• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ایک اکھڑ مزاج آدمی ہوں،بیزار بھی کہہ سکتے ہیں، سہل پسند ہوں، ماحول سے جلد اکتا جاتا ہوں، کوئی بندہ پسند نہ آئے تو قد آدم گالی بن جاتا ہوں، ہر کام اپنی مرضی کے مطابق کرنا چاہتا ہوں اور اس کے علاوہ بھی میری شخصیت میں کئی کمزوریاں ہیں جو کسی بھی خطاکار انسان میں ہو سکتی ہیں ۔میرے دوست بعض اوقات میری شخصیت کے اِن پہلوؤں سے تنگ آ جاتے ہیں، چونکہ وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں اس لیے مجھے برداشت کرتے ہیں، میرے روکھے پن پر جملے کستے ہیں اور میری ’’فرعونیت‘‘ پر جُگتیں لگاتے ہیں،وہ میری اکتائی ہوئی طبیعت کا بھی برا نہیں مناتے بلکہ الٹا اکثر اوقات میرے ناز نخرے اٹھاتے ہیں صرف اس وجہ سے کہ وہ میرے دوست ہیں۔ یقیناً کچھ ایسی خرابیاں بھی ہوں گی جن کا اظہار وہ میرے سامنے نہیں کرتے اور عین ممکن ہے کوئی بات ایسی بھی ہو جو اگر کسی اور شخص میں ہوتی تو وہ بالکل بھی برداشت نہ کرتے مگر میں جیسا بھی ہوں، اچھا یا برا، میرے دوست مجھے قبول کر چکے ہیں، میری تمام تر نامعقولیت کے باوجود۔ ہم دوستوں میں ہر موضوع پر بحث بھی ہوتی ہے، مذہب، سیاست، سماج، ثقافت، اکثر اوقات ہمارا نقطۂ نظر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتا ہے، ہم ایک دوسرے پر طنز کے تیر بھی برساتے ہیں، انتہا درجے کی جملے بازی بھی کرتے ہیں اور ایسی ایسی باتیں بھی کر جاتے ہیں جو شاید کوئی دوجا اگر ہم سے کرے تو ہم تحمل سے برداشت نہ کر سکیں، مگر ہم آپس میں چونکہ دوست ہیں سو ایک دوسرے کی نیت پر شک نہیں کرتے، بحث کرتے وقت صرف یہ سوچ ہوتی ہے کہ ہم سب کا مقصد کسی دوست کی تضحیک یا توہین نہیں بلکہ درست بات کی نشاندہی اور سچائی کی تلاش ہے۔

دوستی یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ٹریفک کی طرح ہوتی ہے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ دوست آپ کو برداشت کریں، آپ کی خرابیوں کو نظر انداز کریں، صرف اچھائیوں کابیان کریں، آپ کی نیک نیتی پر شک نہ کریں تو یہی وتیرہ آپ کا بھی ہونا چاہیے، آپ بھی اپنے دوستوں کو وہی چھوٹ دیں جو آپ اُن سے اپنے بارے میں مانگتے ہیں، وہی رعایت انہیں دیں جو آپ اُن سے چاہتے ہیں، وہی جملے بازی اُن پر کریں جو آپ خود بھی برداشت کر سکتے ہیں اور وہی حسن ظن اُن کے بارے میں بھی رکھیں جو آپ کے خیال میں انہیں آ پ کی ذات کے بارے میں رکھنا چاہیے۔ دوستوں کے بھی مختلف درجے ہوتے ہیں، ہر ہاتھ ملانے والا دوست نہیں ہوتا، کئی لوگ جو آپ سے بظاہر محبت سے ملتے ہیں، جھک کر مصافحہ کرتے ہیں، گرم جوشی سے معانقہ کرتے ہیں، وہ آپ کی غیر موجودگی میں آپ کی ذات با برکت کی وہ جملہ برائیاں بھی بیان فرماتے ہیں جو سرے سے آپ میں پائی ہی نہیں جاتیں۔ اسی طرح ہم کچھ لوگو ں کو دوست سمجھ کر ایسی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں جو وہ پوری نہیں کر پاتے اور یوں ہم نہ صرف مایوس ہو تے ہیں بلکہ اُس سے بد ظن بھی ہو جاتے ہیں ۔ہر شخص میں دوستی کے قابل نہیں ہوتا، دوستی او ر سماجی میل ملاپ میں فرق ہوتا ہے، ہم میں سے اکثر لوگ معاشرتی میل جول کو دوستی سمجھ بیٹھتے ہیں اور غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ اکثر معاملات میں یہ میل جول آپ کی پوزیشن اور معاشرتی حیثیت کی وجہ سے ہوتا ہے اور لوگ اس لئے آپ سے تعلق رکھنا چاہتے ہیں کہ آپ اُن کے کام آئیں گے، ایسا بھی نہیں کہ وہ بالکل ہی مطلبی اور مفاد پرست ہوتے ہیں مگر حقیقی معنوں میں یہ دوستی نہیں ہوتی۔امریکیوں کی ایک عادت مجھے پسند ہے، اکثر وہاں جب کوئی کسی کی مصیبت میں کام آتا ہے تو احسان مند شخص ایک جملہ بولتا ہے کہ I owe you oneیعنی تم نے مجھ پر جو احسان کیا ہے وقت آنے پر میں اس کا بدلہ چکاؤں گا، اور اگر ایسا کوئی موقع آ جائے اور وہ شخص احسان چکا دے تو ایسے موقع پر وہ کہتا ہے we are even nowیعنی حساب برابر۔ادھر اپنا یہ حال ہے کہ دیار غیر میں بسنے والے پاکستانی اکثر مجھے فون کرتے ہیں اور حسب روایت ملک کا رونا رونے کے بعد کسی نہ کسی نامور شخص کی بدخوئی شروع کر دیتے ہیں، میں جواب میں کہتا ہوں کہ پلیز ایسی بات نہ کریں وہ صاحب ہمارے دوست ہیں اور اچھے آدمی ہیں تو وہ فوراً پینترا بدلتے ہوئے کہتے ہیں ’’جی جی، وہ میرا بھی پچیس سال سے دوست ہے، بڑا پیارا بندہ ہے، مگر بات یہ ہے کہ …‘‘ پھر چل سو چل۔یعنی ایک ہی سانس میں پچیس سال کی رفاقت گئی بھاڑ میں۔

