• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ کا ایک عہد ختم ہو رہا ہے۔ اس کے بطن سے ایک نیا عہد جنم لے رہا ہے۔ اس کیلئے دنیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ اس عبوری دور کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عوام دوست، تاریخ کا ادراک رکھنے والی اور جرأت مند سیاسی قیادت کا فقدان ہے اور کوئی عالمگیر سیاسی تحریکیں بھی نہیں ہیں۔ یہ مسئلہ پاکستان سمیت ان ممالک میں سنگین نوعیت اختیار کر چکا ہے، جنہیں سرد جنگ کے عہد میں تیسری دنیا کے ممالک کہا جاتا تھا۔ ان ممالک کیلئے بڑے بحران ہیں اور انہیں بڑے فیصلے کرنا ہیں۔ یہ فیصلے ایسی سیاسی قیادت کے فقدان کی وجہ سے نہیں ہو پائیں گے، جو ’’بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق‘‘ کے مِصداق کچھ کر گزرے۔ اس لئے ان ممالک کو بہت بڑے چیلنجز درپیش ہیں کیونکہ ان سے نمٹنے والی قیادت موجود نہیں ہے۔

جو عہد ختم ہو رہا ہے، اس نے سرد جنگ کے عہد کے بطن سے جنم لیا تھا۔ سرد جنگ کے عہد نے دو عالمی جنگوں کی تباہ کاریوں کی راکھ سے جنم لیا تھا۔ عالمی جنگیں نوآبادیاتی اور سامراجی عہد کا منطقی نتیجہ تھیں۔ سرد جنگ کا عہد پوری انسانی تاریخ میں ایک منفرد عہد تھا۔ اس عہد کی بنیادی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ایک طرف استبدادی، سامراجی، نوآبادی اور استبدادی قوتیں تھیں جنہوں نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی چھتری کے نیچے صف بندی کر لی۔ دوسری طرف استبداد اور استحصال کا شکار مظلوم طبقات، گروہوں اور قوموں نے اپنی الگ صف بنالی۔ یہ صف بندی عالمی سطح پر تھی، جو تاریخ میں پہلے کبھی نہیں رہی۔ سرد جنگ کے عہد کی دوسری بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں عوام دوست، ترقی پسند، انقلابی اور آتشِ نمرود میں بے خطر کود پڑنے والے سیاسی قائدین کی ایک کہکشاں عالمی افق پر نمودار ہوئی، جن کی اصل طاقت مظلوم طبقات، گروہوں اور قوموں کے ساتھ عشق تھی۔ اس عہد سے پہلے اگرچہ روس میں انقلاب برپا ہوا اور سوویت یونین کے نام سے ایک ریاست قائم ہوئی۔ لینن جیسا لیڈر بھی پیدا ہوا لیکن یہ عہد اپنی خصوصیات عالمی جنگوں کی وجہ سے نمایاں نہ کر سکا۔ چین کے ثقافتی انقلاب اور مائوزے تنگ کا ظہور بھی نئے عہد کو جنم دینے کا سبب بنے لیکن غریب، پسماندہ اور نوآبادی راج میں جکڑے ممالک میں عظیم سیاسی قائدین کا جنم لینا سرد جنگ کے عہد کی اہم خصوصیت ہے۔

ان تیسری دنیا کے ممالک میں ذوالفقار علی بھٹو، سائیکارنو، نہرو، حواری بومدین، نکرومہ، جنرل نی ون، قذافی، صدام، شاہ فیصل، فیڈل کاسترو، سوچی اور ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ اور دیگر براعظموں میں بے شمار بڑے لیڈر پیدا ہوئے، جن کی آج بہت زیادہ ضرورت ہے لیکن وہ آج نہیں ہیں اور یہ اس عبوری عہد کا سب سے بڑا بحران ہے۔ سرد جنگ کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس عہد میں طبقاتی، گروہی اور قومیتی حقوق، آزادی اور جمہوریت کی ایک عالمگیر تحریک موجود تھی۔ سرد جنگ کے اس عہد کو ہم پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اسی عہد میں پاکستان میں ترقی پسند سیاسی جماعتوں نے عوام میں جڑیں پکڑیں لیکن ان میں سے پاکستان پیپلز پارٹی سب پر غالب آگئی۔ اس وقت عالمی حالات میں پاکستان کو اہم فیصلے کرنا تھے، جس طرح آج کرنا ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو جیسا لیڈر پیدا ہوا اور انہوں نے پاکستان کو عالمی سرمایہ دار کیمپ سے نکالنے کیلئے فیصلے کر ڈالے اور وہ اس کے لئے اپنی جان پر کھیل گئے۔ انہوں نے اپنے اس مشن کی تکمیل کے لئے تیسری دنیا کے رہنمائوں کو متحد کیا۔ انہوں نے غیر وابستہ تحریک اور اسلامی ممالک کا بلاک بنانے کے لئے اہم کردار ادا کیا اور عالمی تحریکوں سے مدد لی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ پاکستان اس شکنجے سے اکیلے نہیں نکل سکتا۔

