصیل سے غور کیا۔ اجلاس کے بعد کمیشن کے سیکرٹری، اشتیاق احمد خان نے صحافیوں کو بتایا کہ ”سندھ کے ایک اور پنجاب کے آٹھ ضمنی انتخابات کے موقع پر بدامنی اور بدعنوانیوں کی شکایت کا جائزہ لیا گیا۔ کمیشن اس فیصلے پر پہنچا ہے کہ عام شکایات عمومی نوعیت کی ہیں جن پر کوئی کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ البتہ کسی کے پاس کوئی ٹھوس شکایت ہے تو وہ الیکشن ٹریبونل سے رجوع کرے“۔
رجوع کون کرے گا؟ کسی کے پاس کوئی ایک بھی ٹھوس شہادت نہیں۔ دو ہزار کے لگ بھگ پولنگ اسٹیشنز میں سے، کسی ایک سے بھی ایسی شکایت نہیں ملی کہ جبری پولنگ یا ٹھپہ بازی کی گئی ہو یا نتائج بدلے گئے ہوں۔ لیکن اس مرض کہن کا کیا چارہ کہ حریف کی جیت کو جیت نہیں ماننا۔ تصوراتی رتوں کی تخیلاتی رنگینیوں میں مست رہنے والوں کے دل و دماغ میں آنے والے موسموں کی بے ثمری کے اندیشے سنپولیوں کی طرح رینگنے لگے ہیں۔ کل تک انقلاب عظیم کی نوید دینے والوں کے چہروں پر ابھی سے گہنائے ہوئے سورج کی پیلاہٹیں رقص کرنے لگی ہیں، ان کی آنکھیں شکست خوردہ لشکروں کے جلے خیموں سے اٹھتے دھوئیں سے سلگنے لگی ہیں اور ان کی بدن بولی ابھی سے یوم انتخاب کی شام غریباں کا نوحہ پڑھنے لگی ہے۔
قبل از انتخاب دھاندلی (PRE POLL RIGGING) کے نام پر ”قبل از انتخاب دہائی (PRE POLL CRYING) کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ انداز ایسا ہے جیسے ہار سے بہت پہلے ہی ہار کے جواز تراشے جانے لگے ہوں۔ سیانے ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ ہارنے والا پہلے اپنے اندر کے میدان میں ہارتا ہے۔ پھر آنے والی ہار کا خوف ہولے ہولے اس کے اعصاب پر سوار ہوجاتا ہے۔ پھر اس کے لہجے میں فتح کے بانگپن کے بجائے شکست کی نامرادی چڑ چڑا پن اور جھنجھلاہٹ بھر دیتی ہے۔ وہ انتہائے پاس میں اس تصوراتی دھاندلی کی دہائی دینے لگتا ہے جسے وہ معرکے کے بعد اپنی پسپائی کا جواز بناسکے۔ آج کل ”پری پول دہائی“ کے لے تیز تر ہوتی جارہی ہے۔
مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین چیف الیکشن کمشنر کے سامنے اپنے تحفظات رکھ رہے ہیں۔ سب کا مقصود ایسے معتبر اور بے لاگ انتخابات کا انعقاد ہے جو ہر نوع کی دھاندلی اور بے قاعدگی سے پاک ہوں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی چیف الیکشن کمشنر سے تفصیلی ملاقات کی۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے ان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے پولنگ اسٹیشنوں پر فوج کی تعیناتی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی اس امر کی تصدیق کی ہے کہ فاٹا، کراچی اور بلوچستان کے مخصوص علاقوں میں فوج تعینات کی جائے گی۔ طے پایا ہے کہ کراچی میں فوج پولنگ اسٹیشنز کے اندر بھی موجود رہے گی۔ خان صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے مرکزی نیز پنجاب حکومت کی طرف سے ”پری پول رگنگ“ کے شواہد بھی کمیشن کے سامنے پیش کردیئے ہیں۔
