• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گوگل سے ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں کا متاثر ہونا

کہتے ہیں کہ ہر معاملے میں توازن یا اعتدال ہونا چاہیے۔ آج کل مریضانہ حد تک’’ گوگل‘‘ کابخار چھایا ہواہے، جس کے جنون نے ہمیں حواس باختہ اور ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ کتاب، تصاویر سمیت تمام علوم گوگل کی ایک کلک کے فاصلے پر موجود ہیں۔پوری دنیا میں آن لائن ڈیجیٹل لائبریریاں کھل چکی ہیں۔ سوشل میڈیا نے اساتذہ ، علما، دانش وروں اور سائنسدانوں سے رابطہ اور علمی گفتگو آسان بنادی ہے اور یہی سہل پسندی شاید آپ کو کند ذہن بنا رہی ہے۔ انٹرنیٹ کا بےحد اوربے جا استعمال ذہن پر منفی اثرات مرتب کرکے تخلیقی صلاحیتوں کو متاثر کررہا ہے۔

ضروری اور ناگزیر معلومات

نیورو سائنٹِسٹ اور مصنف ڈین برنیٹ کہتے ہیں، ’’ ماضی میں لوگ طویل مضامین، نظمیں اور دیگر مواد یاد کرتے تھے۔ اس طرح انہیں کہیں کچھ سنانے میں آسانی ہوتی تھی، تاہم بہت سا مواد ذہن نشین کر لینا ذہانت کی علامت نہیں اور نہ ہی ایسی اہلیت کا نہ ہونا آپ کے ’کندذہن‘ ہونے کی نشانی ہے۔ ذہانت کا انحصار کئی چیزوں پر ہے، جن میں جینیاتی عناصر بھی شامل ہیں اور سماجی و ثقافتی ماحول بھی، تاہم یہ بات بھی اہم ہے کہ کوئی شخص معلومات کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ اس بات کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ ہمیں زیادہ معلومات کی بھی ضرورت ہے اور اس امر کی بھی کہ ذہن ان معلومات کو پراسیس کیسے کرتا ہے۔ ضروری اور ناگزیر معلومات پر دھیان دیں۔ اب گوگل نے ہمارے ذہن کو کیسے متاثر کیا ہے؟اسے ٹھوس انداز سے بیان کرنا مشکل ہے، کیوں کہ گوگل بہت کم عرصے سے ہمارے درمیان ہے۔ یہ مدت ایسی نہیں کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ اس کی وجہ سے ہمارے نیورولوجیکل ردعمل کے ارتقاء پر فرق پڑا ہے، تاہم یہ بات یقیناً دیکھی جا سکتی ہے کہ لوگ اب ذہن پر زور ڈالنے یا سوچنے کی بجائے فوری گوگل کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسانی دماغ عام حالات میں چونکہ انوکھے پن کو عمومی چیزوں پر فوقیت دیتا ہے اور گوگل ایسے میں کسی بھی موضوع پر لامحدود امکانات کے اچھوتے خیالات کو سامنے لا رکھتا ہے، اس لیے انسان سوچنے اور تدبر کرنے کی بجائے اس کی جانب لپک پڑتا ہے۔ آپ اس کا اطلاق فیس بک، ٹوئٹر،انسٹاگرام، لنکڈ اِن اور دیگر ویب سائٹس پر بھی لاگو کر سکتے ہیں‘‘۔

گوگل سرچ اور انٹرنیٹ کاشوق

انٹرنیٹ پر معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے یاہو اور ایم ایس این جیسے کئی سرچ انجن موجود ہیں لیکن گوگل کو ان میں سب سے زیادہ عوامی مقبولیت حاصل ہے۔ پاکستان میں اسمارٹ فون عام ہونے سے اب ہر کسی کی انٹرنیٹ تک رسائی بہت آسان ہوگئی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے گوگل ہماری عادت اور اسمارٹ فون ہمارا اسٹائل بن گیا۔پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد تین کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ سوشل ویب سائٹس کے صارفین تقریباً ایک کروڑ ہیں،جن میں سے دو تہائی 25 سال سے کم عمر ہیں۔

تنہائی اور اکیلا پن

ایک سروےکے مطابق برطانیہ میں1998ء تک12سال سے کم عمر بچے اپنی ماں کے ساتھ دن میں کم از کم دس مرتبہ بات کرتے تھے ، جبکہ اب یہ گفتگو سکڑ کر صرف پانچ تک رہ گئی ہے، جبکہ امریکا میں تقریبا ًتیس فیصد بچے ایسے ہیں جو دن میں زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ اپنے والدین سے بات کرپاتے ہیں اور دس فیصد ایسے ہیں جنہیں دو دن میں ایک مرتبہ اپنے ماں باپ سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کی وجہ یا تو والدین کی مصروفیات ہیں یا پھر بچوں کا مختلف مشاغل میں وقت لگانا۔

Save Our Children نامی ایک تنظیم کے مطابق جدید ٹیکنالوجی نے ایک ایسی نسل کو جنم دیا ہے، جو تنہائی کا شکار ہے اور سماجی تعلقات نبھانا نہیں جانتی۔ اس تنظیم کے تحت ایک سروے کیا گیا، جس میں اساتذہ سے سوالات کئے گئے اور ان میں سے ستر فیصد کا یہ کہنا تھا کہ انٹرنیٹ پر دیر تک اور طویل وقت صَرف کرنے سے طلبہ کی سماجی اور تعلیمی سرگرمیاں شدید متاثر ہوتی ہیں۔ پاکستان میں بھی والدین اور بچوں کی کم وبیش یہی صورتحال ہے، بچوں کی اکثریت کو کمپیوٹر، موبائل گیم یا انٹرنیٹ سے فرصت نہیں ملتی جبکہ ماں باپ روزگار، دوستوںیا پھر موبائل انٹرنیٹ میں مشغول رہتے ہیں۔

جسمانی اور نفسیاتی صحت پر اثرات

ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن (WHO) نے واضح طور پر یہ بات کہی ہے کہ WiFi ، موبائل ، لیپ ٹاپ اور آئی پیڈز کا زیادہ استعمال صحت کے لئے انتہائی خطرہ کا باعث ہے اور اس سے کینسر ، دماغی ٹیومر، Autism (ایک قسم کا دماغی مرض)، شوگر، دائمی تھکاوٹ، تیز بخاراور ڈپریشن جیسی خطرناک بیماریوں کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جب سےٹیکنالوجی کا استعمال شروع ہوا ہے، اس وقت سے لے کر آج تک کروڑوں افراد کی صحت ان اشیاسے متاثر ہوئی ہے اور بیماریوں کا پھیلاؤ بہت تیزی سے بڑھا ہے۔ دنیا میں80فیصد لوگ بے خوابی یا نیند کی کمی کا شکار ہیں، صرف امریکا میں تقریباً ایک کروڑ افراد توجہ کی کمی کا ڈس آرڈر (Attention Deficit Hyperactivity Disorder)کےمرض کا شکار ہیں۔ موبائل کی ریڈی ایشن سے بھی صحت کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

تازہ ترین