• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں سرکاری ملازمتوں کے لئے 1970 ء کی دہائی میں متعارف کرائے گئے کوٹہ سسٹم کی بنیاد دیہی اور شہری سندھ کے ڈومیسائل پر تھی۔ اس کی وجہ سے مہاجروں کو سندھیوں سے شکایت رہی ہے ۔ مہاجر سمجھتے ہیں کہ بہتر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اُن کا سرکاری ملازمتوں میں حصہ بہت کم ہے ۔ دوسری طرف سندھیوں کا موقف ہے کہ دیہی سندھ میں دستیاب تعلیم کا معیار انتہائی ناقص ہے ۔ وہاں کے فارغ التحصیل طلبہ شہروں کے بہتر تعلیمی ماحول میں پڑھنے والے طلبہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ وہ شہری طلبہ کے ساتھ قابلیت کے مقابلے میں ملازمتیں حاصل نہیں کرسکتے ۔اس لئے اگر کوٹہ سسٹم نہ ہو تو دیہی سندھ میں بے روزگاری بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔

اس موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے میرا مقصد کسی فریق کے موقف کا جواز پیش کرنا نہیں ۔ میرا خیال ہے کہ طرفین کے پاس اپنے اپنے موقف کے حق میں کافی ٹھوس دلائل موجود ہیں۔ تاہم ایسے مسائل نے کچھ دیگر ممالک میں بھی سراٹھایا تھا، لیکن اُنھوں نے اس مسئلے کو حل کرلیا۔ ہم کوئی حل کیوں تلاش نہیں کرپائے؟ میرا خیال ہے کہ اگر طرفین اپنے اپنے دلائل سامنے لائیں تو مل کر کسی قابل ِ قبول حل کی طرف بڑھنا ناممکن نہیں۔ لیکن ہم تاحال ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کیا اس کی وجہ عدم اعتماد ، اور اشتعال انگیز جذبات تو نہیں؟

عدم اعتماد اوراشتعال، جس کا میںنے ذکرکیا، کا اندازہ نہ صرف طرفین کی صفوں میں موجود قوم پرستوں کی تقریروں سے ہوتا ہے بلکہ مہاجروں سندھیوں کے ووٹنگ کے مختلف رجحانات بھی اس کی عکاسی کرتے ہیں۔ دونوں دھڑوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دان اپنے اپنے حامیوں سے بات کرتے ہیں۔پیدا ہونے والا یہ جذباتی ارتعاش ایک بھونچال کی صورت اختیار کرتے ہوئے ان دھڑوں کو کسی سیاسی مفاہمت تک پہنچنے سے روکتا ہے ۔ درجنوں ٹی وی چینلوں ، اخبارات اور کئی ایک انٹر نیٹ فورمز ، جہاں ان مسائل کو زیر ِ بحث لانا ممکن ہے ، کے با وجود طرفین کے درمیان مفاہمت کی کوئی فضا بنتی دکھائی نہیں دیتی۔ فریقین کے روایتی موقف کی راکھ کریدتے ہوئے بعض ٹی وی اینکر جذبات کے شعلوں کو تو ہوا دیتے ہیں لیکن اس سے کوئی امید کی روشنی نمودار نہیں ہوتی۔ ہم ایک دوسرے سے بات کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے متعلق بیانات داغتے رہتے ہیں۔ یہی صورت ِحال کچھ حساس معاملات کے بارے میں ہے ۔ فیض آباد دھرنے کے دوران تحریک ِ لبیک کے کارکنوں کو یقین تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت احمدیوں کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہی تھی ۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کویقین تھا کہ یہ دھرنا اُن کی حکومت کو کمزور کرنے اور اُنہیں بدنام کرنے کی ایک سازش ہے۔ جب طرفین کے رہنما بات کرتے تو اُن کے مخاطب اُن کے اپنے حامی ہی ہوتے تھے ، جو اُن کی بات پر من و عن یقین رکھتے تھے ۔ وہ فریق ِ مخالف کا موقف سننے اور سمجھنے کے لئے تیار نہ تھے ۔ ہم نے منہ زور جذبات کی چھری سے دلیل اور منطق کا خون ہوتے دیکھا۔ شعلہ بار طغیانی، لیکن دلیل کی روشنی ناپید۔ ایسے تنازعات کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ حتمی بات یہ ہے کہ ہم آندھی تھمنے ،اور گل و پات کا نقصان ہونے کے بعد ایسے تنازعات کا حل نکالنے کے بجائے اُنہیں وقتی امن کی خاطرقالین کے نیچے سرکادیتے ہیں۔ لیکن کچھ دیر بعد وہ زیادہ شدت اختیار کرکے سامنے آجاتے ہیں۔ چاہے ان مسائل کا تعلق بین الصوبائی ہم آہنگی سے ہو یا آبی وسائل کی تقسیم ، ڈیموں کی تعمیریا گیس کے مصرف سے ہو، یا کچھ گروہوں کی ناراضی، بدعنوانی، سول ملٹری عدم توازن اور علاقائی تنازعات سے ہو، ہم ان مسائل کاحل نکالنے سے قاصر ہیں۔ اس کی وجہ ان موضوعات پر قومی سطح پر مکالمے کا فقدان ہے ۔ ہاں، سلگتے ہوئے بیانات اور الزامات کا تانتا بندھا رہتا ہے ، لیکن معقول لہجے میں ایک دوسر ے سے بات نہیں کی جاتی ۔

ہم اپنے سیاسی حریفوں کو اپنا دشمن کیوں سمجھتے ہیں؟ ہم ایک دوسرے کی بات سننے اور اپنا موقف مدلل انداز میں پیش کرنے کی ضرورت محسوس کیوں نہیں کرتے ؟ ہم اپنے مخالفین کو بہت آسانی سے غدار ،جمہور مخالف یا کافر کیوں قرار دے ڈالتے ہیں؟ہم یہ کیوں فرض کرلیتے ہیں کہ ہمارے مخالفین بدترین افراد ہیں؟ہم اُن کے دلائل سننے کے بجائے صرف اپنے دلائل کی حقانیت پر ہی اصرار کیوں کرتے ہیں؟ ہم کیوں سوچتے ہیں کہ ہمارے مخالفین ہمارے خلاف ہمہ وقت سازشوں میں مصروف اور ہمیشہ ہمیں نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں؟

اتنے سارے سلگتے مسائل کی موجودگی میں قومی تعمیر کا عمل کیسے کامیاب ہوسکتا ہے ؟ایک قوم کیسے متحد رہ سکتی ہے جب اس کے لاتعداد گروہ اس کے ہاتھوں حقیقی یا فرضی زخموں کی شکایت کررہے ہوں؟جب پاکستان ان مسائل کو جمہوری عمل کے ذریعے حل نہیں کرسکتا تو یہاں جمہوریت کیسے اپنی جڑیں مضبوط کرسکتی ہے ؟

ہمارے ملک میں بہت سی یونیورسٹیاں اور تھنک ٹینک ہیں، لیکن ہم نے کبھی ان اداروں کی طرف سے کوئی سنجیدہ رپورٹ نہیں دیکھی ۔ جس میں ان مسائل کا کوئی حل تجویز کیا گیا ہو۔ اس کے بجائے ہمارے زیادہ تر تھنک ٹینک قطبیت کا شکار ہوکرکسی موقف کی وکالت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں معروضی تجزیے اور غیر جانبداردلائل عنقا ، چنانچہ جذبات کی طولانی زیادہ ہے۔ اس مسئلے کا ایک ممکنہ حل تو یہ ہے کہ ہر کسی کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کرلیا جائے ۔ پارلیمنٹ ایسا ہی ایک فورم ہے ۔اس فورم میں قوم پرستوں سے لے کر نام نہاد محب وطن اورسیکولر سوچ رکھنے والوں سے لے کر بنیاد پرست، مرد کی حاکمیت پر یقین رکھنے والوں سے لے کر نسائیت کی بات کرنے والوں اور جاگیرداروں سے لے کر عام مزدور اور کسانوں تک ، ہر کوئی آسکتا ہے ۔ اس کے باوجود ہماری پارلیمنٹ بہت موثر ثابت نہیں ہوئی ۔کیوں؟ مسائل پر بیانات دیے جاتے ہیں، مکالمہ نہیں کیا جاتا۔ شاید حکمران کولیشن (جو جماعت بھی حکومت میں ہو)کے لئے ضروری ہے کہ وہ نظر انداز گروہوں کی بات سنے، تاکہ اُن کی آواز ایوان میں پہنچ جائے اور وہ احساس ِ محرومی کا شکار نہ ہونے پائیںیا پھر ہمیں کسی کرشمے کی توقع ہے؟یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ عشروں پرا نے مسائل چند ماہ میں حل نہیں ہونے جارہے ۔ جمہوری عمل کو پروان چڑھنے کے لئے وقت درکار ہے ، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تمام ناراض آوازیں اسی پلیٹ فارم پر آجائیں گی، اور یہیں مکالمہ ہوگا۔

یہ سطور تحریر کرتے وقت میں سوچ رہاہوں کہ مسلم لیگ (ن) فیض آباد دھرنے کو ٹالنے کے لئے کیا کچھ کرسکتی تھی؟ اُس دھرنے کی علانیہ وجہ ایک الزام تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی شق ختم کرنے کی کوشش میں ہے ۔۔۔ حالانکہ یہ بات حکومت کے وہم وگمان میں بھی نہ تھی۔ یہ کچھ الفاظ کی تبدیلی کا ایشو تھا، اور ان سے بھی بنیادی مفہوم تبدیل نہیں ہوتا تھا۔ ہر چند کہ اس عمل میں پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتیں شریک تھیں لیکن تمام تر تمازت مسلم لیگ (ن) کو جھیلنا پڑی۔ بالکل اسی طرح سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کی وجہ سے اشتعال کا رخ موجودہ حکومت کی طرف مڑ گیا تھا۔

چنانچہ میرا جواب یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے تنازعات کو حل کرنے کے لئے ہمارے پا س کوئی پلیٹ فورم موجود نہیں ہے ۔ حتیٰ کہ جب جذباتی اشتعال کی لہر سرکاری اور نجی املاک کو تباہ کردیتی ہے تو اس پر تادیب بھی نہیں ہوسکتی ۔ شاید وقت آگیا ہے جب ان گروہوں کو جذباتی اشتعال کی راہ سے روکنے کے لئے انہیں بات چیت میں شریک کیا جائے۔ جمہوریت کا یہی مطلب ہے ۔ جب یہ گروہ بھی اسی جمہوری عمل کا حصہ بن جائیں گے تو پھر وہ کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے کئی مرتبہ سوچیں گے ۔

(صاحب ِ مضمون سابق وفاقی وزیر برائے مالیاتی امور ہیں)

تازہ ترین