• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانوی عدالت نے حیدرآباد دکن کی ایک خاتون کو قتل کی مجرم قرار دیا ہے۔ 33 سالہ سارہ ایج پر الزام تھا کہ اس نے اپنے سات سال کے بیٹے یاسین کو مار مار کر ہلاک کیا۔ بچّے کا قصور یہ تھا کہ اس کو قرآن حفظ کرنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ سارہ نے اپنا جرم چھپانے کے لئے بیٹے کی لاش بسترمیں ڈال کر اس میں آگ لگادی۔ آگ بجھانے والا عملہ یہی سمجھا کہ وہ دھوئیں سے دم گھٹنے کی وجہ سے ہلاک ہوا ہے لیکن جب بچّے کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پتہ چلا کہ وہ جلنے سے پہلے مر چکا تھا، اس کی پسلیاں، ایک بازو اور ایک انگلی ٹوٹی ہوئی تھی اور اس کے پیٹ پر ضربیں لگی تھیں۔ سارہ کے 38 سالہ شوہر یوسف ایج پر الزام تھا کہ اس کی بیوی اپنے بیٹے پر دو سال سے تشدد کررہی تھی لیکن یوسف بچّے کی جان بچانے میں ناکام رہا۔ مگر مقدمے کی سماعت کرنے والی جیوری نے اسے بَری کردیا۔کمسن یاسین کے اسکول والوں کو اندازہ تھا کہ ذہین اور ہنس مکھ بچّہ کسی کرب سے گزر رہا ہے۔ ایک بار اس کی انگلیاں اتنی زخمی تھیں کہ وہ قلم نہ پکڑ سکا ۔ ایک مرتبہ اس کی پشت پر ایسی مار پڑی تھی کہ وہ اسکول کی کرسی پر بیٹھ نہ سکا۔ قتل کے بعد سارہ نے پولیس کو جو پہلا بیان دیا اس میں اس نے اعتراف کیا کہ وہ یاسین کو زدوکوب کیا کرتی تھی کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ یاسین تیزی سے حفظ کرے لیکن وہ ماں کی توقع پر پورا ا نہیں اتر رہا تھا۔ عدالت میں سارہ کے شوہر کی وکیل نے بتایا کہ اعترافی بیان کا سب سے المناک حصہ وہ تھا کہ جب یاسین مر رہا تھا، وہ اس وقت بھی ماں کو خوش کرنے کے خیال سے حفظ کی ہوئی آیات سنا رہا تھا۔ وہ کسی طرح اپنی تکلیف چھپا لیتا تھا تاکہ ماں پر حرف نہ آئے اور ماں سے کہا کرتا تھا کہ میں جانتا ہوں یہ آپ میرے بھلے کی خاطر کر رہی ہیں۔ مقدمے کا فیصلہ سننے کے لئے سارہ کے رشتے دار بھارت سے آئے تھے۔ اس کے شوہر کے رشتے دار بھی عدالت میں موجود تھے۔ جیوری نے سات گھنٹے غوروخوض کے بعد جب اسے قتل کی مجرم قرار دیا تو وہ اپنا چہرہ چھپا کر رونے لگی۔ جج نے کہا کہ تمہاری سزا عمر قید ہے اور تمہیں کتنے سال جیل میں رہنا ہوگا، اس کا فیصلہ نئے سال کے دوران سنایا جائے گا۔ اس ساری داستان کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔یہاں برطانیہ کے دینی مدرسوں میں جہاں والدین اپنے بچوں کو بڑے چاؤ سے بھیجتے ہیں، مولوی حضرات چھڑی کے استعمال میں اپنا ہاتھ کھلا رکھتے ہیں۔ ایک بار کسی خاتون نے ان مدرسوں کی فلم بنا کر ٹیلیویژن پر چلا دی تھی تو لوگوں نے اس کا برا منایا اور احتجاج کیا۔ نام نہاد پیروں فقیروں اور عملیات کے جعلساز ماہروں کے ہاتھوں جوان بچیوں کے مرنے کے منظر ہم نے کئی بار دیکھے ہیں۔ پسند کی شادی کرنے والوں کی جو درگت یہاں مغرب میں بنتی ہے وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ لڑکی کے بھائی خنجر لئے لڑکے کو گلی گلی ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اب رہ گئے دوسرے جرائم، ان کی داستان کچھ زیادہ ہی طویل ہے۔ دل دکھانے والی یہ کہانیاں شروع شروع میں تو نیندیں اڑا دیتی تھیں لیکن اب اتنی عام ہوتی جارہی ہیں کہ دل کا دکھنا کم ہوگیا ہے۔ یہی حال کراچی میں صبح وشام ہونے والی ہلاکتوں کا ہے۔ روزانہ اتنی لاشیں گر رہی ہیں کہ جب ان کی تعداد کا ذکر ہوتا ہے تو کچھ اس طرح کہ آج کا اسکور کتنا ہے۔ کئی بار ٹیلیویژن پر یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بیٹے کے غم میں باپ نڈھال تو ہے لیکن پھوٹ کر رو نہیں رہا ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ پے درپے ہلاکتوں کے بعد لوگوں کے آنسو خشک ہوتے جارہے ہیں۔ مجھے گوجرانوالہ کے ایک بزرگ کی بات یاد آتی ہے ۔ کہنے لگے کہ ہمارے زمانے میں جب کبھی آندھی آتی تھی تو لوگ کہا کرتے تھے کہ کہیں کوئی قتل ہوا ہے مگر اب تو یہ حال ہے کہ قتل اتنے زیادہ ہونے لگے ہیں کہ آندھیوں نے آنا ہی چھوڑ دیا ہے۔میں ایک بار پھر آتا ہوں کمسن یاسین کی ہلاکت کی طرف۔جب کوئی بے قصور اور معصوم بچّوں پر ظلم کرتا ہے تو ایک بات ذہن میں آتی ہے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ قدرت نے بچّوں کی آنکھوں میں جو بھولپن بھرا ہے اس میں ہمارے خد و خال بنانے والے کی کیا مصلحت ہے۔ وہ یہ کہ جب ننھا بچّہ اپنی پلکیں اٹھا کر آپ کو دیکھے تو آپ کو اس پر لاڈآئے اور وہ آئے جسے کسی زمانے میں دُلار کہا جاتا تھا۔ ایسے میں اگر کوئی کمسن بچّے پر ظلم توڑتا ہے تو بہت ممکن ہے کہ خود وہ کسی اذیّت کا شکار ہو اور اپنے اندر کا سارا غبار اُس بچے پر نکال رہا ہو۔ورنہ انسانی عقل تسلیم نہیں کر سکتی کہ کوئی کمسن بچّوں پر مظالم ڈھا سکتا ہے۔
سارہ ایج کے واقعے میں چھپی تشویش کو نظر انداز نہ کیا جانا چاہئیے ۔ ایک بار کسی مورّخ نے کہا تھا کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس سے پہلے کچھ ہوچکا ہوتا ہے۔ اب اس فقرے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے، اس کے بعد بھی کچھ ضرور ہوتا ہے۔ مغربی ملکوں میں آکر بسنے والوں نے پچاس سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود نہ اپنی خو بدلی ہے نہ اپنی وضع۔ شرمندگی اور ندامت کے جتنے اسبا ب وہ اپنے ہمراہ لے کر آئے تھے، وہ جوں کے توں ثابت و سالم ہیں اور ان میں کیا مجال جو کوئی کمی یا تبدیلی آئی ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مقامی باشندے اس پر خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟۔ تازہ مثال ہالینڈ کی ہے جسے نیدرلینڈ بھی کہا جاتاہے۔ اگلے سال وہاں قانون بدلنے والے ہیں۔ ملک کی آبادی میں چھ فی صد سے زیادہ مسلمان تارکین وطن ہیں جو خود کو بدلنے اور مقامی روایات میں حصہ دار بننے کے روادار نہیں۔ ان کا لباس، ان کی بولی،کھانا پینا، رہن سہن، طور طریقے، عادات و اطوار سب کے سب ایسے ہیں گویا ابھی کل ہی ترکِ وطن کرکے آئے ہیں۔ بچّے اسکول میں وہ کہانیاں پڑھنے سے انکار کرتے ہیں جن میں سور کا لفظ آتا ہو اور سبب یہ بتاتے ہیں کہ گھر والوں نے منع کیا ہے ، اسی طرح یہ بچّے انسان کی تصویر بناتے ہیں تو چہرے پرناک منہ اور آنکھیں نہیں بناتے اور سبب اس کا یوں بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے روز ان سے کہا جائے گا اب اس میں جان ڈال کر دکھاؤ۔
ہالینڈ والے بہت عرصے تک تو یہ سب دیکھتے رہے او ر ہر طرح کے گھونٹ پیتے رہے، اب وہا ں یہ آواز اٹھی ہے کہ یہ تو ملک میں ایک متوازی معاشرہ بنتا جا رہا ہے جو آگے چل کر سوسائٹی کو توڑ دے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ پردیسیوں کو معاشرے میں ضم کرنا حکومت کا کام نہیں۔ چنانچہ ہالینڈ والے ان اجنبی لوگوں سے اب یہ کہنے لگے ہیں کہ ہالینڈ میں رہو تو ہالینڈ والے بن کر رہو۔ اس فقرے کا اگلا حصّہ انہوں نے روک رکھا ہے اور وہ یہ کہ اگر نہیں رہ سکتے تو جہاں کے ہو وہیں رہو۔
تازہ ترین