• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1970میں کاروبار کے سلسلے میں ہانگ کانگ جانے کا اتفاق ہوا ۔اُس زمانے میں ہانگ کانگ پر برطانیہ کا راج تھا۔ہمارے ایک چینی کاروباری دوست اتوار کی چھٹی میں ہانگ کانگ گھمانے لے گئے ۔ہانگ کانگ ویسے تو مکمل سمندری علاقے پر مشتمل جزیرہ ہے مگر اس شہر میں ایک پہاڑی بھی ہے جس کو پیک (Peak)کہتے ہیں ۔یہاں شہر سے پیدل اس پہاڑی پر چڑھا جاسکتا ہے، دوسرا راستہ پیک ٹرین سے ہے یا پھر لہراتی سڑک کے راستے گاڑیوں سے بھی جایا جاسکتا ہے ۔اس پہاڑی پر چڑھنے کے بعد پورے ہانگ کانگ کا نظارہ ہوتاہے جو خصوصاً رات کو تو بہت دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔ہم گاڑی سے اس پیک پر پہنچے ،گاڑی پارکنگ لاٹ میں کھڑی کی اور پیدل چہل قدمی کرنے لگے ۔اس پہاڑی پر دکانیں ،ریسٹورنٹس اور ناولٹیس Novaltiesبیچنے والوں کے ٹھیلے بھی تھے۔ایک کونے کی پگڈنڈی پر اوپر چڑھیںتو ایک چینی جھونپڑا تھا ۔میرے میزبان نے بتایا اس جھونپڑے میں ایک 80،نوے سال کا سیاسی بوڑھا رہتاہے۔جو قسمت کا حال بتاتا ہے ہم بہ حیثیت مسلمان تو نہیں مانتے کیونکہ صرف خدا ہی غیب کا علم جانتا ہے۔ مگر نوجوانی میں کھلبلی ہوئی سوچا اس کو آزماتے ہیں ۔اُس جھونپڑے میں زمین پر تنکوں کی چٹائی بچھی ہوئی تھی وہ بوڑھا بھی چینی طرز کی پیلی چادر جو عام طور پر سادھو پہنے ہوتے ہیں پہنے ہوا تھا ۔اتفاق سے اکیلا تھا ہم دونوں آلتی پالتی مارکر اُس کے اردگرد بیٹھ گئے ۔ہمارے چینی دوست نے ہاتھ جوڑ کر چینی میں کچھ کہا اُ س نے ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا کہ پوچھو کیا پوچھنا ہے۔چینی دوست نے مجھ سے انگریزی میں پوچھا، کیا پوچھنا ہے میں نے آزمانے کے لئے 2سوال کئے ایک میری قسمت میں کب سفر ہے چونکہ میں ایک ہفتے کے بعد تائیوان جانا چاہتا تھا اُن دنوں تائیوان کا ویزہ صرف ہانگ کانگ سے پاکستانیوں کو ملتا تھا ۔ ہم نے تائیوان کو سفارتی درجہ نہیں دیا ہوا تھا کیونکہ چائنا ہمارا دوست تھا اور اُس کے تائیوان سے تعلقات خراب تھے ۔ میرادوسرا سوال کہ اس سفر سے مجھے کوئی فائدہ ہوسکتا ہے ؟اُس چینی نے میرے ترجمان میزبان سے دونوں سوال سننے کے بعد ایک چھوٹے سے ڈبے سے تین چمکدار سونے جیسے سکے نکالے اور مجھے دیتے ہوئے کہا ان کو پھینکو میں نے سکے لئے اور اُس کے سامنے چٹائی پر پھینک دیئے ۔اُس نے بکھرے ہوئے سکے اُٹھائے کاغذ پنسل سنبھالی کچھ ہندسے لکھے، کچھ چینی زبان میں کاغذ پر لکھا۔چند منٹ تک بڑبڑاتارہا پھر اُس نے میرے میزبان سے کہا ان کی قسمت میں چھ ماہ تک تو کوئی سفر سرے سے نہیں ہے اور چھ ماہ بعد کے سفر میں ان کا صرف ٹائم اور پیسہ برباد ہوگا۔ لہٰذا یہ سفر بھول جائیں تو بہتر ہے ۔میرے میزبان نے پوچھا اور کچھ پوچھنا ہے میں نے نفی میں جواب دیا اور پھر چلنے کو کہا میرے میزبان نے پاس رکھے ہوئے ڈبے میں کچھ سکے ڈالے اور مجھے باہر چلنے کا اشارہ کیا وہ بھی کچھ گھبراگیا تھا ۔باہر نکلنے کے بعد میں نے پوچھا کہ یہ بوڑھا کس حد تک صحیح قسمت کا حال بتا تا ہے اُس نے کہا لوگ دُور دُور سے بوڑھے سے قسمت کا حال پوچھنے آتے ہیں اور کبھی گھنٹوں لگ جاتے ہیں اس سے ملنے میں، آج ہماری خوش قسمتی اتوار کی وجہ سے یہ خالی مل گیا ۔باہر نکل کر اُس نے پوچھا جواب کیسے تھے میں نے کہا ایک تو فی الحال غلط ہے میری جیب میں تائیوان روانگی کا ٹکٹ ہے جوصرف 4دن بعد ہے۔

یادرہے تائیوان کا ٹکٹ ویزہ لگنے کے بعد ہی خریداجاسکتا ہے ۔دوسرا مجھے نہیں معلوم میرا یہ پہلادورہ کیسا ہوگا واپسی چونکہ ہانگ کانگ ائیرپورٹ سے ہے تو پھر بتائوں گا اور پھر میں ٹھیک چوتھے دن تائیوان روانہ ہوگیا تو اس طرح پہلی ہی پیشگوئی غلط ثابت ہوئی ورنہ میں بھی یقین کرنے والوں میں شامل ہوجاتا ۔دوسری پیش گوئی بھی بُری طرح فیل ہوئی کیونکہ مجھے ایک بہت اچھی ڈیل مل گئی اُس میں میری توقع سے بھی زیادہ منافع ملا ۔اس طرح ہی کا ایک اور واقعہ آج سے 20سال پہلے پیش آیا۔ہم ایک ہفتہ کی دوپہر ٹی وی پر چند بڑے بڑے نامور جوتشیوں کا تجزیہ دیکھ رہے تھے وہ بھارت کے کرکٹر سچن ٹنڈولکر جب انہوں نے صرف 23سنچریاں بنائیں تھی زخمی ہوکر کھیل سے باہر ہوچکے تھے، کے بارے میںمختلف حسابوں سے بتارہے تھے کہ اب ٹنڈولکر واپس کھیل میں نہیں آسکتے، اُن کا کیرئیر ختم ہوچکا ہے۔ یہ سب کا مشترکہ تجزیہ بطور علم نجوم سے تھا ۔پھر دنیا نے دیکھا ٹنڈولکر یووراج سنگھ کی طرح دوبارہ واپس آئے اور انہوں نے 51ٹیسٹ سنچریاں49ون ڈے سنچریاں اور ٹیسٹ کے ایسے ریکارڈز بنائے جنہیں ابھی تک کوئی نہیں توڑ سکا تو معلوم ہوا حساب کتاب علم نجوم کا ایک طرف اور قدرت کا نظام ایک طرف ہوتا ہے ۔لکھنے کا مقصد آئے دن ہمارے علم نجوم اور دیگر علوم سے پیش گوئیاں ہوتی رہی ہیں ۔عمران خان کی وہ پیشگوئی بھی غلط ثابت ہوچکی جو الیکشن سے پہلے بہت سے مشہورجو تشیوں نے کی تھی کہ وہ کبھی اقتدار کی شیروانی نہیں پہن سکیں گے۔پچھلے ہفتے یوٹیوب پر ایک بہت مشہور پاکستانی صاحب علم نجوم کا تجزیہ دیکھا انہوں نے پیشگوئی کی ہے 2019ء تک حالات اس طرح بکھرے رہیں گے ۔2020ء میں اپوزیشن متحد ہوکر اُن کے خلاف تحریک ِعدم اعتماد لاسکتی ہے اور 2021ء میں اُن کی حکومت گھیرائو جلائو دھرنوں کی بدولت جاسکتی ہے اور چلتے چلتے یہ بھی کہہ ڈالا اگر حالات زیادہ بگڑے تو فوج کی مداخلت بھی ہوسکتی ہے۔ فی الحال تو کراچی میں ہرجگہ توڑپھوڑکرکے کراچی کو خوبصورت بنانے کے لئے میئر کراچی نکلے ہوئے ہیں جبکہ ایسے ہی ٹھیلے ناجائز قبضے لاہور کی انار کلی میں، ملتان کے گھنٹہ گھر میں ،فیصل آباد کے 6چوراہوں میں، پنڈی کے گلی کوچوں میں، کوئٹہ کے لیاقت بازار میں ،سکھر کے چوک میں، لاڑکانہ شہر میں الغرض پاکستان کے ہر بڑے چھوٹے شہروں میں بھرے پڑے ہیں مگر ایکشن صرف کراچی میں جاری ہے۔ اسی طرح پانی کی تنگی تو پورے ملک میں ہے۔دنیا سولر سسٹم سے فضا کی نمی سے پینے کا پانی بنارہی ہےہمارے دونوں سمندر بے کار پڑے ہیں مگر ہائی رائز بلڈنگوں پر صرف کراچی والوں کو پابند کیا جارہا ہے ۔گویا بے روزگاری کی طرف کراچی رواںدواں ہے جنہوں نے ناجائز تعمیرات کروائیں وہی آج توڑتے نظر آرہے ہیں گویا یہ بازار پھر دوبارہ نئے سرے سے بیچے جائیں گے اور ٹھیلے والے پھر دوبارہ آباد کئے جائیں گے۔ یہ صدر صاحب کے لئے لمحہ فکر نہیں ؟اُن کا تعلق بھی اس شہر کراچی سے ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین