• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں ایک ممتاز ماہر امراض قلب کے پاس بیٹھا تھا جسے عرف عام میں ہم ہارٹ اسپشلسٹ کہتے ہیں۔ ایک بزرگ مریض تشریف لائے۔ ڈاکٹر نے ان کی ای سی جی دیکھی، معائنہ کیا، نسخہ لکھا اور چار ہفتے مکمل آرام کرنے کا مشورہ دیا۔ وہ بزرگ کرسی سے اٹھے اور ایک قدم چلنے کے بعد رک گئے۔ ہم نے متجسس نگاہوں سے ان کی جانب دیکھا تو وہ کہنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب کیا مکمل آرام کے دورانئے میں کمی نہیں ہوسکتی۔ چار ہفتے کا آرا م طویل عرصہ ہے۔ ڈاکٹر نے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا کہ بزرگو! ”یہ آپ کی صحتکے لئے ضروری ہے“۔ بزرگ مریض نے مسکراکر جواب دیا ”ڈاکٹر صاحب زندگی تو کام کرنے کے لئے بنی ہے۔ قبرمیں آرام ہی کرتے رہنا ہے۔ مہربانی فرما کر چار ہفتوں میں کچھ رعایت کر دیں“۔ وہ بزرگ یہ بات کہہ کر چلے گئے اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے انہوں نے اپنے نہایت سادہ اندازمیں زندگی کا فلسفہ بیان کر دیا ہے۔
ہم عدیم الفرست لوگ ہیں۔ ہمیں نہ غور کرنے کے لئے فرصت میسر ہے اور نہ ہی عاقبت سنوارنے کے لئے… ہم زندگی کی رو میں اس طرح بہتے رہتے ہیں جیسے کاغذ کی کشتی ندی کے پانی پر بہتی ہے۔ اگر آپ غور کریں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ کائنات کا بنیادی فلسفہ اور بنیادی اصول ہی حرکت ہے، زندگی کا محور ہی جدوجہد ہے اور زندگی ہر لمحہ محو سفر ہے، ہر شے حرکت میں ہے اور حرکت ہی زندگی ہے۔ ساکن، ساکت اور بے حس صرف موت ہوتی ہے کارخانہ قدرت کی ہر شے سورج، چاند، ستارے، زمین حتیٰ کہ فضا میں اڑتے ذرات، پرند چرند ہر شے حرکت میں ہے اور جب حرکت ساکت ہو جاتی ہے تو اسے ہم موت کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسی حرکت کو اقبال نے ان لفظوں میں بیان کیا تھا کہ ”ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں“۔ یعنی ہر چیز حرکت کے نتیجے کے طور پر بدل رہی ہے۔ نہ ہم وہ ہیں جو بیس یا چالیس برس قبل تھے اور نہ ہی شہر اور آبادیاں وہ ہیں جو دو تین دہائیاں قبل تھیں۔ میں نے جس لاہور میں زندگی کا ایک حصہ گزارا ار طالب علمی کا زمانہ بسر کیا، موجودہ لاہور اس سے خاصا مختلف ہے میرے لاہور میں ہم پہروں شاہراہ قائداعظم پر ٹہلتے تھے کیونکہ گردوغبار، دھواں، ٹریفک کا شور اور ہجوم کا نام و نشان نہیں تھا، میرے لاہور میں ادبی محفلیں برپا ہوتیں، دوستوں کی محفلیں سجتی، مسکراہٹوں کے تبادلے ہوتے، محبت کی ندیاں بہتیں اور علم و ادب کے تذکرے ہوتے تھے۔ موجودہ لاہور ان تمام نعمتوں سے محروم ہو چکا ہے۔ آج کا طالب علم تصور ہی نہیں کرسکتا کہ ہمارے زمانہ طالب علمی کا لاہور کیا تھا۔ یہ سب کچھ حرکت اور تغیر کا کیا دھرا ہے۔ اسی کی طفیل انسان اتنا بدل جاتا ہے کہ اس کے چہرے پر ایک نیا چہرہ ابھر آتا ہے اور اسے پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ چند برس قبل میں کیمسٹ کی دکان سے نکل رہا تھا تو مجھے اپنے رشتے کے ایک ماموں نظر آئے میں نے انہیں تیس(30)برس کے بعد دیکھا تھا۔ چنانچہ ان کی طرف لپکا اور نہایت ادب اور گرمجوشی سے انہیں اسلام علیکم کہنے کے بعد ان کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔ انہوں نے چند لمحے میری جانب دیکھا اور نہایت معصومیت سے کہا ”عزیزم میں نے آپ کو پہچانا نہیں“۔ مجھے یوں لگا جیسے بجلی کا کرنٹ لگ گیا ہو بہرحال میں نے اپنے آپ کو سنبھالا، نام بتایا تو انہوں نے گلے لگا لیا اور بھینچ کر کہا ”تم اتنے بدل گئے ہو کہ میں پہچان نہ سکا“۔ اس میں ان کا قصور بھی نہیں تھا کیونکہ وقت چہرے کے نقوش بدل دیتا ہے۔ میں اگر اپنے کسی کلاس فیلو کو چالیس برس بعد دیکھوں تو شاید پہچان نہ سکوں کیونکہ قدرت کے کارخانے میں ہر لمحے تغیر و تبدل اور حرکت کی حکمرانی ہے۔ یہاں ابدیت، ثبات کسی شے کو بھی میسر نہیں بلکہ میرا تجربہ تو یہ ہے کہ صرف چہرے ہی نہیں بدلتے، لوگ بھی بدل جاتے ہیں۔ میں نے بڑے بڑے ملائم اور مخلص لوگوں کو تکبر کے گھوڑے پر سوار ہوتے دیکھا اور بڑے بڑے بااخلاق حضرات کو شہرت اور دولت آنے کے بعد زبان درازی کی منزلیں طے کرتا دیکھا، بظاہر بامروت حکمرانوں کو اقتدار اور اختیار کے نشے میں لوگوں سے کیڑے مکوڑوں کی مانند حقیر سلوک کرتے بھی دیکھا۔ میں نے زندگی کے اس حیرت کدے میں بڑے بڑے مغرور اور متکبر لوگوں کو ذلیل و رسوا ہوتے بھی دیکھا کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہر گناہ معاف کر دیتا ہے سوائے تکبر کے اس لئے کہ تکبر شرک ہے اور تکبر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفت ہے۔ بہرحال جاندار شے صرف اس لئے جاندار ہے کہ وہ حرکت میں ہے اور حرکت ہی زندگی ہے لیکن بظاہر جو چیزیں بے جان نظر آتی ہیں دراصل وہ بھی جاندار ہوتی ہیں صرف ہم محسوس نہیں کرسکتے اور نہ ہی ان میں زندگی کے آثار دیکھ سکتے ہیں بظاہر درخت بے جان ہوتے ہیں لیکن مولانا روم نے اپنی مثنوی میں اس مسئلے پر یوں روشنی ڈالی ہے”میں نے یہ بات کہی کہ پتھر اور لکڑی بھی روحانی کلام کو سنتے ہیں۔ اس سلسلے میں استوانہٴ حنانہ کا قصہ سن لو ۔ حنانہ مسجد نبوی میں گاڑا گیا کھجور کا تنا تھا جس کے ساتھ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگا کر درس دیا کرتے تھے پھر منبر بنا لیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر بیٹھ کر وعظ و تدریس کرنے لگے۔ مولانا روم کی مثنوی کے چند اشعار کا ترجمہ پڑھئے”حنانہ ستون رسول کی جدائی میں سمجھداروں کی طرح روتا تھا۔وعظ کی مجلس کے دوران اس طرح رویا کہ رسول کے صحابہ حیرت میں پڑ گئے کہ ستون لمبائی اور چوڑائی کے ساتھ کیوں روتا ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”اے ستون تو کیا چاہتا ہے“۔ ستون بولا کہ ”میری جان آپ کے فراق سے خون ہوگئی ہے۔ اے جان عالم!میں آپ کے بغیر کیوں نہ روؤں۔ میں آپ کی مسند تھا اور اب آپ نے منبر پر مسند بنالی“۔ تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے بھلے درخت اگر تو چاہتا ہے تجھے کجھور بنا دیں۔ مشرق اور مغرب کے لوگ تیرا میوہ چنیں“۔ بولا ”میں وہ چاہتا ہوں کہ جس کی بقاء دائمی ہو“…
اس ستون کو زمین میں دفن کر دیا گیا جو انسانوں کی طرح قیامت میں اٹھایا جائے گا… وہ شخص جس کو اسرار کی بخشش نہ ہو، وہ بے جان کے رونے کی کب تصدیق کرتا ہے“۔ (مثنوی مولانا روم، دفتر اول: ص251) گویا بے جان اشیاء بھی بے جان نہیں ہیں لیکن ان کی جان کی تصدیق صرف وہی کرسکتا ہے جسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسرار کی بخشش سے سرفراز کیا ہو۔
حاصل کلام یہ ہے کہ کارخانہ قدرت میں حرکت اور جدوجہد کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا البتہ یہ کہ جدوجہد کے باوجود کتنا اور کیونکر حاصل ہوتا ہے اس پر انسان کا اختیار نہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ مقدر اور جدوجہد کا آپس میں گہرا رشتہ ہوتا ہے کیونکہ جدوجہد کے بغیر مقدر کا درخت پھل نہیں دیتا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک ہی جتنی محنت اور جدوجہد کرنے والوں کو پھل اپنے اپنے مقدر کے مطابق ملتا ہے۔ بقول صوفی شاعر میاں محمد بخش مالی کا کام پانی دینا ہے۔ وہ بھربھر کر پانی کی مشکیں ڈالتا ہے۔ مالک کا کام پھل پھول لگانا ہے وہ لگائے یا نہ لگائے وہ کم لگائے یا زیادہ یہ اس کی رضا، یہ اس کی مرضی، جس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے اس لئے جو لوگ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے آسمانی انعامات کا انتظار کرتے ہیں وہ عام طور پر محروم رہتے ہیں جب تک کہ یہ روحانی سفر میں ”توکل“ کا پڑاؤ نہ ہو۔
حضرت مریم علیہا السلام اللہ تعالیٰ کی برگزیدہ شخصیت تھیں اور حضرت عیسیٰ علیہا السلام جیسے پیغمبر کی والدہ ماجدہ بھی تھیں جب وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ویرانے میں جنم دینے کے بعد نہایت پریشان حال، غمزدہ اور تفکرات میں گھری ہوئی تھیں تو آواز آئی ”تیرے رب نے تیرے پاؤں تلے چشمہ جاری کر دیا ہے پھر آواز آئی کہ ”کھجور کے تنے کو ہلا اور تازہ کھجوریں کھا“… (چین سے کھا پی اور آنکھیں ٹھنڈی رکھ) غور کرنے کا نقطہ صرف یہ ہے کہ جو مالک ارض و سماء اچانک چشمہ جاری کرنے اور درخت پر کھجوریں اگانے پر قادر تھا، وہ لیٹے لیٹے حضرت مریم علیہا السلام کے منہ میں بھی کھجوریں ڈال سکتا تھا لیکن حکم ہوا کہ تنا ہلا۔ یعنی تنا ہلاؤ گی تو کھجوریں گریں گی۔ مطلب یہ کہ حرکت کر، کوشش کر پھر کھجور کے تروتازہ پھل کا انعام ملے گا۔ پیغام یہ ملا کہ کائنات کا نظام حرکت پر قائم ہے اور یہی کارخانہ قدرت کا بنیادی اصول ہے۔ رب کے محبوب ہمارے نبی کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا ہر لمحہ جدوجہد کا عملی نمونہ تھی۔ گویا جدوجہد اللہ سبحانہ تعالیٰ کو پسند ہے اور یہی پیغام ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے۔ زندگی ہر لمحہ، ہر لحظہ بدل رہی ہے، کائنات کی ہر شے حرکت میں ہے اور دنیا محو سفر ہے۔ اسی حرکت کو ہم زندگی سمجھتے ہیں۔ زندگی محدود ہے لیکن حرکت اور سفر لامحدود۔ اس سفر کا مرکزی نقطہ جدوجہد ہے اور راز حیات حرکت میں مضمرہے بقول اقبال:
کچھ ہاتھ نہیں آتا، بے آہ سحر گاہی
نوٹ: گزشتہ کالم میں جلیانوالہ باغ کے سانحے (1919)کے حوالے سے پنجاب کے گورنر کا نام غلط چھپا تھا۔ اس کا نام سرمائیکل اوڈائر(Sir Michael O' Dwyer)۔ جلیانوالہ باغ میں قتل عام کرنے والے کا نام تھا جنرل ڈائر… قارئین نوٹ فرما لیں۔
تازہ ترین