حکومتیں، بہرحال حکومتیں ہی ہوتی ہیں۔ جب تک ان کا منڈیٹ انہیں اجازت دیتا ہے، وہ ترقیاتی کام بھی کریں گی اور عوامی مقبولیت کا ایسا سامان بھی جو ان کا زاد انتخابات بن سکے۔ دنیا کا کوئی نظام اس پہ قدغن نہیں لگاتا۔ بھارت میں تونگراں حکومت کا کوئی تصور ہی نہیں۔ برسراقتدار سیاسی جماعت خود ہی انتخابات کراتی ہے اور آج تک وہاں انتخابات کی ساکھ کا کوئی بحران پیدا نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کی نزاکتیں اور حساسیتیں کچھ زیادہ ہی تیز دھار ہیں۔ اس کا جواز بھی ہے کہ ماضی کے تجربات اچھے نہیں۔ انہی تجربات کے بعد طے پایا کہ انتخابات ایک غیرجانبدار نگران حکومت کی زیرنگرانی ہوں۔ انہی تجربات کے نتیجے میں ایک مضبوط و توانا الیکشن کمیشن اور ایک معتبر چیف الیکشن کمشنر کے تصور کو آئینی ضمانت ملی۔ انہی تجربات کی روشنی میں بے داغ انتخابی فہرستوں کی تیاری عمل میں آئی۔ انہی تجربات کے پیش نظر اہتمام ہورہا ہے کہ جہاں جہاں ضروری ہو، فوج کو تعینات کیا جائے تاکہ کسی کو من مانی کا حوصلہ نہ ہو۔ انتخابات کا اعتبار قائم کرنے کیلئے بے حد ضروری ہے کہ عمران خان اور تمام دوسری جماعتوں کی گزارشات کو توجہ سے سنا جائے۔ ایسا کوئی چھوٹا سا سوراخ بھی نہ رہنے دیا جائے جہاں سے معمولی سی دھاندلی کا بھی گزر ہو۔ دھاندلی کے خوف میں مبتلا سیاست دانوں سے پوچھا جائے کہ آپ کیا چاہتے ہو؟ اور پھر انکی تسلی اور اطمینان قلب کا پورا اہتمام کیا جائے۔ ایسا کرنے کے بعد ان سے ایک حلف نامہ لے لیا جائے کہ اب وہ انتخابی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کرلیں گے اور انتخابات کی شب اپنے فتح مند حریفوں کو مبارکباد کہنے میں بخل سے کام نہیں لیں گے۔
ایسا نہیں ہوگا۔ اگر بیلٹ بکس والی ہر میز کے چاروں کونوں پر ایک ایک بندوق بردار فوجی کھڑا کردیا جائے اور سارا پولنگ عملہ، نیچے سے اوپر تک، فرشتوں پر مشتمل ہو تو بھی آج پری پول دہائی دینے والے ہاتھ سروں پر رکھے گلی گلی بین کرتے پھریں گے کہ دھاندلی ہوگئی، عوام کا مینڈیٹ چرا لیا گیا، پیسہ کام دکھا گیا۔ پھر وہ شیخ الاسلام کے کاروان انقلاب کا حصہ بن کر کشت جمہوریت کے ہر خوشہ گندم کو جلانے کے درپے ہوجائیں گے۔
انتخابات کے جلد ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم صدر زرداری پہ دباؤ ڈال رہی ہے کہ فوری انتخابات کے سوا کراچی کی نئی حلقہ بندیوں اور گھر گھر ووٹوں کی جانچ سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ۔ قادر مگسی اور پیر صاحب پگارا کے بڑے جلسوں نے سندھ میں ہوا کے بدلتے رخ کی نشاندہی کی ہے۔ پی پی پی وابستگان مستعفی ہو کر مسلم لیگ (ن) کا رخ کرنے لگے ہیں زیادہ تاخیر، زیادہ غارت گری کا باعث بن سکتی ہے ۔ ادھر آئی ایم ایف کو اگلے ماہ ساڑھے تین ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے۔ سو قرائن موجود ہیں کہ صدر زرادری 27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش میں کوئی چونکا دینے والا اعلان کردیں۔
لیکن بنیادی بات انتخابات کی تاریخ نہیں، ان کا اعتبار ہے۔ پری پول دہائی دینے والے، اپنی شکست کی چاپ سے ہراساں ، ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ حل یہی ہے کہ دھاندلی کے رتی برابر امکان کار وزن بھی بند کردیا جائے تاکہ آج پری پول دہائی میں مصروف انقلابی کل گلیوں میں بین کرنے نکلیں تو خلق خدا قہقے لگا رہی ہو۔
تازہ ترین