سرد جنگ کے عہد میں سامراجی اور نوآبادی طاقتوں نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے ذریعے نئے حربے استعمال کئے اور دنیا میں عوام دوست اور انقلابی سیاسی قیادت کو ختم کرنے کے ایجنڈے پر کام کیا۔ 1970ء اور 1980ء کے عشرے میں ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کو مقبول اور عوامی سیاسی قائدین کا قبرستان بنا دیا گیا اور بالآخر افغانستان میں سرد جنگ کا عہد گرم جنگ کے عبوری عہد میں داخل ہوا اور پھر وہی ہوا، جو تاریخ میں ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ عالمی سرمایہ دار قوتوں کو بالادستی حاصل ہوئی لیکن سرد جنگ کے عہد کو استحصال زدہ قوتوں کی عظیم الشان خدمات کی بھی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد 1980ء کے عشرے کے آخر میں عالمی سرمایہ دارانہ طاقتوں کی بدترین بالادستی کا نیا عہد شروع ہوا اور جدید سرمایہ دارانہ نظام دنیا پر مسلط ہوا۔ اس میں امریکہ واحد سپر پاور بن گیا اور اس نے اپنا ’’نیا عالمی ضابطہ‘‘ (نیو ورلڈ آرڈر) نافذ کیا۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ اشتراکی ممالک کے ساتھ ساتھ تیسری دنیا کے ممالک میں عظیم سیاسی قیادت موجود نہیں تھی۔ یہ عہد تاریخ انسانی کا بدترین عہد قرار پائے گا۔

اس میں جدید سرمایہ دارانہ نظام نے خود دہشت گردوں کا عالمی نیٹ ورک قائم کیا اور اس کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ شروع کی۔ اس جنگ میں صرف عوام دوست ترقی پسند قوتوں کو نشانہ بنایا گیا اور عوام دشمن اور رجعت پسند دہشت گرد تنظیموں کو تقویت پہنچائی گئی۔ نئے عالمی ضابطے والے اس عہد میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید ایک ایسی لیڈر تھیں، جو مہاتیر محمد اور محمد خاتمی جیسے تیسری دنیا کے سیاسی رہنمائوں کے ساتھ نئے عالمی ضابطے والے نظام کے نشانے پر تھیں۔ یہ سیاسی رہنما نئے عالمی ضابطے والے نظام کے خلاف مزاحمت نہیں کر سکتے تھے کیونکہ سرد جنگ والی صف بندی اور عالمگیر سیاسی تحریکیں موجود نہیں تھیں۔

ان کے پاس ’’مفاہمت‘‘ کا آپشن تھا لیکن دوسری طرف قہر آلود عالمی ضابطے والے اس نظام کے پاس بھی یہ آپشن تھا کہ وہ اس مفاہمت کو قبول کرے یا نہ کرے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو عالمی ایجنڈے کے تحت شہید کر دیا گیا۔ نئے عالمی ضابطے والا عہد اب اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے کیونکہ اس کی حشر اور قہر سامانیوں کی انتہا ہو چکی ہے۔ اگرچہ اس عہد کے خاتمے کا سبب عالمگیر سیاسی تحریکیں نہیں ہیں اور نہ ہی سرد جنگ کے عظیم سیاسی قائدین کی جرأت اور رہنمائی دنیا کو حاصل ہے۔ یہ عہد خود اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے لیکن تاریخ کے اس منطقی اور لازمی فیصلے کا مایوس کن اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ دنیا میں سرد جنگ کے عہد جیسی کوئی بڑی اور عظیم سیاسی قیادت موجود نہیں ہے، جس نے تاریخ میں استبدادی اور استحصالی قوتوں کو کاری ضرب لگائی تھی۔ بلند قامت، باشعور اور جرأت مند عوام دوست سیاسی قیادت کے فقدان کی وجہ سے نہ صرف عہد کی تبدیلی کو مظلوم طبقات اور قوموں کے حق میں استعمال نہیں کیا جا سکتا بلکہ الٹا بہت بڑے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں۔ اس وقت تیسری دنیا میں مصنوعی اور بونے سیاسی قائدین ہیں۔ اگلے ایک دو سال میں جو کچھ ’’تیسری دنیا‘‘ کے ملکوں کے ساتھ سیاسی قیادت کے فقدان کی وجہ سے ہونے والا ہے، وہ یہ بتا دے گا کہ نیا عہد کیا ہے۔ چین میں سیاسی قیادت اور سیاسی پارٹی اس وقت دنیا کی رہنمائی کر سکتی ہے لیکن ایمانداری کے ساتھ یہ رہنمائی حاصل کی جائے۔ یہ صدی چین کی ہے لیکن ہم چین کے دوست کی حیثیت سے فائدہ بھی نہیں اٹھا سکیں گے کیونکہ ہمارے کسی لیڈر کے پاس نہ اچھی ٹیم ہے اور نہ ہی مؤثر سیاسی جماعت۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین