• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریکِ لبیک کے ساتھ ریاست کے کچھ اہم اداروں نے 2017ء میں کیسا معاملہ کیا تھا اور وہی ادارے 2018ء میں تحریکِ لبیک کے ساتھ کیسے نمٹ رہے ہیں، کل کے Tweets کیسے تھے اور آج کے ٹویٹس کیا کہہ رہے ہیں، گزشتہ سال عمران خان کے تحریک لبیک کے دھرنوں پر کیا خیالات تھے اور آج اُن کی اپنی حکومت میں‘ جب ماضی اپنے آپ کو دہرا رہا ہے تو خان صاحب کیا کہتے ہیں؟؟ دل چاہ رہا تھا کہ ان معاملات پر لکھوں لیکن ڈر تھا کہ لکھا تو شائع ہی نہیں ہو گا۔ وزیراعظم کے متعلق لکھنا تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن اداروں کے معاملہ میں نجانے کیوں ہمارے دوست سہیل وڑائچ صاحب کچھ زیادہ ہی حساس ہو گئے ہیں۔ وڑائچ صاحب جنگ اخبار کے ادارتی صفحہ اور اخبار میں شائع ہونے والے کالمز کے ذمہ دار ہیں لیکن نجانے اُنہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ اب کچھ لکھنے ہی نہیں دیتے۔ حکومت سے پوچھیں یا اداروں کے نمائندوں کی بات سنیں تو وہ کہتے ہیں کوئی مسئلہ نہیں، میڈیا آزاد ہے، کوئی بندش نہیں لیکن سہیل وڑائچ کو نجانے کیا مسئلہ ہے کہ کالم روکتے ہیں، بلاوجہ کی کانٹ چھانٹ کرتے ہیں۔ بات کریں تو ڈرے ڈرے ،سہمے سہمے ہوں ہاں کرتے رہتے ہیں۔ زیادہ کریدیں تو کہتے ہیں بس سمجھیں نا۔ بھئی کیا سمجھیں، اب تو کالم لکھنے کا دل ہی نہیں چاہتا!!!

میرا سہیل وڑائچ سے اچھا تعلق ہے جس کی ابتدا 2003ء میں ہوئی۔ ہم ایک ساتھ ایک ماہ کے لیے امریکا میں بھی رہے جس کی وجہ سے ہمارے درمیان ایک بے تکلفی بھی پائی جاتی ہے لیکن اب سہیل وڑائچ بدلے بدلے لگ رہے ہیں، اب نہ وہ کسی تعلق کا خیال رکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی دلیل مانتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ سہیل وڑائچ کا یہ سلوک میرے ساتھ ہی ہے، کئی دوسرے بھی وڑائچ صاحب کے بارے کچھ ایسی ہی شکایات کرتے نظر آتے ہیں۔ جنگ اخبار سے منسلک کچھ کالم نگار تو اکثر اپنے وہ کالم‘ جو وڑائچ صاحب سنسر کر دیتے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچا دیتے ہیں۔ اپنے تعلق کے لحاظ کی وجہ سے میں تو ایسا بھی نہیں کرتا لیکن برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے!!! آخر اصول بھی تو کوئی چیز ہوتے ہیں!!! اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ سہیل وڑائچ تو آزاد صحافت کے دشمن بن چکے ہیں۔ اداروں پر تو بلاوجہ الزام لگایا جاتا ہے، حکومت تو ہے ہی معصوم۔ سارا قصور سہیل وڑائچ کا ہے۔ اس لیے اب میں نے سوچا کیوں نہ اصل مرض کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ یقیناً تمام میڈیا کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، صحافیوں کو جو نکالا جا رہا ہے، میڈیا انڈسٹری کوجو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ کمزور کیا جا رہا ہے، اُس کے پیچھے بھی میرے دوست سہیل وڑائچ ہی ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کالم کو پڑھنے والے اس سب کو ایک مذاق قرار دیں گے یا پھر سمجھیں گے کہ میں بلاوجہ اپنا غصہ ایک ایسے صحافی پر نکال رہا ہوں جو خود مجبور ہے، جو بیچارا اپنی مرضی سے اپنا کالم بھی نہیں لکھ سکتا لیکن مجھے بتائیں جب صحافت اتنی کنٹرولڈ ہو گی کہ یہ نہ لکھو، وہ نہ لکھو، یہ نہ بولو، وہ نہ بولو تو پھر غصہ کسی نہ کسی پر تو نکلے گا۔ جو سچ ہے‘ وہ چاہے میں ہوں یا سہیل وڑائچ، بول نہیں سکتے۔ جہاں تک سچ کی بات اور آزادیٔ صحافت کا تعلق ہے تو میں ذاتی طور پر ذمہ دارانہ صحافت اور مثبت تنقید کا قائل ہوں لیکن اب تو اس کی بھی اجازت نہیں۔ کون کیا کر رہا ہے، کس نے ہماری سیاست اور صحافت کو ایسے قابو کر لیا کہ جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی ،اس بارے میں سب جانتے ہیں لیکن کیا کریں! سہیل وڑائچ بات ہی نہیں کرنے دیتے اس لیے میں نے تو غصہ سہیل وڑائچ پر ہی نکالنا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین