• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے دو اداروں کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق تقریباً ستر فیصد ارکین ِ پارلیمنٹ(یعنی 446 اراکین ِ اسمبلی اور سینٹ میں سے 300) نے 2011 میں اپنی انکم ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے۔ پچپن میں سے صرف بیس وزراء نے ٹیکس ریٹرن جمع کراے جبکہ 104 میں سے صرف 49 سینٹروں نے کسی قسم کا ٹیکس ادا کیا۔ جن رہنماؤں نے کسی قسم کا ٹیکس ادا نہیں کیا اُن میں صدر زرداری اوروفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک بھی شامل ہیں۔ کچھ نے ٹیکس ادائیگی کے نام پر محض اشک شوئی کی ،جیسا کہ سینٹر مشاہد حسین نے 2011 میں صرف بیاسی روپے ٹیکس ادا کیا۔ پارلیمنٹ کے 80 اراکین ٹیکس نمبر نہیں رکھتے ہیں اگرچہ اُنھوں نے انتخابات پر کروڑوں روپے خرچ کئے ہیں۔ اس رپورٹ سے پہلے ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل نے پاکستان میں ہونے والی بدعنوانی پر ایک رپورٹ شائع کی ۔ اس کے مطابق پاکستان بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں مزیدآگے بڑھا ہے اور بدعنوانی کے لحاظ سے ترتیب معکوس میں اب 173 ممالک کی فہرست میں اس کا نمبر 139 واں ہے، یعنی گراوٹ کی تہہ تک پہنچنے میں صرف درجن کے لگ بھگ ممالک ہی ہمارے ”حریف “ ہیں۔ اس طرح ہم دنیا کے 34 ویں بدعنوان ترین ملک ہیں۔ اگر پر قہر کہ چیئر مین نیب ایڈمرل(ر) فصیح بخاری نے کہا ہے کہ پاکستان میں روزانہ سات ارب روپے کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں۔ان رپورٹوں پر اراکین ِ پارلیمنٹ، خاص طور پر وزراء ، کا چراغ پا ہوجانا قابل ِ فہم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کی جمہوری قوتوں کے خلاف سازش ہے کیونکہ یہ رپورٹیں اُس وقت آئی ہیں جب ملک میں عام انتخابات کا ماحول بن رہا ہے لیکن یہ خطرہ بھی لاحق ہے کہ کوئی ”قوت“ کسی ”ناگزیر “ بہانے سے ان کو لامتناہی مدت کے لئے التوا میں ڈالنا چاہتی ہے۔ ان ”دانشوروں“ کو کسی نے نہیں بتایا کہ 9 دسمبر بین الالقوامی اینٹی کرپشن ڈے کے طور پر منایا گیا اور اس دن منظر ِ عام پر آنے والی رپورٹیں اُس دن کے حوالے سے تھیں ۔ اس ضمن میں اراکان ِ پارلیمنٹ کا اصرار ہے کہ ٹیکس فائل جمع نہ کرانا کوئی بڑا مسلہٴ نہیں ہے کیونکہ اُن کو مشاہرہ دیتے وقت ٹیکس منہا کر لیا جاتا ہے۔ جاگیر داروں کو بھی ٹیکس سے چھوٹ ہے کیونکہ زرعی پیداوار پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ محکمہ ٹیکس بھی ان ٹیکس چوروں کے ”گرم تعاقب “ میں جانے کی جسارت نہیں کرتا کیونکہ ان کی قابل ِ ٹیکس آمدنی بظاہر فائل کر دی جاتی ہیں۔جہاں تک قانون کا تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ 42000 یا اس سے زائد ماہانہ آمدن قابل ِ ٹیکس ہے اور اسے ادا نہ کرنے کی صورت میں 25% تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔
ایف بی آر کے مطابق تین ملین سے زائد افراد ٹیکس نمبر رکھتے ہیں لیکن ان میں سے ایک ملین سے بھی کم افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ یہ اعداد وشمار ایک ملک جس کی آبادی دوسو ملین ہو، میں ٹیکس چوری کے افسوس ناک رجحان کی غمازی کرتے ہیں۔ ”سیکورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن “ کے پاس اسی ہزار کے قریب کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں لیکن ان میں پچیس فیصد سے بھی کم ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ اس پس ِ منظر میں یہ بات تعجب خیز نہیں کہ پاکستان میں ٹیکس جی ڈی پی کی شرح دس فیصد سے بھی کم ہے، چنانچہ حکومت کو اخراجات کے لئے نوٹ چھاپنے یا قرض لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمارا مالی خسارہ اٹھ فیصد سے زائد ہو چکا ہے جبکہ گزشتہ چار برسوں کے دوران ہمارا ملکی قرضہ دگنا ہو چکا ہے۔ غیر قانونی معیشت کا حجم تقریباً قانونی معیشت کے برابر ہو چکا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ٹیکس میں اضافہ کیوں نہیں کرسکتے ؟اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ٹیکس جمع کرنے والے محکمے بدعنوان اور نااہل ہیں۔ کسٹم اور ٹیکس جمع کرنے والے محکمے اور پولیس پاکستان میں ملازمت کے لئے انتہائی ”پر کشش “ تصور ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ عام پاکستانی بدعنوان حکومتوں کو ٹیکس ادا نہیں کرنا چاہتے، اس کی بجائے وہ خیراتی اداروں، ہسپتالوں، مسجدوں اور مدرسوں کو پیسے دے کر ثواب کمالیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں کالے دھن کو سفید کرنے کا جرمانہ بھی بہت کم ہے۔ تقریبا ایک فیصد ادائیگی پر سب کھوٹے کھرے ہوجاتے ہیں۔ کوئی شخص بھی پاکستانی روپوں کے بدلے بیرون ِ ملک سے امریکی ڈالر منگوا سکتا ہے اور اُس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی ہے۔ چند دہایاں قبل جب دولت ٹیکس کی چھوٹ دی گئی تھی ، ٹیکس گزاروں پر انکم ٹیکس کے ساتھ دولت ٹیکس جمع کرانے کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ اصل مسلہ ٴ اوپر سے شروع ہوتا ہے کیونکہ جو لوگ حکومت چلاتے ہیں یا پالیسی ساز ہیں یا جن کے ذمے ٹیکس جمع کرنا ہے وہ خود دوسروں کیلئے کوئی اچھی مثال قائم نہیں کرتے ہیں۔ وہ بغیر ٹیکس کے نمائندگی کرتے ہیں۔ ماضی میں بہت سی کوشش کی گئی ہے کہ کسی طرح لوگ ٹیکس کی ادائیگی کے لیے تیار ہوجائیں۔․ ٹیکس کی شرح میں خاطرخواہ کمی کی گئی ہے یا گاہے بگاہے ٹیکس کی چھوٹ دے کر قابل ِ ٹیکس آمدنی کے حامل افراد کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن قابل ِ اعتماد اعداوشمار اور سیاسی ارادے کی عدم موجودگی میں ہر کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ”حلیف “ طاقتور تجارتی حلقوں کی پر زور مخالفت کی وجہ سے معیشت کو منظم کرنے کی ہر کوشش ناکام رہی ہے۔ تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کے لیے جائے مفر تنگ ہورہی ہے کیونکہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز، ٹیکس نمبر، بنک اکاونٹس اور انتخابی انداج نے کافی حد تک معقول اعداد شمار جمع کر کے ان کو مربوط کر دیا ہے۔ اس کے بعد زمین کا اندراج بھی ہونے جارہا ہے۔ یہ بھی ایک اچھی علامت ہے کہ ہمیں امداد اور عطیات دینے والے ممالک ہمیں ٹیکس اصلاحات نافذ کرنے میں مدددے رہے ہیں تاکہ ہم اخراجات کم کرتے ہوئے کفایت شعاری کی زندگی بسر کر سکیں۔ اس کے علاوہ ٹیکس اصلاحات نافذ کرنے اور اس کا دائرہ کار بڑھانے کیلئے میڈیا کا دباؤ بھی موجود ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گھر کی درستگی کا عمل اوپر سے شروع ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے اُن افراد، جو عوامی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں یا اس ملک کے پالیسی ساز ہیں ، یا جنھوں نے قانون سازی کرنا ہوتی ہے، کو ٹیکس ادائیگی کی مثال قائم کرنی ہوگی۔ اس کے علاوہ ایف بی آرکی کارکردگی کی بھی جانچ ہونی چاہیے تاکہ ایسا نہ ہو کہ جو افراد چوروں کو پکڑنے پر متعین ہیں، وہ خود ہی چور نکلیں۔ ٹیکس کے کچھ شعبہ جات کو نجی تحویل میں بھی دیا جا سکتا ہے تاکہ مسابقت پیدا کرتے ہوئے ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جا سکے۔ ایف بی آر کے سربراہ کے عہدے کو سیاسی مداخلت سے بچانے کے لئے اُسے ایک مخصوص مدت کے لیے آئینی تحفظ دیا جائے تاکہ اُسے سیاسی بنیادوں پرہٹایا جانا ممکن نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس کا نظام سادہ اور پیچیدگیوں سے پاک ہونا چاہیے تاکہ افسرشاہی کا بوجھ کم کیا جائے سکے۔ سب سے پہلے زرعی پیداوار کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے تاکہ ٹیکس ادا نہ کرنے کا کوئی جواز باقی نہ رہے۔
تازہ ترین