دوستی نبھانا بے حد مشکل کام ہے، اٹھتے بیٹھتے آبگینوں کو ٹھیس لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے، روز روز نئے دوست بھی نہیں بنائے جاتے، دوستی اندھے اعتماد کا نام ہے اور یہ جنس آ ج کل بازار میں نایاب ہے، ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ سو جنہیں آپ اپنا جگری دوست سمجھتے ہیں، جنہیں آپ نے مختلف اوقات میں ٹھوک بجا کر چیک کر لیا ہے، اُن پر اعتماد کریں، دوستی اس اعتماد کے بغیر بیکار ہے اور زندگی دوست کے بغیر ایسے ہے جیسے ایرانی فلم، بے مزا، پھیکی اور بے کیف، نہ کوئی گانا نہ ہیروئن۔ دوستوں کے ساتھ جان مارنا پڑتی ہے، حقیقی دوست کے ساتھ صرف قہقہے نہیں لگائے جاتے بلکہ اُس کے دکھ درد کو بھی اپنا سمجھا جاتا ہے، یہ بات کہنا آسان اور کرنا مشکل ہے ۔ہمارے ہاں اکثر برسوں پرانی دوستیاں پل بھر میں ختم ہو جاتی ہیں، اُس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقی معنوں میں وہ دوستی کبھی ہوتی ہی نہیں، ایک ہی دفتر میں کئی برس تک اکٹھے کام کرنے کی وجہ سے یا کاروباری شراکت کی وجہ سے دوستی ہو جاتی ہے کیونکہ وہ لوگ روزانہ کی بنیاد پر ایک دوسرے سے مل رہے ہوتے ہیں مگر جونہی دفتر یا شراکت دار تبدیل ہوتے ہیں اور میل ملاقات کم ہوتی ہے دوستی بھی معدوم ہوتی چلی جاتی ہے کیونکہ اُن لوگوں کو ایک دوسرے کی طلب باقی نہیں رہتی۔ سو دوست وہ ہوتا ہے جو کو آپ مِس کرے، وہ نہیں ہوتا جو مِس ہوجائے تو بھول جائے۔

دوستی کی سب سے بڑی دشمن ہماری انا ہے، جانے ان جانے میں اگر کوئی دوست ہماری انَا کو ٹھیس پہنچا دے تو ہم سے یہ بات ہضم نہیں ہوتی، اکثر لوگ اُس ایک لمحے میں وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں جو دوست کی حیثیت سے ہم نے ایک دوسرے کی خاطر کیا ہوتا ہے، اُس وقت سب کچھ بھول بھال کے ہم صرف انا پرست ہو جاتے ہیں، یہ رویہ دوستی کے لیے زہر قاتل ہے۔ کھلے ڈلے دوستوں کے درمیان ہر قسم کی گفتگو ہوتی ہے اور اس میں وہ تمام باتیں کی جاتی ہیں جو ہم عام ملنے جلنے والوں سے نہیں کرتے، مگر نہایت بے تکلف دوستوں کے درمیان بھی ایک ان کہا معاہدہ ہوتا ہے جو دوستوں کو احساس دلاتا ہے کہ کب اور کس موقع پر سُرخ لکیر عبور نہیں کرنی۔ دوستی جتنی گہری ہوتی ہے یہ سُرخ لکیر اتنی ہی مدھم ہوتی جاتی ہے۔ کوشش کریں کہ کبھی یہ سُرخ لکیر دوستی میں آڑے نہ آئے۔

تازہ ترین