• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جیسا کام ، ویسا انجام ،پوری جاری دور کی طرح حکومت کی آئینی اختتام پذیری پر ”کرپشن“ پھر میڈیا کا بڑا موضوع بن گیا ہے ۔ موجودہ وفاقی حکومت کی مجموعی کارکردگی سے متعلق یہ سوال کیا جائے کہ اس جمہوری حکومت کا سب سے غالب پہلو کونسا رہا ؟تو اس کا مکمل اور قابل فہم جواب ہے ”کرپشن“ اس دور میں میڈیا نے ایسے ایسے مالی سکینڈلز کو بے نقاب کیا ،جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ۔ ہر ایک کا سائز اربوں میں ہے جیسے رینٹل پاور یونٹس میں کرپشن، اوگرا سکینڈل ، حج اور ایفاڈین سکینڈل، پی آئی اے ، ریلوے سٹیل ملز اور نیشنل بنک فاؤنڈیشن میں کھل کھلا کر لوٹ مار، کس کس کا رونا رویا جائے۔ پاکستان میں کرپشن اپنی انتہا کو تبھی پہنچی ہے جب انتظامی امور کو ٹیکنالوجی کے اطلاق سے ٹرانسپرنٹ بنا کر کرپشن پر 100فیصد قابو پایا جا سکتا ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن بھی گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں آخر اس طرف کیوں نہیں آئیں ؟ کیا وہ اس حقیقت سے واقعی بے خبر ہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے مخصوص نوعیت کی کرپشن (جو کل حجم میں بڑا حصہ ہے) سے مکمل نجات پائی جا سکتی ہے۔ ٹیکس چوری کے انسداد کیلئے سخت قانون سازی اور سخت ہی اطلاق سے اور بہت کچھ کرنا پڑے گا ۔ ہمیں اپنی جغرافیائی سرحدوں کے باہر ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بڑے بھلے لگتے ہیں ہم ان کے ویزوں کے لئے مرے جاتے ہیں اور ان کی شہریت اختیار کرنے پر ہر ہر دم آمادہ ہیں ۔ ان میں خالی جیبوں والے بھی شامل ہیں اور ناجائز دولت کے انبار لگا کر اگلی نسلوں کو طاقتور بنانے کے جنون میں مبتلا صاحبان اقتدار و اختیار بھی لیکن ٹیکنالوجی سمیت ترقی یافتہ دنیا کے شفاف نظام کا کوئی پہلو ہم اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں ۔
اس ضمن میں ہماری قومی مکاری لٹیروں اور لٹنے والوں کی یکساں ذہنیت سے تشکیل پائی ہے ۔ تبھی تو ہم ترقی یافتہ ممالک کے دنیا میں بہتری پیدا کرنے والے بعض قابل قدر اداروں کے اعتماد پر بھی حملہ کرتے ہیں جیسے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل اور ایمنسٹی انٹرنیشنل ،یہ پاکستان جیسے سماجی پسماندہ ممالک کے چند اجارہ دار سیاسی گروہوں کی کرپشن ، بدتر حکمرانی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو بے نقاب کرتے ہیں ۔ ایسے میں یہ بین الاقوامی تنظیمیں ہمیں سازشی، پاکستان یا اسلام دشمن نظر آنے لگتے ہیں کیا سچے پکے پاکستانی ہونے کے علمبردار اور کیا لبرل ازم کی آڑ میں جمہوریت کو اپنی داشتہ بنانے والے ان تنظیموں کے اعتماد پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔ویسے تو میڈیا اور قوم گزشتہ پانچ سال سے جاری جمہوری دور میں کرپشن کا رونا مسلسل روتی رہی ہے، لیکن بھلا ہو، دنیا بھر میں حکومت کی کرپشن پر نظر رکھنے والی جرمن تنظیم ”ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل“ کا، جس نے انتخاب کے لئے سرگرم اور پرجوش ہوتے ہم پاکستانیوں کو یہ باور کرا دیا کہ ہم نے بڑی توقعات کے ساتھ جو جمہوری حکومت تشکیل دی تھی ا س کے دور میں ”کرپشن“ کی صورتحال کیا رہی، ٹرانسپرنسی نے جو ہمیں یہ بتایا کہ ان کی مانیٹرنگ کے مطابق گزشتہ درجہ بندی میں پاکستان دنیا کا 42واں بڑا کرپٹ ترین ملک تھا جبکہ تازہ ترین مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق اب پاکستان دنیا کا 39واں کرپٹ ترین ملک قرار پایا ہے یوں ہم نے کرپشن میں 13درجے کی چھلانگ کر اسے انتہا پر پہنچایا ۔ ویسے تو موجودہ حکومت بلیم پروف ہے، بڑے سے بڑے الزام پر یہ چوکس ہوتی ہے نہ الزامات کے نتائج کی پرواہ ہے اب آغاز لیتی انتخابی مہم میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے ملک میں کرپشن کی سٹڈی کو دنیا اور پاکستانی قوم کے سامنے رکھا ہے تو حکومت بھڑک گئی ہے ۔ اور اسے اپنے امتیاز اول ، کرپشن کو ایڈریس کرنا پڑا ہے ٹرانسپرنسی کا کرپشن مانپنے کے فارمولے کے مطابق پاکستان میں روزانہ 7سے 8ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے چونکہ ٹرانسپرنسی کی رپورٹ بنتے انتخابی ماحول میں آ گئی، اس لئے اس نے دھڑے سے کرپشن کی مرتکب بلیم پروف حکومت کو بھی بھڑکا دیا ہے اس نے ٹرانسپرنسی کی رپورٹ کو جھٹلاتے ہوئے الٹا ٹرانسپرنسی کو کوسنا شروع کر دیا ہے لیکن پاکستانیوں اور عالمی برادری کے ٹرانسپرنسی پر اعتماد کو بھی کچھ وزن دینا پڑا ہے ۔ ایک جانب مرنجھا مرنج وزیر خورشید شاہ نے ٹرانسپرنسی پر سوال اٹھایا ہے کہ ”پتہ نہیں یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے دکانیں کھول رکھی ہیں “دوسری جانب ٹرانسپرنسی کی رپورٹ پر بھڑکتی وفاقی کابینہ نے شروع ہوتی انتخابی مہم کی فضا میں اس کا دباؤ محسوس کرتے ہوئے اس ٹرانسپرنسی کے الزام کی روشنی میں اپنے ہی 4وزراء پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو اس امر کا جائزہ لے گی کہ حکومت واقعی اتنی کرپٹ ہے جتنی ٹرانسپرنسی کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے ؟ حالانکہ حکومت بخومی جانتی ہے کہ وہ کتنی کرپٹ ہے ۔
اصل دھماکہ تو نیب کے چیئرمین جناب فصیح بخاری نے کیا ہے ، جن کی تقرری تو صدر آصف زرداری نے ہی کی ہے، لیکن ان کی کرپشن پر دھماکہ خیز پریس کانفرنس سے معلوم ہوتا ہے اور انہوں نے خود ثابت کیا ہے کہ وہ اب پریشر فری ہیں ۔ اب دنیا بھر کی کرپشن پر نظر رکھنے والی پاکستان سے باہر تشکیل پانے والی تنظیم کو کوئی کیسے ”دکان“ قرار دے سکتا ہے ؟ جبکہ گھر کا بھیدی ہی لنکا ڈھا رہا ہو ، جناب فصیح بخاری پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں ایک ذمے دار ادارے کے سربراہ ہیں، ان کی تقرری کے ابتداء پر یہ انگلیاں بھی اٹھیں کہ وہ صدر کے آدمی ہیں ان کی حالیہ پریس کانفرنس سے تو لگ رہا ہے وہ اللہ کے بندے ہیں اس پریس کانفرنس میں انہوں نے پاکستان میں کرپشن کے موجودہ سائز کی نشاندہی کی کہ یہ ٹرانسپرنسی کے بتائے گئے حجم سے تقریباً دو گنا ہے ۔ شاید اس لئے بھی کہ اس میں انہوں نے ٹیکس چوری کو کرپشن کے زمرے میں لیا ہے، جبکہ ٹرانسپرنسی کا پیمانہ رشوت ،غبن، کمیشن اور کیک بیکس وغیرہ کی بنیاد پر ہے ۔جناب چیئرمین نیب کے مطابق ملک میں 10سے 12روپے کرپشن اور 7روپے کا ٹیکس چوری ہوتا ہے کو ٹرانسپرنسی رپورٹ تیار کرے یا نہ کرے ، کرتے تو یہ کتنی درست ہے اور کتنی نہیں ؟ ان سوالوں کے صحیح جوابات سے بالاتر امر واقعہ تو یہ ہے کہ ملک میں کرپشن کا دور دورہ ہے، اوپر سے نیچے تک پورا ملک جیسے اس میں لتھڑا پڑا ہے جیسا کہ چیئرمین نیب نے کہا ”کرپشن کے حمام میں سب ننگے ہیں “ بخاری صاحب نے اپنے طور تو اس نیک نیتی کا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ ”کابینہ کمیٹی سے تعاون کریں گے “ سوال یہ ہے کہ کیا کابینہ کمیٹی نیب سے کسی حقیقی تعاون کی طلب گار بھی ہو گئی؟ بظاہر اس کا کوئی امکان نہیں ۔ کیونکہ کابینہ کے وزراء ہی کرپشن میں آگے آگے رہے یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ نیب کے ترجمان نے روزانہ 5سے 7ارب روپے کی کرپشن میں پنجاب سمیت دیگر صوبے بھی شامل ہیں۔ جناب فصیح بخاری نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں کہا ”میگا پراجیکٹس میں کرپشن عروج پر ہے اہم وجہ نااہلوں کی بڑے عہدے پر تعیناتی ہے ہر شعبے میں بدعنوانی کا دور دورہ ہے “ اگرچہ بالعموم گہری نیند میں مبتلا رہنے والے ہمارے وزیر دفاع نے کرپٹ حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کو بدنام کرنے کے لئے کرپشن کا شوشہ چھوڑا گیا ہے ۔اور یہ کہ بقول ان کے ”چیئرمین نیب کے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں “سوال یہ ہے کہ تمام ترترقیاتی کاموں کا ڈیٹا عوام (جن کے لئے ترقیاتی منصوبے بنائے جاتے ہیں ) کی پہنچ میں بذریعہ کمپیوٹر کیوں نہیں ؟ہر ترقیاتی ادارے اور پراجیکٹ کی ویب سائٹ تشکیل دینے میں کیا رکاوٹ ہے اور سائٹس موجود ہیں تو ان پر پراجیکٹس کی مکمل تفصیلات بمعہ اخراجات مارکیٹ ریٹ، ٹینڈرز کی تفصیلات پراجیکٹس میں تبدیلی یا آرڈر میں ترمیم اور اس کی وجہ وغیرہ کا تفصیلی ڈیٹا ڈسپلے کرکے پبلک کے لئے عام کرنا آخر کتنا محال ہے ؟ اس پر قانون سازی کتنی مشکل ہے ؟ ایسا کرنے کے لئے حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق میں کیا رکاوٹ ہے ؟ حکومت نہیں کرتی ہے تو اپوزیشن اس مطالبے سے کیوں پہلوتہی برتتی ہے ؟ ان سوالات پر حکومت اور اپوزیشن کی خاموشی کا مطلب تو پھر یہ ہی ہے کہ دونوں …
تازہ ترین