• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رانا ثناء کہتے ہیں الیکشن قریب آتے ہی عمران پر گھبراہٹ کیوں طاری ہے۔ سیاستدانوں کا بھی ایک ضابطہ اخلاق ہوتا ہے، اگر ثنا ء سے پہلے رانا کا سابقہ لگ سکتا ہے تو عمران کے ساتھ خان کا لاحقہ کیوں نہیں لگایا گیا۔ اگر رانا ثناء اللہ علیہ ماعلیہ کا بیان الٹا دیا جائے تو یہ سیدھا ہو سکتا ہے مگر ہم اس کی کوشش کیوں کریں، آخر 18کروڑ عوام بھی تو دل و دماغ رکھتے ہیں، وہ خود ہی الٹ پھیر کر دیں گے۔
مسلم لیگ نون کوئی مذاق نہیں اور عمران خان بھی کوئی قزاق نہیں، سب نے اپنی اپنی مقناطیسی قوت سے ووٹرز کھینچنے ہیں، سرِ دست تو سیاسی منظر نامے پر جو تصاویر نمودار ہو رہی ہیں، اُن کو دیکھ کر اور کیا کہیں
اُس ستم گر نے بگڑنے ہی کو جب بننا کہا
رفع شر کے واسطے ہم نے بھی آمنّا کہا
رانا ثناء کو دیکھ کر سن کر یوں لگتا ہے کہ یہ نون لیگ کے ثنا بچہ ہیں، وہ بھی شیرنی کی طرح بولتی ہے، اور یہ بھی چیتے جیسی چھلانگ لگاتے ہیں۔ بولنے کی رفتار میں کچھ فرق زن و مرد کے باعث ہے، اس کی خیر ہے۔ رانا ثناء اللہ اچھے قسم کے ووفر ہیں ، وہ اپنی جماعت کے ایمپلی فائر کی خوب ترجمانی کرتے ہیں، راجپوت ہیں، مونچھ پر تاؤ دے کر بیان دیتے ہیں تو بیان میں قدرے تناؤ پیدا ہو جاتا ہے، تحریک انصاف کی سونامی کو محاوراتی نہ سمجھا جائے،
زمانہ نون کو سمجھے ہوئے ہے مشعلِ راہ
کسے خبر کہ خان بھی ہے صاحب ِ ادراک
#####
آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ خدانخواستہ پی پی نے جو اتحادی بنائے ہیں، وہ آئندہ انتخابات میں اسی حجم کے ساتھ اُس کا ساتھ دیں گے یا اِدھر اُدھر ہو جائیں گے۔ بظاہر ایسا ہے بھی اور نہیں بھی، صدر آصف زرداری اس معاملے میں بہت زیرک ہیں، وہ ضرور کوئی پیش بندی کر چکے ہوں گے یا عین موقع پر پٹاری سے کچھ نکال کر حیران کر دیں گے۔ دولت، محبت اور اقتدار میں بڑی طاقت ہوتی ہے، تاحال وہ ان تینوں یا پہلی دو آئٹمز کا استعمال کریں گے لیکن سوچنے والی بات جو زبان زدِ عوام ہے وہ پانچ سالہ ”گڈ گورننس“ ہے جس میں کرپشن نے آسمان چھو لیا، قومی مفاد پر اقتدار کو برقرار رکھنے کو فوقیت دینے کیلئے، ان پانچ برسوں میں کراچی کے معاملات سمیت اتحادیوں کی کئی بے اعتدالیوں کو قبول کرنا پڑا، پاکستان پیپلز پارٹی اگر چاہے تو ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے کی حیثیت بھی حاصل کر سکتی ہے لیکن اُس کے لئے کایا پلٹ کی ضرورت ہوگی جسے زرداری قبول کر لیں تو وہ شاید لیلائے اقتدار کے آس پاس نہ رہ سکیں۔ اب وصل کی امید تو کچھ مدھم پڑتی جا رہی ہے، تاہم مسلم لیگ نون بھی پرچم کو شاید گرنے نہ دے، کیونکہ
جو بڑھ کر تھام لے مینا اُسی کا ہے
ابھی صورتحال پر سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں، اس لئے سیاسی رویت ہلال کو گنتی پوری کر کے کوئی اعلان کرنا ہوگا۔
#####
وفاقی وزیر اطلاعات کائرہ نے کہا ہے پاکستان حالت ِ جنگ میں ہے، دفاعی اخراجات کم نہیں کرسکتے۔
وزیر اطلاعات خاصے سیانے وزیر ہیں، ہوائے کثیف کو ہوائے لطیف کے اخراج سے کور کر سکتے ہیں، جس ملک میں روزانہ اربوں کے حساب سے کرپشن ہو وہاں دفاع کے لئے کیا بچے گا، ہم حالت ِ جنگ میں نہیں حالت بے نام و ننگ میں ہیں
کروں میں کس طرح اس دورِ انقلاب کی مدح
ہنوز نثر میں جائز نہیں شراب کی مدح
پاکستان واقعتاً دفاعی اعتبار سے بھارت کے مقابلے میں مضبوط نہیں اور عساکر ِ وطن کو دفاعی ساز و سامان کی ضرورت ہے۔ یہ تو چین جیسے دوست کی مہربانی ہے کہ اُس نے ہماری فضائیہ کو تقویت دی، اگر حکومت پانچ برسوں میں بچت کرتی ، کرپشن کا خاتمہ کرتی، لوٹی ہوئی دولت واپس لاتی تو آج کائرہ کو یہ بیان دینے کی زحمت ہی نہ اُٹھانا پڑتی۔ قمر الزمان کائرہ ایک اچھے پڑھے لکھے بردبار وزیر اطلاعات ہیں لیکن سورج کو سیاہ بادل کب تک چھپا سکتے ہیں۔ ہر رکن اسمبلی کو عہدئہ وزارت چاہئے اور حضرت عمر  نے فرمایا تھا جو کسی عہدے کا مطالبہ کرے وہ اس کا اہل نہیں۔ اگر اس اصول کو مان لیا جائے اور رائج کر دیا جائے تو یہاں صرف طالع آزماؤں کے غول نظر آئینگے صبر آزماؤں کا نشان نہیں ملے گا۔
#####
ق لیگ کی قیادت صدر زرداری سے فیصلہ کن مذاکرات کرے گی۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت مسلم لیگ ق کے ارکان پارلیمنٹ کو توڑنے میں مصروف ہے، خیبر پختونخواہ میں بھی ایسا ہوا۔ ق لیگ کو اپنے ہی علاقے میں جو ”لیکاں“ لگ گئی ہیں اب اُس کے بعد وہ پہلا سا اعتدال کہاں، بارگاہِ آصفیہ زرداریہ میں اس کی پذیرائی پہلے جیسی نہیں رہی کیونکہ زرداری گلے لگانے کے تو بہت ماہر ہیں مگر فائدہ نہ ہو پھر صرف ہاتھ ملانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ ایک بھاری بھرکم کولیشن گورنمنٹ بنانے کے چکر میں ہیں، اس لئے اب دیکھا جائے تو صدر کے پاس اور کوئی چوائس بھی نہیں۔ ماسوا اس کے کہ وہ قاف لیگ اور خیبر پختونخواہ کی اے این پی کو توڑ تاڑ کر اپنی کھٹارا گاڑی جوڑنے اور چلانے میں کامیاب ہو جائیں۔ یہ اقتدار بیگم بھی ایک ایسا آکٹوپس ہے کہ جو ایک دفعہ اس کے بالوں کی زد میں آ گیا وہ اس سے چھوٹ کر بھی اس میں پھنسنے کے لئے رسہ تڑاتا ہے، لیکن اب اس بات کے امکانات کم نظر آتے ہیں کہ قتیلان پنج سالہ پھر سے کرب و بلا کی وادی میں اتریں، لوگ کچھ اس طرح سے بکھریں گے کہ ممکن ہے کوئی بھی حکومت بنانے میں کامیاب نہ ہو سکے البتہ کھیل خراب کرنے کا عمل زور شور سے جاری رہے گا اور تمام سیاسی پلٹن کی حالت یہ ہو گی کہ
چیخے، چلائے، کودے، اچھلے
ہر پھر کے وہیں رہے جہاں تھے پہلے
حالت تو وہی ہے بلکہ اس سے بدتر
یوں منہ سے جو جس کے دل میں آئے کہہ دے
تازہ ترین