• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی نے اپنے سے زیادہ سمجھ دار شخص سے پوچھا کہ کبوتر اور کبوتری کی ظاہری پہچان کیا ہوتی ہے؟ اسے بتایاگیا کہ یہ معلوم کرنے کے لئے ان کے سامنے دانہ ڈالیں اور خود دیکھ لیں کہ جوچگتا ہے وہ کبوتر ہوگا اور جو چگتی ہے وہ لامحالہ کبوتری ہوگی۔ ہمارے نیشنل بیورو برائے احتساب (نیب) کے چیئرمین ایڈمرل فصیح بخاری نے حساب لگایا ہے کہ پاکستان میں کرپشن، بددیانتی، رشوت ستانی اور خوردبرد کا میٹر روزانہ پندرہ ارب روپے کی رفتار سے چل رہا ہے جو ماہوار 450ارب روپے اور سالانہ 5475ارب روپے بنتے ہیں اورجو پانچ سالوں میں شاید پاکستان کی مجموعی مالیت سے بھی بڑھ سکتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ان کالموں میں یہ خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ عہد حاضر کے اقتصادی تقاضوں اور مالیاتی چال چلن کو پیش نظر رکھیں اور اس انگریزی محاورے پر بھی یقین کرلیں کہ ”ہر خوش نصیبی (فارچون) کے پیچھے کوئی نہ کوئی گھناؤنا جرم کام کر رہا ہوتا ہے یعنی حق حلال کی کمائی اورتنخواہ میں سالانہ اضافے کے ذریعے کوئی شخص امیر نہیں ہوسکتا۔ ان حالات میں ہم کسی بزرگ کو یہ کہتے ہوئے بھی سن سکتے ہیں کہ ”میں نے تواپنی بیٹی کی شادی بہت سوچ سمجھ کر دیکھ بھال کے بعد کی تھی چنانچہ اس کا ہرگز اندیشہ نہیں تھا کہ ہمارا داماد شریف اور نیک نفس نکل آئے گا اور ہماری بیٹی کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔“
عہد حاضرکے اقتصادی تقاضوں اور مالیاتی چال چلن کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنامشکل ہوسکتا ہے کہ کرپشن، بددیانتی، رشوت اور خوردبرد کسی معاشرے کے نقائص سمجھے جائیں گے یا خوبیاں قرار پائیں گی یا پھر ان میں تمیز کرنے کے لئے کبوتر اور کبوتری میں تمیز کرنے کا طریقہ استعمال کیاجائے گا؟بتایا جاتا ہے کہ اخباروں میں یا ٹی وی پروگراموں میں جب کروڑوں اوراربوں روپے کی کرپشن کی موجودگی کی خبریں شائع یا نشر ہوتی ہیں تو ان کے مرتکب عناصر کے قانون کی نگاہوں سے بچ نکلنے کے ثبوت بھی فراہم کئے جاتے ہیں جن سے براہ راست یا بالواسطہ جرائم اور جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے ایڈمرل فصیح بخاری جیسے ذمہ دار اور بہت حد تک معتبر لوگوں کی طرف سے روزانہ پندرہ ارب روپے کی کرپشن کے امکانات کا مژدہ دنیا بھر کے ”فارچون“ کے متلاشی جرائم پیشہ کرپٹ عناصر کی توجہ حاصل کرسکتا ہے۔ خود پاکستان کے غریب طبقے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا سوچ سکتے ہیں اورکرپشن، بددیانتی، رشوت ستانی اور خوردبرد کے کاروبارمیں داخل ہونے کے لئے جرائم، تخریب کاری او ر دہشت گردی کی راہیں اختیارکرسکتے ہیں اوراس اطمینان کو سرہانے رکھ کر سوسکتے ہیں کہ اگر پندرہ ارب روپے کی روزانہ کرپشن بلاخوف وخطر جاری رہ سکتی ہے تو ان کی چھوٹی موٹی بددیانتی بھی محفوظ رہ سکتی ہے اوراس کے لئے وہ پاکستان کے ان تمام احتسابی اداروں کے شکرگزار ہوسکتے ہیں اور ضرور ہوں گے کہ جو اس قدر خوفناک کرپشن اور بددیانتی کے سامنے بے بس، مجبور ہونے کے باوجود عیش و آرام سے محفوظ اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں اور سرعام اپنی ناکامی کا اعتراف کرکے اخبارات کی سرخیاں اورٹیلی ویژن نیٹ ورکس کی ”بریکنگ نیوز“ فراہم کرنے جیسی اہمیت حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان میں روزانہ پندرہ ارب روپے کی کرپشن کی خبر سے مجھے اپنے ایک اخبار نویس دوست یاد آتے ہیں جنہوں نے پانچ سالوں میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کی آبادی سے بھی زیادہ کشمیری حریت پسندوں کو شہید کردینے کی خبر یں چھاپی تھیں اور اپنی حب الوطنی سمیت صحافت سے فارغ ہوگئے تھے۔
تازہ ترین