• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ہم اپنے وزیراعظم عمران خان کے تازہ افکار عالیہ پر اظہارِ خیال کرنا چاہتے تھے، بالخصوص لیڈر شپ کے لیے یوٹرن کا جو اصول وہ بیان کررہے ہیں لیکن پہلے کرتار پور بارڈر کھولنے کی خوشگوار خبر کا جائزہ، جو درویش سمیت خطے کے کروڑوں انسانوں کے اس دیرینہ خواب کی طرف بڑی پیش رفت ہے کہ نہ صرف پاک ہند ویزا سسٹم اختتام پذیر ہو بلکہ جنوبی ایشیاء میں یورپی یونین کی طرز پر یکجہتی کا وہ عملی مظاہرہ ہو جو تمام سارک ممالک کو کنفیڈریشن تک لے جائے۔عید میلاد اور بابا نانک مہاراج کے جنم دن کی خوشیوں کے موقع پر خوشگوار فضا کا یہ جھونکا ہے کہ بھارتی کابینہ نے کرتار پور بارڈر کھولنے کی پاکستانی تجویز منظور کر لی ہے ۔پاکستان نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے امن کی جیت قرار دیا ہے۔ وزیر خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ وزیراعظم 28نومبر کو کرتار پور کو ریڈ ور کا سنگ ِ بنیاد رکھیں گے جس کی تکمیل اگلے نومبر یعنی بابا نانک دیو جی کے 550 ویں جنم دن تک ہو جائے گی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں بھارتی کابینہ کی طرف سے منظوری کے بعد بھارتی وزیر ارون جیٹلی نے کہا کہ بھارت سرکار انڈین پنجاب کے ضلع گوردا سپور میں ڈیرہ بابا نانک سے پاکستانی بارڈر تک سڑک تعمیر کرے گی جس کا مقصد سکھ یاتریوں کو پاکستانی علاقے میں دریائے راوی کے کنارے واقع گردوارہ دربار صاحب کرتارپور کی زیارت تک لے جانا ہوگا انڈین وزیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس مقصد کے تحت سڑک کے ساتھ ساتھ انڈین ریلوے ایک ٹرین بھی چلائے گی جو بابا نانک سے وابستہ مقدس مقامات سے گزرے گی ۔

سکھ دھرم کے بانی بابا گورو نا نک دیو جی مہاراج ایک ایسی ہستی ہیں جن کا ہندو اور مسلمان دونوں احترام کرتے ہیں ۔ تلونڈی (موجودہ ننکانہ صاحب) میں ایک ہندو کھتری کالورائے پٹواری کے گھر جنم لینے والے نانک مسلم صوفیاء سے بہت متاثر تھے اسی روا روی میں وہ حج کرنے مکہ مکرمہ بھی گئے اور انہوں نے مختلف مقامات پر اذانیں بھی دیں، بغداد میں بھی اُن کا قیام رہا۔ان کی زندگی کا بیشتر حصہ سفر یا سیاحت میں گزرا اور ہر مقام سے انہوں نے کچھ نہ کچھ سیکھا لیکن اُن کا آخری قیام جو اُن کی زندگی کا طویل ترین قیام ہے۔ ایک روایت کے مطابق 1505اور دوسری کے مطابق 1521 سے اُن کی وفات یعنی 1539تک ہے،موجودہ نارووال ضلع کے گاؤں کرتارپور میں ہے، جسے انہوں نے کاہنور کے ایک ہندو جاٹ دودھا کے ساتھ مل کر دریائے راوی کے بائیں کنارے بسایا اور اپنے بیوی بچوں کوبھی یہیں لے آئے۔ یہاں انہوں نے کھیتی باڑی بھی کی اور عرفان و معرفت کی روشنی بھی پھیلائی اور یہیں سے راہی ملک عدم ہوئے۔کرتار کے معنی ہیں رب یا پالنے والاسو کرتار پور کا مطلب ہے ’’رب کی بستی‘‘ ۔ اپنی تعلیمات کا پرچار کرنے وہ ڈیرہ نانک تشریف لے جاتے۔

ان دنوں نارووال کے چیئرمین ضلع کونسل سابق وزیر داخلہ احسن اقبال کے بیٹے احمد اقبال ہیں۔ ہر دو شخصیات سے قریبی تعلق کے باعث پچھلے طویل سالوں سے درویش کو کرتارپور آنے جانے کے مواقع ملتے رہے ہیں۔ یوں ممبر پنجاب اسمبلی سردار رامیش سنگھ اروڑا اور اندرجیت سنگھ سے بھی ملاقاتیں رہیں چیئرمین ضلع کونسل نارووال نے چند برس قبل اس مجوزہ کرتارپور کوریڈور پروجیکٹ کی تفصیلات سے آگاہ کیا تھا اس کا خاکہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے ادوار حکومت میں بھی زیر بحث رہا ہے اور ہر دو حکومتوں کی اس حوالے سے دلچسپی واضح رہی ہے کہ یہ قطعی عوامی و انسانی مفاد کی سوچ تھی۔ہم یہاں یہ وضاحت کرتے چلیں کہ کرتارپور سے انڈین بارڈر محض ڈھائی تین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اس سلسلے میں سیکورٹی والوں کے خدشات یہ بیان کیے گئے کہ اگر انڈین شہریوں کی ادھر کھلے بندوں آمدروفت شروع ہوگئی تو وہ لوگ اِدھر اُدھر پھیل کر کہیں سیکورٹی مسائل کا باعث تو نہیں بنیں گے۔ دوسری طرف سکھ دھرم کے ماننے والوں کی عقیدت کا یہ حال تھا کہ وہ بارڈر سے ادھر رخ کرتے ہوئے کرتارپور کی دھندلی سی سفید جھلک ملاحظہ کرنے کے لیے اتنے بے چین رہتے کہ بارڈر پر ایک جگہ بھارت سرکار نے اونچے سیکورٹی ٹاور کو’’ درشن پوائنٹ‘‘ کا نام دے رکھا ہے جہاں سے سکھ سنگت دوربینیں لگا کر بابا جی کے دربار کا درشن کرتے ہیں اور یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ہم سینکڑوں میلوں کا سفر کرتے ہوئے یہاں تک پہنچ جاتے ہیں تو آگے ڈھائی تین کلو میٹر کا سفر کیوں نہیں کر سکتے بہرحال کرتار پور اور ڈیرہ بابا نانک کے بیچ میں راوی پر پل بنانا ہو گا جہاں کسی زمانے میں بابا جی نہ صرف اشنان کیاکرتے تھے بلکہ راوی کنارے انہوں نے کئی چلے بھی کاٹے۔ سردار گنگا سنگھ ڈھلوں نے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ ہم پاکستا ن سے بھلا نفرت کیسے کر سکتے ہیں ہمارا تو ’’مکہ‘‘اور ’’مدینہ ‘‘ دونوں اس سرزمین پر ہیں ۔

چیئرمین ضلع کونسل احمد اقبال کے خیال میں کسی ایشو کی پیش بندی کے لیے اس مختصر خطے میں باڑ لگا کر بھی کام چلایا جا سکتا ہے ایسی صورت میں اگر کھول کر دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ کوئی بھی طریقہ اپنایا جائے اس امر میں کوئی شک نہیں کہ بابا نانک کی یادگار سکھ بھائیوں کے لیے عقیدت و محبت کا مرکز ہے ۔یہاں ایک خوبصورت بالاخانے میں گروگرنتھ کے پاٹ کا خصوصی اہتمام ہی نہیں ہے اردگرد یاتریوں کی سہولت کے لیے کافی کمرے بھی موجود ہیں۔ اب ان میں کافی اضافہ ہو چکا ہے۔ ان سب کی تزئین و آرائش بھی کی گئی ہے گردوارہ میں دو سمادھیاں ایک اندر قریباً وسط میں دوسری باہر ہے جس کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ بیرون والی اُس وقت کے مسلمانوں نے با با جی کی قبر یا یادگار کے طور پر بنائی تھی جبکہ اندروالی سماد ھی بابا جی کے سکھ مریدین نے تعمیر کی تھی کیونکہ ان کی وفات پر دونوں مذاہب کے پیروکار ان اپنے اپنے اسلوب میں آخری رسومات ادا کرنا چاہتے تھے۔ ہندوستانی بارڈر کے قر یب واقع ان کی سائیڈ پر جو ڈیرہ بابا نانک ہے اس کے متعلق بتایا گیا کہ وہاں ایک چوگا یا چولا (جبہ) محفوظ ہے جس پر قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں اور یہ انہیں بغداد کے حاکم نے تحفہ دیا تھا۔ ڈیرہ بابا نانک وہ مقام ہے جہاں بیٹھ کر با باجی اپنی تعلیمات کا پر چار کرتے تھے۔یہ کوریڈور یا راہ گزر بننے سے نہ صرف یہ کہ سکھ دھرم کے یہ دونوں مقدس مقامات باہم متصل ہو جائیں گے بلکہ ہر دو خطوں کے باسیوں میں مثبت جذبات پروان چڑھیں گے۔ یہ مرحلہ طے ہونے کے بعد خطے کے ہندوئوں اور مسلمانوں کو بھی یہ سہولت ملنی چاہئے کہ وہ بھی اپنے مقامات مقدسہ پر بلارکاوٹ آجا سکیں۔

ہمارے بہت سے لوگ ہیں جو حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی درگاہ پر اجمیر شریف جانا چاہتے ہیں یا حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی درگاہ پر حاضری و زیارت کی غرض سے جانا چاہتے ہیں۔ہمارے دو بڑے مکتب ہائے فکر ’’بریلوی‘‘ اور ’’دیوبندی‘‘ جن شہروں سے ابدی طور پر منسوب ہیں یہ دونوں اتر پردیش میں ہیں۔ وہیں ان کے بزرگوں کی آخری آرام گاہیں یا زیارتیں ہیں۔ اسی طرح ہندوئوں کے بھی کئی تاریخی مقدس مقامات پاکستانی خطے میں ہیں بالخصوص کٹاس راج کے تاریخی مندر جن کے تذکرے ان کی مقدس کتابوں میں موجود ہیں ۔ اگر ہم انسانی فلاح و بہبود اور عوامی ترقی چاہتے ہیں تو پھر اسی نوع کے بڑے فیصلے کرنا ہوںگے جو کرتار پور بارڈر کھولنے کی صورت کیا گیاہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین